خطے میں ہلچل مچا دینے والا خط


میری دانست میں فی الوقت سب سے بڑی ’’خبر‘‘ امریکی وزیر خارجہ کا وہ خط ہے جو اس نے افغان صدر اشرف غنی کو لکھا ہے۔اس خط کو غور سے پڑھیں تو بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے کئی ہفتوں تک مذکورہ خط کی وجہ سے فقط افغانستان ہی میں نہیں پاکستان سمیت ہمارے خطے میں بہت ہلچل مچی رہے گی۔

ابھی تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہمیں اس گماں میں مبتلا رکھا تھا کہ افغانستان میں اس ملک کے آئین کے تحت ’’منتخب‘‘ ہوئی ایک ’’حکومت‘‘ ہے۔ اشرف غنی اس کے صدر ہیں۔ اس ’’منتخب‘‘ صدر کو تاہم دُنیا کے طاقت ور ترین جمہوری ملک نے اب یہ مشورہ دیا ہے کہ اپنے آئین وغیرہ کو بھلاتے ہوئے افغانستان میں ’’عبوری حکومت‘‘ کے قیام کی کوئی راہ نکالے۔ طالبان کو یقینا اس حکومت میں وافر حصہ دینا پڑے گا۔وہ فیصلہ سازی کے عمل میں کلیدی کردارحاصل کرنے کے بعد ہی ایسی ’’جنگ بندی‘‘ کو رضا مند ہوسکتے ہیں جو افغانستان میں موجود امریکی افواج کی وطن واپسی کو ’’باعزت اور محفوظ‘‘ دکھائے۔

طالبان مگر اشرف غنی کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کو ’’قابض افواج‘‘ کی ’’کٹھ پتلی‘‘ حکومت شمار کرتے ہیں۔ وہ خود کو وہاں جاری خانہ جنگی کا محض ایک ’’فریق‘‘ ٰتصور نہیں کرتے۔خود کو ’’امارتِ اسلامی‘‘ پکارتے ہوئے وہاں کی ’’جائز‘‘ حکومت قرار دیتے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کے دوران نامزد ہوئے زلمے خلیل زاد نے ان کے دعویٰ کو سفارتی زبان میں تسلیم کررکھا ہے۔طالبان اس کے عوض امریکی افواج کو افغانستان سے واپسی کا ’’محفوظ راستہ‘‘ دینے کو رضا مند ہوگئے۔ان سے وعدہ ہوا کہ مئی 2021کے اختتام تک افغانستان میں کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں رہے گا۔اس کے بعد کیا ہوگانظر بظاہر یہ واشنگٹن کی ذمہ داری نہیں۔

’’جمہوری نظام‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کی اپنے تئیں ’’ماما‘‘ بنی سپرطاقت کی چند منافقانہ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو تاہم ان کی اصلیت کا بخوبی احساس ہے۔ 1958سے 1968تک ہمارے ہاں فیلڈ مارشل ایوب خان کی قیادت میں جو ’’عشرہ ترقی‘‘ نمودار ہوا تھا’’جمہوریت‘‘ اس کا ہرگز سبب نہیں تھی۔ان کی فراغت کے بعد جنرل یحییٰ تشریف لائے تو انہوں نے نکسن کو کمیونسٹ چین سے روابط استوار کرتے ہوئے ’’تاریخ‘‘ بنانے میں بھرپور معاونت فراہم کی۔

وہ معاونت مگر پاکستان کو متحد رکھنے میں مددگار ثابت نہ ہوئی۔’’مشرقی پاکستان‘‘ بنگلہ دیش میں بدل گیا۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو بقیہ پاکستان میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ متعارف کرانے کے لئے تقریباً پانچ برس ملے۔ بات مگر بنی نہیں۔ بالآخر جنرل ضیاء کو ایک اور ما رشل لاء لگانا پڑا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اس مارشل لاء کے دوران سپریم کورٹ کی معاونت سے پھانسی پر لٹکایا گیا۔ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو برسرعام کوڑے لگائے گئے۔نام نہاد ’’جمہوری‘‘ ممالک میں البتہ ایسے واقعات کے بارے میں کوئی فکر مندی دیکھنے کو نہیں ملی۔دسمبر1979میں جب افغانستان میں روسی افواج درآئیں تو ’’جہاد‘‘ کے ذریعے ان کی مزاحمت کا فریضہ جنرل ضیاء کی قیادت ہی میں اپنے انجام کو پہنچا۔ امریکہ ان کے عزم اور بصیرت کا دل وجان سے گرویدہ رہا۔ ’’جہاد‘‘ نے سوویت یونین کو ماضی کا قصہ بناڈالا تو پاکستان کو 1988سے 1999تک ایک بار پھر ’’جمہوریت‘‘ چلانے کی مہلت ملی۔بات مگر پھر بھی بن نہیں پائی۔ جنرل مشرف اقتدار سنبھالنے کو مجبور ہوئے۔نائن الیون کے بعد ان کی ’’روشن خیالی‘‘بھی ’’مہذب‘‘ دنیا تسلیم کرنے کو مجبور ہوئی۔

ایسی ’’تاریخ‘‘ کے ہوتے ہوئے مجھے پاکستان کے وہ ’’لبرلز‘‘ اور ’’جمہوریت پسند‘‘ اکثر مضحکہ خیز سنائی دیتے ہیں جو دعویٰ کررہے تھے کہ ٹرمپ کی شکست کے بعد نمودار ہوئی بائیڈن انتظامیہ افغانستان سے اپنی افواج باہر نکالتے ہوئے ’’انسانی حقوق‘‘ وغیرہ کے احترام کا یقینی بندوبست بھی دیکھنا چاہے گی۔ امریکی وزیر خارجہ کا تہہ دل سے شکریہ۔ انہوں نے اشرف غنی کو ایک چٹھی لکھ کر اپنے ملک کی حقیقی ترجیحات کو لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کردیا ہے۔افغانستان کو اب ’’امارات اسلامی‘‘ کے سپرد ہی کرنا پڑے گا۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔

عام پاکستانی ہوتے ہوئے تاہم میرے اندر موجود’’ذات کا رپورٹر‘‘ امریکی وزیر خارجہ کی لکھی چٹھی میں اپنے ’’ازلی دشمن‘‘بھارت کے ذکر کے حوالے سے پریشان ہوا ہے۔افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے لئے ہوئے بندوبست کی تیاری کے لئے جن ممالک سے تعاون کا تقاضہ ہوا ان میں بھارت کا نام بھی نمایاں ہے۔سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ہمارے ’’شریک‘‘ کو افغانستان سے جڑے معاملات سنبھالنے کے لئے ’’شراکت دار‘‘ یا Stakeholders تسلیم کرلیا گیا ہے۔

مجھے گماں تھا کہ پاکستان اور ایران ہی اس ضمن میں حقیقی شراکت دار تصور کئے جائیں گے۔ابھرتی ہوئی معاشی قوت کے تناظر میں چین کی دلجوئی بھی سمجھ میں آتی ہے۔ روس کی افغانستان کے ساتھ تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔اس کا ذکر بھی سرآنکھوں پر۔افغان فریقین کے مابین مذاکرات کے لئے نیٹو کے مسلم ملک -ترکی- کا انتخاب بھی حیران کن نہیں۔ بھارت کا ذکر البتہ جذباتی نہیں ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر مجھے چونکانے کا باعث ہوا۔

ٹھوس اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں ہرگز اس قابل نہیں کہ معلوم کرسکوں کہ ہمارے پالیسی ساز بھارت کو افغانستان سے جڑے معاملات سنبھالنے کے لئے ’’شراکت دار‘‘ بنانے کی بابت کیا محسوس کریں گے۔روایتی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ’’اندر کی خبر‘‘بنانے والوں سے رہ نمائی حاصل کرنا چاہوں گا۔

’’اندر کی خبر‘‘ ڈھونڈ کر ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب پر رونق لگانے والے سینئر صحافی مگریہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ صادق سنجرانی سینٹ کے چیئرمین منتخب ہوپائیں گے یا نہیں۔میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

3 مارچ 2021کے روز سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابی عمل مکمل ہونے کے چند ہی لمحوں بعد وزیر اعظم صاحب نے انہیں سینٹ کے چیئرمین کا انتخاب لڑنے کے لئے نامزد کردیا تھا۔سنجرانی صاحب تحریک انصاف کے رکن نہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے نمائندہ ہیں۔2017میں پاکستان کے قدرتی وسائل سے مالا مال اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے سے ’’اچانک‘‘ ابھری یہ جماعت 2018سے صوبائی حکومت چلارہی ہے۔تحریک انصاف کی وفاداری بشرطِ استواری والی اتحادی ہے۔ 3مارچ 2021کی شب ہمارے ایوانِ بالا کی چوتھی بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔

تحریک انصاف بھی اگرچہ سینٹ کی واحد اکثریتی جماعت بن کر اُبھری۔ عمران خان صاحب نے مگر بلوچستان کے ’’احساس محرومی‘‘ کے ازالے کے لئے سنجرانی صاحب کو سینٹ کے چیئرمین کا امیدوار بنایا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جماعت کے ان خوش فہم اراکین کی تمناکو نظرانداز کردیا جو اصرار کررہے تھے کہ واحداکثریتی جماعت ثابت ہوجانے کے بعد تحریک انصاف ہی کو چیئرمین سینٹ کا منصب سنبھالنا چاہیے۔

فقط ’’گنتی‘ کو بنیاد بنائیں تو اپوزیشن جماعتوں کو ایوانِ بالا میں اب بھی معمولی برتری حاصل ہے۔اسی باعث یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ ’’اخلاقی‘‘ وجوہات کی بنا پر اپوزیشن سینٹ کے چیئرمین کا عہدہ بھی حاصل کرلے گی۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ کو حیران کن شکست سے دو چار کرنے کے بعد یوسف رضا گیلانی اس منصب کے اہل ترین امیدوار تصور ہورہے تھے۔ 2008 سے تین برس تک وہ ہمارے وزیر اعظم رہے ہیں۔افتخار چودھری کے سپریم کورٹ نے مگر ایک چٹھی نہ لکھنے کی پاداش میں گھر بھیج دیا۔

اس سے قبل وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے ہیں۔ اپنے ایوان کو انہوں نے بہت باوقار انداز میں چلایا تھا۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر جب ’’ناجائز اسلحہ‘‘ رکھنے کے الزام میں جیل بھیج دئیے گئے تو گیلانی صاحب نے ان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کے لئے ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ جاری کئے۔حکومت میں شامل چند ’’سنگ دل‘‘ افراد نے اس ضمن میں مزاحمت دکھائی تو گیلانی صاحب احتجاجاََ قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سے انکار کرتے رہے۔

وقت مگر اب بدل چکا ہے۔6 مارچ کے دن قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد عمران خان صاحب نے یوسف رضا گیلانی کو کرپٹ ترین سیاستدان پکارا۔مصر رہے کہ انہیں ’’سب پہ بھاری‘‘ نے دولت کے بے دریغ استعمال سے سینٹ کے لئے منتخب کروایا۔ان کی جارحانہ تقریر کے بعد میں سنجرانی صاحب کے لئے ستے خیراں دیکھ رہا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments