شام: امن کی باتیں ، جنگ کی تیاری


\"mujahid

یورپین ملکوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن میں اقوام متحدہ اور برطانیہ کے زیر انتظام منعقد ہونے والی کانفرنس میں شام کے پناہ گزینوں کے لئے پانچ ارب ڈالر فوری طور پر فراہم کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے سات ارب ڈالر جمع کرنے کا قصد کیا تھا لیکن سیکرٹری جنرل بانکی مون نے اس خطیر رقم پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب لبنان ، اردن اور ترکی کے عارضی کیمپوں میں مقیم پناہ گزینوں کے علاوہ شام کے اندر بے گھر ہونے والے لوگوں کو بھی ضروری انسانی امداد فراہم کی جاسکے گی۔ تاہم گزشتہ دو روز کے دوران شام کی خانہ جنگی کے بارے میں اچھی خبریں موصول نہیں ہوئی ہیں۔ ترکی شام پر چڑھائی کرنے کی تیاری کررہا ہے جبکہ سعودی عرب نے شام میں زمینی لڑائی کے لئے فوجی دستے فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔  یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس وقت داعش کے خلاف سرگرم اتحادی شام یا عراق میں زمینی جنگ میں مشغول نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کارروائی صرف فضائی حملوں تک محدود ہے۔ پھر اچانک اس سعودی پیشکش اور ترکی کی فوجی تیاریوں پر امریکی خوشی اورخاموشی کا کیا مقصد ہے۔ ادھر جنیوا میں شامی حکومت اور اپوزیشن میں ہونے والے امن مذاکرات حلب پر چڑھائی کی خبروں کے بعد معطل ہوچکے ہیں۔

لندن میں جمع ہونے والے 70 ملکوں کے وزرائے اعظم اور دیگر لیڈروں نے شام کے مہاجرین کی صورت حال پر غور کیا۔ اقوام متحدہ اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد شام میں جنگ سے متاثرین کی مدد کے لئے وسائل اکٹھا کرنا ہے۔ اس موقع پر پاکستانی نژاد نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی بھی موجود تھیں۔ انہوں نے مندوبین پر واضح کیا کہ جنگ زدہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم پر توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ یہی بچے کل کو ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس موقع پر جو فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، ان میں سے 15 فصد تعلیم پر صرف ہوں گے۔ ملالہ یوسف زئی نے اسے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ تاہم مہاجر کیمپوں میں کام کرنے والی اکثر تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگرچہ مالی امداد بے حد ضروری ہے لیکن جنگ کے خاتمہ کے لئے مؤثر کوشش کئے بغیر اس کا خاص فائدہ نہیں ہو گا۔  شام میں جنگ کے خاتمہ کی بجائے صورتحال ابتر ہو رہی ہے۔ جنیوا میں اپوزیشن اور شامی حکومت کے درمیان مذاکرات معطل کر دئیے گئے ہیں۔ بشار الاسد کی فوج روسی فضائیہ کی مدد سے تیسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کے لئے حملہ کر رہی ہے۔ اس شہر کا نصف حصہ ان باغی گروہوں کے کنٹرول میں ہے جنہیں مغربی ممالک ، ترکی اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔

\"syria\"

جنیوا میں اقوام متحدہ کے نمائندے سٹیفن ڈی مسٹورا نے بدھ کو حلب میں جنگ تیز ہونے کے بعد مذاکرات معطل کر دئیے تھے۔ اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ تعطل عارضی ہے لیکن اس کا دار و مدار زمینی صورتحال پر ہو گا۔ باغی گروہ انسانی امداد کے نام پر اپنے علاقوں کو شامی فوج کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے مذاکرات سے پہلے ہی محاصرہ ختم کرنے اور سپلائی بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن شامی افواج گزشتہ چار ماہ کے دوران روس سے ملنے والی فوجی امداد اور روسی فضائیہ کے تعاون کی وجہ سے خود کو مستحکم اور حوصلہ مند محسوس کر رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں سرکاری شامی افواج نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خاص طور سے ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع ترکمستان کے علاقوں میں شامی فوج کی پیش قدمی نے صدر اردگان کی حکومت کو ناراض کیا ہے۔ اسی غصے کے اظہار کے لئے گزشتہ نومبر میں ترک فضایہ نے ایک روسی جنگی طیارہ مار گرایا تھا، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے متعدد مواقع پر واضح کیا ہے کہ وہ بشار الاسد کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ان کے خلاف دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو کچل دیا جائے گا۔ روس الزام عائد کرتا رہا ہے کہ ترکی شام میں دولت اسلامیہ کے دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے اور انہیں مالی وسائل فراہم کرنے کے لئے ان کے علاقوں سے اسمگل شدہ پیٹرول بھی خریدتا ہے۔ ترک حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا مقصد شام سے بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کی آباد کاری اور سہولت کے لئے وسائل مہیا کرنا ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس یورپی ملکوں نے خاص طور سے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطیر رقوم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان میں جرمنی ، برطانیہ ، ناروے ، ڈنمارک اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ عرب ممالک میں سے صرف کویت نے قابل ذکر امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ آئندہ چار برس کے دوران 900 ملین ڈالر دے گا۔ 2015 میں اس مقصد کے لئے منعقد ہونے والی کانفرنس میں 3 ارب سے بھی کم رقم کے وعدے کئے گئے تھے۔ ان میں سے بھی صرف نصف رقم وصول ہو سکی تھی۔  ترکی ، اردن اور لبنان کے لیڈروں نے کانفرنس کو بتایا کہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کی مدد کرنا ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ ترک وزیراعظم داﺅد اوغلو نے بتایا کہ شام میں تازہ ترین جنگی کارروائیوں کی وجہ سے گزشتہ 24 گھنٹے میں مزید 70 ہزار پناہ گزین ترکی پہنچے ہیں۔ لبنان کے رہنماﺅں نے بتایا کہ حالات قابو سے باہر ہیں اور پناہ گزینوں کو بنیادی سہولت فراہم کرنے کے لئے فوری امداد کی ضروری ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے بتایا کہ اس وقت ان کے ملک کی ایک چوتھائی آبادی شامی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔ یہ صورتحال ملک کے سماجی ڈھانچے اور مالی وسائل کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ یورپی لیڈروں نے جنگ زدہ علاقوں میں امداد میں اضافہ کرنے پر زور دیا۔ خاص طور سے پناہ گزین کیمپوں میں 10 لاکھ بچے تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اردن ، لبنان اور ترکی میں پناہ گزینوں کیمپوں میں صفائی کی صورتحال خراب ہےاور راشن کی سپلائی بھی محدود ہے۔
شام کی 5 سالہ خانہ جنگی میں ملک کی نصف آبادی یعنی ایک کروڑ سے زائد لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے 50 لاکھ لوگ تو اپنے ہی ملک میں دربدر ہیں اور ایسے بے گھر ہونے والوں کی امداد کے لئے بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں بشار الاسد کی فوج کے علاوہ باغی عسکری گروہ اور متعدد دہشت گرد گروہ مختلف علاقوں پر قابض ہیں اور اپنی شرائط پر ہی عالمی امداد کو ضرورت مندوں تک پہنچنے کی اجازت دیتے ہیں۔ 50 لاکھ کے لگ بھگ پناہ گزین اپنا ملک چھوڑ کر ہمسایہ ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔ تاہم یورپ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ کسی نہ کسی طرح وسائل جمع کر کے انسانی اسمگلروں کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے اور مختلف ملکوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ وہ پرسکون ماحول میں سانس لے سکیں۔ 2015 کے دوران دس لاکھ پناہ گزین یورپ کے مختلف ملکوں میں پہنچے ہیں۔ کثیر تعداد میں مہاجرین کی آمد کی وجہ سے بیشتر یورپی ممالک شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ اس سیلاب کو روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس لئے اب یورپین یونین کے ممالک بڑھ چڑھ کر مالی وسائل فراہم پر آمادہ ہیں تا کہ ہمسایہ ملکوں یعنی ترکی ، لبنان اور اردن کی حکومتوں کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف روانہ نہ ہونے دیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ حکمت عملی کس تک کامیاب ہو گی، کیونکہ انسانی اسمگلروں کے جرائم پیشہ گروہ پورے یورپ میں منظم ہیں اور پناہ گزینوں سے کثیر رقوم لے کر انہیں یورپ اسمگل کر رہے ہیں۔
لیکن اس سے بھی بڑا اندیشہ یہ ہے کہ ترکی میں امن کی امید اب جنگ کے خوف میں تبدیل ہو رہی ہے۔ شام کی حکومت کو روس اور ایران کی حمایت حاصل ہے اور وہ خود کو مضبوط محسوس کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ علاقے باغیوں اور دہشت گردوں سے واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ حلب پر حملہ میں مبینہ طور پر ایرانی فوجیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ باغیوں سے بات چییت کے ذریعے امن معاہدہ کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ باغی گروہ اور ان کے حامی یورپ ، امریکہ ، ترکی اور سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ شام میں جنگ کو محدود کر کے محصور علاقوں میں انسانی امداد فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اصولی طور پر شامی حکومت اس بات کو تسلیم کرتی ہے لیکن وہ زمین پر اپنی فوجی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور اس کے حامی روس کا موقف ہے کہ دہشت گرد عناصر سے نہ تو مذاکرات ہو سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں سکون سے خود کو طاقتور ہونے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور اس کے حامیوں کا مسلسل دعویٰ ہے کہ روس کی سرکردگی میں شامی افواج دراصل سیاسی اپوزیشن گروہوں کے زیر تسلط علاقوں میں کارروائی کر رہی ہیں۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ روسی فضائیہ بھی داعش یا دیگر دہشت گرد گروہوں کی بجائے سول حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے بشار مخالف عناصر کو نشانہ بنا رہی ہے۔ حلب پر حملہ کی وجہ سے صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ حلب شام کا تیسرا بڑا شہر ہے اور اس کے نصف حصہ پر بشار مخالف باغیوں کا قبضہ ہے۔ اب شامی افواج نے اس حصے کا محاصرہ کر کے حملہ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ حلب ترکی کی سرحد سے 50 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں پر موجود عسکری گروہوں کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ اس حملہ کی صورت میں ترکی کو شدید تشویش ہو گی اور وہ اپنے حامی عناصر کی امداد کے لئے بے چین ہو گا۔
روس نے الزام لگایا ہے کہ ترک فوم شام پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ امریکی حکومت کے ترجمان نے اس الزام پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس دوران یہ حیرت انگیز خبر بھی سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب کے فوجی ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ اگر اتحادی شام میں داعش کے خلاف زمینی کارروائی پر راضی ہوں تو سعودی فوجی دستے وہاں پر لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ سعودی عرب فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے طاقتور ملک ہے لیکن اس کی فوج کو نہ لڑنے کا تجربہ ہے اور نہ اس نے کبھی اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یمن کی جنگ میں بھی زیادہ تر فضائی حملوں پر انحصار کیا گیا تھا۔ اس لئے موجودہ حالات میں شام میں زمینی فوج بھیجنے کی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں داعش کے خلاف سرگرم اتحاد اس آپشن پر بھی غور کر رہا ہے۔ اس درپردہ حکمت عملی کے نتیجہ میں اگر ترک فوج اور سعودی دستے شام میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں تصادم بھیانک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ خاص طور سے ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اس کے جنگ میں ملوث ہونے کی صورت میں نیٹو ممالک کو اصولی طور پر اس کی مدد کرنا ہو گی۔ دوسری طرف روس کسی صورت شام میں اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔
امریکی دفتر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وزیر خارجہ جان کیری نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے فون پر بات کی ہے۔ اب وہ شام میں جنگ بندی کے سوال پر بات کرنے کے لئے یورپ کا دورہ کریں گے۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ شام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی معاہدہ کے لئے جنگ بندی بہت ضروری ہے۔ اگرچہ سب فریق جنگ بند کرنے ، سیاسی عمل بحال کرنے اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق ان ارادوں کی تصدیق نہیں کرتے۔ سعودی عرب فوجی دستے بھیجنے کی بات کر رہا ہے اور ترک فوج شام پر حملہ کے لئے تلی نظر آتی ہے۔ امریکہ نے اگر اس موقع پر اپنے حلیفوں کو جنگ جوئی سے باز رکھنے کی کوشش نہ کی تو یہ اندیشہ موجود ہے کہ جنگ زدہ شام میں بڑی طاقتوں روس اور امریکہ کے تعاون سے مختلف فوجوں کے درمیان تصادم شروع ہو سکتا ہے۔ یہ ٹکراﺅ تباہ کن ثابت ہو گا اور پورے مشرق وسطیٰ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس قسم کی جنگ میں شہری نشانے پر ہوں گے جبکہ دہشت گرد جو خود کو محصور محسوس کر رہے تھے، پھر سے قوت پکڑنے لگیں گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments