کچھ گورنمنٹ کالج اور کچھ نیو ہاسٹل کے بارے میں


گورنمنٹ کالج، لاہور بے پناہ خوبیوں کا مرقع ہے۔ اس میں آپ کو دیکھنے کو بہت کچھ مل سکتا اگر آپ دیدۂ بینا رکھتے ہیں۔ ہر ادارہ اپنے لوگوں سے پہچانا جاتا ہے، اس لیے ذکر ان لوگوں کا جو گورنمنٹ کالج لاہور آئے، ان لوگوں کے لیے، جو اس درگاہ میں آنا چاہتے ہیں اور وہ جو اس ہنگامے کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے، آنکھیں بند کیے ہوئے یا چشم وا کیے ہوئے برداشت کر رہے ہیں۔

آپ گاڑیوں کو چتھاڑتے، پچھاڑتے، گرد و غبار سے الجھتے ہوئے گورنمنٹ کالج میں وارد ہوتے ہیں تو آپ کا دنیا کو فتح کرنے کا شوق سکندر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ آپ کے پیر زمین پہ لگ ہی نہیں رہے ہوتے۔ گوتھک لیڈی پر جب نظر پڑتی ہے تو بس پھر مت پوچھیے دیوانوں کا حال۔ یہ دیوانگی اتنی شدت سے آپ پہ طاری ہوتی ہے کہ آپ فوراً موبائل فون میں تصویر بناتے ہیں اور فیس بک سٹیٹس اور وال پیپر لگاتے ہیں۔ اس دوران چلتے چلتے بھانت بھانت کے لوگوں پہ آپ کی نظر پڑتی، کئی لوگوں سے آپ کی نظریں الجھ جاتی ہیں، کئی کو آپ دیوانہ وار بس تکتے چلے جاتے ہیں، کئی آپ کو ایک ہی نظر میں خود سے بیگانہ کر دیتے ہیں، کئی آپ کو ہاتھوں میں کتابیں تھامے نظر آتے ہیں، کئی حسیناؤں کے بیگ اٹھائے سگان بے دام کی طرح دم ہلاتے نظر آتے ہیں، کئی بال بڑھائے، کانوں میں مندریں ڈالے، کئی مباحث کے رسیا۔ مستورات کی تو پوچھیے ہی مت۔ وہ تو ایسے محسوس ہوتی ہیں کہ کسی فیشن شو میں آئی ہوں۔ ویسے رونق محفل تو وہی ہوتی ہیں۔

خاموش اے دل! بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

تو لیجیے ہم نے چپ سادھ لی۔ ویسے گورنمنٹ کالج کی مستورات بہت دبنگ ہوتی ہیں۔ ان سب باتوں سے نکلتے ہوئے آپ جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ اب اساتذہ بھی کئی طرح کے آپ کو ملیں گے۔ زیادہ تر اپنی ہی دکان سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنی ذات میں ارسطو۔ کچھ بزرجمہر تو کچھ حکیم جالینوس۔ اگر کسی نے ان اساتذہ سے اختلاف برتا تو بس وہ تو گیا۔ آپ جس بھی استاد کی کلاس میں بیٹھیں سب جمہوریت کی بات کرتے ملیں گے جب کہ پریکٹس ڈکٹیٹرشپ کرتے نظر آئیں گے۔ بہت کم آپ کو حقیقی اساتذہ ملیں گے۔

گورنمنٹ کالج میں آپ کو ہر دوسرا طالب علم ہاتھ میں کتاب پکڑے نظر آئے گا۔ کچھ تو اس کتاب کی نمائش چار سال تک مسلسل کرتے ہیں، کچھ ہر روز بدلتے ہیں، کچھ ہر ماہ بدلتے ہیں۔ ہر ایک کے دورانیے میں فرق ہے۔ باتیں کریں گے تو خود کو بقراط سے بھی بڑھ کر سمجھیں گے، مگر ہوں گے خالی برتن، جو صرف شور مچاتے ہیں، آسمان سر پہ اٹھانا جانتے ہیں۔ اس لیے ایسے ٹوڈی مسٹرز سے مرعوب ہونا ضروری ہے۔

گورنمنٹ کالج میں زیادہ بہتات شدت پسندوں کی ہے۔ کچھ آزاد خیال شدت پسند، سب سے بیزار سوائے اپنے آپ کے، کچھ مذہب کے جنونی۔ ان دونوں گروہوں کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ یہ دوسروں کی آراء پر اچھلتے ہیں۔ بحث و مباحث سن کر ایک دوسرے کو للکارتے ہیں۔ کتاب دوست و کتاب پرور کبھی شدت پسند نہیں ہو سکتا۔ شلوار قمیص پہننے والا اجڈ اور گنوار تصور ہوتا ہے۔ انگریزی بولنے والے اور اوکھی انگریزی لکھنے والے کو دیوتا سمجھا جاتا ہے۔

سب اس دیوتا کے چرنوں میں بیٹھنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ انگریزی دان کے قدموں میں بس بچھے چلے جاتے ہیں اور وہ ان پر برابر چلنا جاری رکھتا۔ جس کو انگریزی آتی ہے اس کو سب کچھ آتا ہے۔ جس کو سب کچھ آتا ہے مگر انگریزی نہیں آتی اس کو کچھ بھی نہیں آتا، اسی لیے انگریزی کے پرچے میں کافی طلبا بازی ہار جاتے ہیں۔ انگریزی کے اساتذہ سے تو توبہ ہی بھلی! جو لوگ تقریر کرتے ہیں وہ بس تقریر ہی کرتے ہیں۔ اپنے علاوہ کسی اور کا وجود ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ بس علم کے دیو وہی ہیں۔ ہر بات میں فی نکالتے ہیں۔

گورنمنٹ کالج میں بے شمار سیاست دان پیدا ہوتے ہیں اور پاکستانی غربت کی طرح بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ حاکم وقت کو سلام کرنا، مداہنت کرنا اور پیٹھ پیچھے اس کی برائیوں کی مالا جپنا ہی ان کی ڈیوٹی ہے۔ اساتذہ کے راز طشت از بام کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ سیاسیات کے طلبا کی تو ایک ایک چال سے ہارمونیم کی طرح زمزمے پھوٹے پڑتے ہیں۔ ان کی حالت ہمیشہ نیمے دروں نیمے بیروں رہتی ہے اور اسی بات پہ یہ عمل پیرا رہتے ہیں۔

ان کو اپنے علاوہ سب شودر نظر آتے ہیں۔ ٹاپرز کے بارے میں ان کے مسابقین میں یہ کہانی زبان زد عام ہوتی ہے کہ اس نے اساتذہ کی چاپلوسی کر کے نمبر لیے ہیں، اس لیے گورنمنٹ کالج میں گولڈ میڈل لینا بہت آسان ہے۔ سی ایس ایس کی وبا گورنمنٹ کالج میں عام ہے۔ اس کا بخار ہر ایک کو چڑھتا ہے جو ایک ہی کوشش میں اتر بھی جاتا ہے۔ گورنمنٹ کالج میں قدم رنجہ فرماتے ہی آپ اردو کے علامہ بن جاتے ہیں اور لکھنے کا ایسا شوق سوار ہوتا ہے کہ پوچھیے ہی مت۔ آپ کو علم کے سمندر یونیورسٹی میں عام گھومتے نظر آتے ہیں۔ راوین ہونے پر فخر بھی کافی سستا ہے جو ہر کوئی کرتا ہے مگر اولڈ راوینز جتنا کوئی بھی نہیں کرتا۔

جو گورنمنٹ کالج آیا اور نیو ہاسٹل میں نہ رہا اس کے راوین ہونے پہ شک سا ہوتا ہے۔ اس کی روایات ہی نرالی ہیں۔ ہم نے اچھے اچھوں کو اس کا قتیل پایا ہے۔ ہر کوئی اپنی ذات میں دنیا بسائے ہوئے ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنا تھڑا جمائے ہوئے ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنی ہی رام لیلا رچائے ہوئے ہوتا ہے۔ کمرے کپڑوں سے لدے رہتے ہیں۔ کتابیں سب کے کمروں میں نظر آتی ہیں مگر آرام کرتی ہوئی۔ یہاں بھی کتابوں کی نمائش عام ہے۔ کمروں میں قہقہے رات گئے تک بکھرتے رہتے ہیں۔

عبداللہ بن ابی جیسے کردار یہاں عام ہیں۔ سیاسیات کے طلبا یہاں بھی اپنا شکوہ قائم رکھتے ہیں مگر دوسرے ہی سال یہ شکوہ شرمانے لگتا ہے اور آئندہ برسوں میں مرجھا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کی تیاری تو ہاسٹل میں قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔

ہاسٹل میں ادبیات کے جوگی شاعروں کی کافی بہتات ہے جو کہ حقیقت میں متشاعر ہیں۔ یہاں ہر کوئی قلم کا دھنی ہے بس دھنی ہی ہے۔ گورنمنٹ کالج میں طلبا اردو میں سوچتے ہیں اور انگریزی میں ژولیدہ بیانی کرتے ہیں۔ کمروں کے حصول کے لیے سیاست کی تو پوچھیے ہی مت۔ اس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگتی ہے۔ ہر کوئی پیراڈائز میں کمرہ لینے کے لیے برسر پیکار رہتا ہے، دماغ سوزی کرتا ہے۔ گورنمنٹ کالج اور نیو ہاسٹل اپنی اپنی ذات میں کائنات ہیں، اس کائنات میں کئی رنگ ہیں، اس رنگ میں رنگنے کے لیے یہاں آنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments