یاد پیا کی آئے


کوئی زندگی نئی زندگی نہیں ہوتی البتہ زندگی کی ایک اور شکل ہو سکتی ہے۔ حتٰی کہ ہماری اپنی زندگی بھی۔ تحقیق ہے کہ ہر پیدا ہونے والی بچی کی تخم دانی لاکھوں بیضے سے بھری ہوتی ہے جو بلوغت تک بہت بڑی مقدار میں جھڑ جاتے ہیں، چند درجن باقی بچ رہتے ہیں جن میں سے ایک، دو یا آٹھ دس بارور ہوتے ہیں جو ہم بن جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ زندگی تو کب سے ہے اور پرانی ہے۔ بیجوں میں، شاخوں کے انکھوؤں میں کہیں نہ کہیں موجود بس ایک اور شکل اختیار کر لیتی ہے۔ موت کے بعد زندگی کی شکل کیا ہو گی ، اس کے بارے میں کچھ کہوں تو لاعلمی کہلائے گا۔

مگر شعور نے زندگی کی ہر نئی شکل پانے والے کے ساتھ اتنے زیادہ بکھیڑے جڑ دیے ہیں کہ شاید ہی کسی کو اس زندگی میں فی الواقع چین میسر آتا ہو۔ ویسے بھی جسے خوشی کہتے ہیں ، اس کے لمحے ان لمحوں سے کہیں مختصر اور عارضی ہوتے ہیں جو دکھ میں گندھ کر وقت کے ساتھ چپک جاتے ہیں، ایسا وقت جو کھرچے نہیں کھرچا جاتا۔ بہرحال وقت مرہم ہے، دکھ کو کم کر دیتا ہے، خلش باقی بچ رہتی ہے۔

شاید یہی خلش یادوں کی بنیاد ہوتی ہو۔ یاد دراصل رحلت پا چکا وقت ہوتی ہے ، جس میں خاص واقعات اور مناظر مرتسم ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی انسانی مغز کے کچھ خاص خلیے فعال ہوتے ہیں تو یہ واقعات اور مناظر ثانیے بھر کے لیے بہت زیادہ منور اور پر رنگ ہو جاتے ہیں ، پھر یاد پیا کی آنے لگتی ہے۔

لفظ پیا کسی شخص کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ مٹی اور گلیاں بھی پیا کی شکل لے لیا کرتی ہیں۔ دلگیر ترین پیا وہ بستی ہوتی ہے جہاں کوئی اس جہاں میں آتا ہے۔ صرف جہاں میں آنا تو شاید اس تعلق کی وجہ نہ بنتا ہو، البتہ وہاں جتنا زیادہ وقت گزرا ہو گا اتنی ہی اس مقام سے وابستگی زیادہ ہوتی جائے گی۔

میں نے اپنی جائے پیدائش پہ مستقل طور پر سولہ سترہ برس کی عمر ہی گزاری تھی۔ اس کے بعد بہت وقت کبھی کہیں کبھی کہیں گزرا تو ایسے لگنے لگا تھا جیسے ”بستی بستی پھرا مسافر، گھر کا رستہ بھول گیا“ ۔ مگر جب سے عمر کی شام ڈھلنے لگی ہے، پیا کی یاد اتنی ہی زیادہ شدت کے ساتھ سینے میں دھڑکتے دل کے ساتھ لپٹنے لگی ہے۔ اس بار پاکستان گیا تو میرے سبھی اپنے لاہور آئے ہوئے تھے ، چنانچہ مقام پیدائش کا دورہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں تھی اس لیے نہیں گیا۔ مگر قلق ہے کہ کیوں نہیں گیا۔

جب ہم جوان ہوتے ہیں تو ہمیں کبھی خیال نہیں آتا کہ ایک دن ہم بھی انہیں کی طرح بزرگ ہو جائیں گے جو تب میں ہمارے لیے بزرگ تھے۔ پھر ایک دن احساس ہوتا ہے، ”ارے یہ کیا، وقت تو بیت گیا“ ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب یاد کے انکھوے بہت تیزی سے شاخوں کا روپ دھارنے لگتے ہیں اور بہت جلد ایک چھتنار درخت کی مانند آپ کے وجود پر سایہ فگن ہو جاتے ہیں۔

وہ مقام ویسا رہا ہی نہیں ہوتا جیسا یاد آتا ہے۔ وہ لوگ بھی باقی نہیں رہے ہیں یا آپ سے بھی زیادہ مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ کی وابستگی تھی یا ہے۔ بازار میں آپ کسی کو پہچانتے ہیں اور نہ آپ کو کوئی پہچانتا ہے۔ سڑکوں پر وہ سکون اور آسودگی باقی نہیں بلکہ ہڑبونگ ہے۔ چاہے عام قصبہ ہی کیوں نہ ہو، مشینی ٹریفک نے چلنا محال کیا ہوتا ہے مگر ملک عزیز میں جدید ترقی کے فقدان سے ایک بات آپ کو اپنے پرانے زمانوں میں ضرور لے جاتی ہے کہ گندی نالیاں پہلے سے کہیں زیادہ گندی ہیں۔ لوگوں کی زبان کا بازاری پن اگر بڑھا نہیں تو کم بھی نہیں ہوا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قبرستان ویسا کا ویسا ہوتا ہے۔

ممکن ہے آپ کے بزرگوں کی قبریں مٹ چکی ہوں اور آپ کی قبر کے لیے بھی جگہ نہ بچی ہو مگر انتہائی عزیز لوگوں کو اسی مٹی کے تو سپرد کیا تھا۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہوتی ہو کسی مقام سے عمر ڈھلنے تک جڑے رہنے کی۔ بارہا دیکھا ہے کہ سمندر پار کے دیسوں میں عمر کا ایک بڑا حصہ گزار دیتے ہیں ، وہ اگر لوٹ کر اپنے دیس آ نہیں سکتے ، تب بھی آنے کی تمنا ضرور رکھتے ہیں۔ ایسی خواہش کے پس پردہ کوئی قوم، ملک، برادری یا رشتے داروں سے محبت نہیں ہوتی کیونکہ برصغیر کے باسی جرمن، جاپانی یا روسی نہیں جو اپنے ملک اور قوم سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں بلکہ اس کے پیچھے یگانگت کا احساس ہوتا ہے۔ زبان، رواج، ملبوس، سوچ، ماحول، انداز، گلے شکوے سب ہی وہ اور ویسے جن کے ساتھ آپ بڑے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر اس شہر یا اس ملک سے دور ہو جاتے ہیں۔

جن کی ساری عمر عشق بتاں میں کٹی ہو ، ان کے لیے آخری عمر میں ’مسلماں‘ ہونا بہت دشوار ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ عمر کے ایک خاص حصے میں آپ شاہد بازی سے باز رہنے کی اداکاری کر سکیں۔ اداکاری تو کوئی بری بات نہیں لیکن منافقت روا رکھنا تو کسی طرح بھی اچھا نہیں ہے۔ معاملہ صرف پرانی اور بھیڑی عادات سے کنارہ کشی کا ہی نہیں ہوتا بلکہ مصالحت کا بھی ہوتا ہے۔ ایک مرحلے پر آ کر ہر انسان کی زندگی ایک خاص نہج اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے مقام پر جا کر ان میں سے بیشتر اعمال کے سلسلے میں ماحول اور اردگرد موجود لوگوں کے حوالے سے مصالحت کرنی پڑتی ہے یا مصلحت سے کام لینا ہوتا ہے۔

ایسے میں پیا کی یاد کو گلے لگائے رکھنے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔ پھر بھلا وہ عشق ہی کیا ہوا جس میں وصال ہو جائے، وہ عشق نہیں رہے گا جب تعلق بدنی یا سماجی رشتہ بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments