کیا پاکستانی عورت کے بنیادی مسائل یہی ہیں؟


نظریے آفاقی ہوتے ہیں اور اپنے اندر کائناتی منظر پیدا کرتے ہیں لیکن وہ نظریات جو تضادات کی بناء پر تشکیل پاتے ہیں، اپنے کینوس کے اندر ضم ہو کر اپنی موت آپ مر جاتے ہیں لیکن اگر کسی نظریے میں آفاقی عناصر وجود رکھتے ہوں تو وہ تحت السریٰ سے بلند ہو کر گنبد آفاق میں اپنی حقانیت کا اعلان کرتا ہے ، چاہے وہ مارٹن لوتھر کا مذہبی نظریہ ہو یا جرمن فلاسفر کارل مارکس کا نظریۂ اشتراکیت و اشتمالیت ہو ، وہ ایک بڑے طبقے کو اپنا گرویدہ بنا ہی لیتا ہے۔

یہاں میں بابلی، مصری اور وادیٔ سندھ کی تہذیب میں جنم لیتے نظریات کی بات کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی یونانی فلسفے اور مغربی عقلیت پسندی کے مدارج پر بحث کرنا چاہتا ہوں ۔ میرا آج کا مضمون کائناتی منظرنامے پر دھنک کی طرح رنگ بکھیرتی عورت ہے۔

عورت جسے اپنا وجود منوانے میں صدیاں لگ گئیں اور پھر وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے درجۂ انسانیت سے اتار دی گئی اور آج کے جدید دور میں ایک جنس دو اقسام میں تقسیم کر دی گئی ہے۔ ایک فرماں بردار عورت اور دوسری فاحشہ عورت۔ فرمانبردار عورت تو ہو گئی ہمارے معاشرے کی روایتی عورت جو ساری زندگی باپ، خاوند اور سرپرست کے زیر سایہ زندگی اس لئے گزار دیتی ہے تاکہ ان سے کفن حاصل کر سکے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ فاحشہ عورت کون ہے؟

اگر مجھے یہ لگتا ہے کہ نظریۂ تانیثیت(فیمینزم) کی حامی عورت فاحشہ عورت ہو گی تو سوال یہ ہے کہ کیا نظریۂ تاثینیت فحش حرکات کی حمایت کرتا ہے؟ نہیں اس نظریے کو سمجھے بغیر ایسی رائے قائم کرنا اخلاق باختگی ہے۔

تو پھر ضروری ہے کہ نظریۂ تانیثیت کو سمجھا جائے اور اس کے محرکات کا تجزیہ کیا جائے۔

نظریۂ تانیثیت مؤنث سے متعلق ہے اور یہ حقوق نسواں کی وکالت کرتا ہے کہ عورت کے وجود سے لے کر اس کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔

سیاسی حقوق میں پہلا حق عورت کو سیاسی زندگی عطا کرنا ہے، اسے آزادانہ اظہار رائے کی آزادی دی جائے، ووٹ کا حق، الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لینے کا حق تاکہ وہ عام مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکے۔ لیکن پھر سوال پیدا ہو گیا کہ کیا پاکستان میں ایک عورت یہ تمام سیاسی حقوق حاصل کر سکتی ہے؟

معاشرتی حقوق میں عورت کے معاشرتی رویے اور چال چلن کی آزادی ہے ، لیکن یہ حقوق مانگنے والی عورت زیادہ تر فاحشہ ہونے کی تہمت سہتی ہے۔ اگر وہ پسند کی شادی کا مطالبہ کرے، اگر وہ خاوند کے ظلم کی شکایت کرے، اگر وہ طلاق لے کر آزادانہ زندگی گزارنا چاہے، اگر وہ وراثت میں اپنا حصہ طلب کرے تو اس پر فاحشہ ہونے کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ لیکن پھر یہ سوال کہ اس سب میں فحاشی کہاں ہے؟

پھر معاشی حقوق کہ وہ آزادانہ طور پر ذریعۂ معاش سے وابستہ ہو سکے، لیکن یہاں پھر فاحشہ عورت ہی کے طور پر منظر عام پر آتی ہے اگر وہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرے، اگر وہ کیفے کی میزوں پر قہقہہ لگاتی ہے اور پدرشاہی نظام کو للکارتی ہے تو بھی مورد الزام ٹھہرتی ہے۔ لیکن سوال پھر بھی قائم ہے کہ اس میں فحاشی کہاں ہے؟

چلیں یہاں سوال تبدیل کرتے ہیں تاکہ جواب مل سکے ، کیا فیمینزم پاکستان میں ان مظاہر کی عکاسی کرتا ہے جو اس کی بنیاد میں پنہاں ہیں؟ اس کے لئے اس کے حامیوں کی سرگرمیوں کا تجزیہ ضروری یے جو ہر سال یوم نسواں پر حقوق نسواں کے لئے یوں آواز بلند کرتی ہیں ’’میرا جسم میری مرضی، اپنا کھانا خود گرم کرلو، اپنی نظریں نیچی رکھو کیونکہ پردے کی مجھے نہیں تمہیں ضرورت ہے اور آخری نعرہ ”لو بیٹھ گئی سیدھی ہو کر۔‘‘ لیکن یہاں ایک سوال اور پوچھ لیتے ہیں کہ کیا پاکستانی عورت کے بنیادی مسائل یہی ہیں؟ کیا وہ صرف جنسی مسائل میں پھنسی ہوئی ہے؟ کیا وہ کھانا گرم کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی؟ اگر عورتکے مسائل یہی ہیں تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نظریہ دم توڑ رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظریے کو اس معاشرے کی پسماندہ عورت کے مسائل سے جوڑا جائے، دفتر میں ہراسمنٹ کا شکار ہوتی مجبور عورت کی آواز بنایا جائے اور پھر ان مسائل کے حل کے لئے اخلاقی ترغیب کے ساتھ ساتھ قانون سازی کی جائے جس میں عورت کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔

قومی سطح پر عورت کے کردار اور اس کی خدمات کے لئے ادارے قائم جائیں اور ان اداروں میں گھریلو تشدد کی شکار عورتوں کے لیے خصوصی سیل قائم کیے جائیں تاکہ عورتوں کی تشفی ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ عورت کو یہ سکھایا جائے کہ عورت اور مرد کائناتی پردے کے لازمی کردار ہیں اور مرد سے نفرت سے اس نظریہ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments