عورت مارچ اور استبداد کے نئے حربے


سوشل میڈیا پر رائٹ ونگ کی خواتین کی تصاویر نظر سے گزریں مع فرسودہ نعروں کے تو ذہن میں بے ساختہ یہ مصرعہ گونج اٹھا۔ جب کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنا دیا۔ دل جلانے والے دل بنانے اور دلوں کو جوڑنے کی بات کہاں کرتے ہیں؟ کسی نے لکھا کہ ان کا بیانیہ بدل رہا ہے اور آج سے پانچ برس بعد وہ کہیں گے کہ اس تحریک میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ ہمیں تو سوچ کر ہی جھرجھری سی آتی ہے کہ جو قتل کرتے ہیں وہی مظلومیت کا دعویٰ دائر کریں گے۔

وہ جو بھی دعویٰ کریں وقت کی عدالت ان جھوٹے دعوؤں کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔ پانچ برس بعد وہ کیا کہیں گے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جو تاریخ رقم ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے، درباری مؤرخوں کی لکھی ہوئی تاریخ نہیں ہے کہ جو چاہیں لکھ دیں، لد گیا وہ دور جب ایسا ہو سکتا تھا۔ آج کی مرتب ہونے والی انڈیپنڈنٹ ڈیجیٹل تاریخ عورت مارچ کو ہائی جیک یا اغواء کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دے گی۔ تمہارے سارے ناپاک عزائم کو بے نقاب کر دے گی۔

یہ تاریخ نئے زمانے کی عورت لکھ رہی ہے۔ جس کا قلم بھی مضبوط اور قدم بھی۔ اور حوصلہ چٹانوں جیسا، جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے گی کہ ہاں یہ میرے ساتھ ہوا ہے اور یہ ہے تمہارا بدصورت چہرہ اور دنیا اس چہرے کو دیکھے اور پہچانے۔ تم جتنی چاہے دشنام طرازی کرو، کردار کشی کرو میرے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہ آئے گی۔ اور اسی بات سے ڈر کے یہ مداری نئے تماشے رچاتے ہیں۔ پھس پھسے نعرے ایجاد کرتے ہیں۔

ان تصاویر میں موجود خواتین کے ستے ہوئے چہرے ملاحظہ کیجیے۔ ان کے چہروں کے تأثرات بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ ان کے تأثرات ہی ان کے لکھے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ تمام الفاظ ان ہی کا منہ چڑاتے محسوس ہو رہے تھے۔ یہ تصویریں بھی منظرنامے کا حصہ ہیں۔ پانچ سال بعد یہ تصویریں بھی موجود ہوں گی اور زبردستی بنائی گئی اس کہانی کے خلاف گواہی دیں گی۔ آج کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دینے والے پانچ سال بعد انگلی کٹا کر شہیدوں کی فہرست میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے اور اس وقت کا آزاد مؤرخ چپ رہے گا ، یہ خام خیالی کے سوا اور کیا ہے۔

یہ بولیاں متروک ہو چکی ہیں ، یہ بیانیہ مسترد شدہ ہے، یہ الفاظ کھوکھلے ہیں، ان کی کیا بات کریں کہ ان تلوں میں تیل باقی نہیں۔ ان سامراجی گماشتوں کا جادو اب نہیں چلتا۔ ان میں کتنا عزت اور وقار ہے ہم سب جانتے ہیں۔ ان کے تمام کھیل پردوں کے پیچھے رچائے جاتے ہیں۔ یہ کب تک ڈرائیں گے؟ آنے والی کل بہت سی عورتیں کھڑے ہو کر کہیں گی یہ میری ماں، نانی اور دادی کے ساتھ ہوا اور یہی کہانی میرے ساتھ دہرائی گئی مگر میری بچی کے ساتھ یہ سب نہیں ہوگا۔

وہ اپنی آنے والی نسل کا استقبال اداسی اور شرمندگی سے نہیں فخریہ کرے گی۔ وہ منہ چھپا کر نہیں سر اٹھا کر جیے گی۔ وہ لڑکھڑائے گی، گرے گی تو بھی میں اس کے ساتھ میں کھڑی ہوں۔ اور وہ تصویر کائنات میں اپنا رنگ خود بھرے گی، ہاں وہی رنگ جس کا ذکر تم اپنی تحاریر میں تو کرتے ہو مگر عملی زندگی میں اس کا الٹ کرتے ہو

تم کبھی مذہب کے نام پر استحصال کرتے ہو تو کبھی بہ حیلۂ رسوم و رواج اور کبھی معاشرتی اقدار کے نام پر۔ تم تو قدرتی آفات تک کو عورت کی بے حیائی سے منسوب کرتے ہو۔ مذہب کی تشریحات بھی اپنی مرضی سے کرتے ہو۔ اور رسوم و رواج بھی خود ہی بناتے ہو۔ وراثت کا جتنا حق مذہب نے دیا ہے کیا وہ عورت کو دیتے ہو؟ تم تو اپنے جیسا کھانا بھی اپنے گھر کی عورت کو نہیں دیتے تو اور کیا دو گے؟ عورت کی شرم و حیا کی بات کرتے ہو مگر اپنی نظر کو بے لگام چھوڑ دیتے ہو۔

طلاق کا حق ناپسندیدہ سہی مگر مذہب نے دیا ہے۔ جب وہ اس پر بات کرتی ہے تو تمہیں معاشرتی اقدار کیوں خطرے میں نظر آتی ہیں؟ اس وقت تمہیں صحیفوں کے احکامات کیوں یاد نہیں رہتے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام مذاہب نے عورت کے حقوق سے کہیں نہ کہیں پہلو تہی ضرور کی ہے۔ خرابی کی جڑ کو کاٹے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ تم اس استحصالی پدرسری نظام کو بدلنا نہیں چاہتے جو تمہاری حاکمیت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ مان لو کہ تم خوفزدہ ہو۔

یہ قانون قدرت ہے کہ آواز کو جتنا دباؤ گے وہ اتنی ہی قوت سے ابھرے گی۔ حوصلہ اور جرأت ان کی میراث نہیں جو چھپ کر وار کرتے ہیں۔ اس کے لیے فولاد کا جگر چاہیے ، وہ کہاں سے لاؤ گے؟ تم تو آج کی زبان اور آج کی نسل کا موڈ ہی نہیں سمجھ پا رہے تو اور کیا سمجھو گے؟ تم میرا ریپ نہیں کر سکتے، کتنے عرصے تک تم نے ریپ کا مؤثر قانون نہیں بننے دیا۔ تمہارے بڑے نیشنل ٹیلی وژن پر بیٹھ کر کہہ چکے ہیں کہ ریپ وکٹم کو خاموش رہنا چاہیے۔ اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے معاشرے میں فساد بڑھتا ہے ، بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ وہ کلپ آج بھی کہیں یو ٹیوب پر پڑا ہو گا۔

تم تو اتنے شقی القلبی ہو کہ درندگی کا شکار ہونے والے بچوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے اور بات کرتے ہو عزت و وقار کی۔ تمہیں ان الفاظ کے معنی بھی پتا ہیں؟ جن بچوں کو پالنے کی تم میں سکت نہیں وہ بچے مجھ سے کیوں پیدا کرواتے ہو۔ زچگی کے دوران ہزاروں عورتیں مر جاتی ہیں ، بہت سے عوارض کا شکار ہو جاتی ہیں کیا تم نے کبھی اس بارے میں کوئی بات کی؟کبھی نہیں کیونکہ تمہارے پاس چار شادیوں کا آپشن ہے تو تمہیں عورت کی صحت سے کیا دلچسپی ہو گی؟

مجھ میں جتنی سکت ہے ، میں اس سے زیادہ کام نہیں کروں گی ۔ اگر میں باہر کا بوجھ اٹھا رہی ہوں تو یہ وقت کی ضرورت ہے اور تمہاری مجبوری بھی کہ اب تم میں اکیلے یہ بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں ہے تو تم گھر کے اندر میری مدد کرنے پر جزبز کیوں ہو رہے ہو۔ کیونکہ تمہیں نہ سننے کی عادت جو نہیں گھریلو کام کاج کرنے سے تمہاری مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ کیوں کہتے ہو کہ گھر چلو بچے انتظار کر رہے ہیں،  شاید تم نے دیکھا نہیں کہ بچے تو میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ بچوں کے نام پر بلیک میلنگ چھوڑ دو۔

میری نظر صرف ان دمکتے چہروں پر ہے جو اپنی کہانی خود لکھ رہے ہیں ، اپنا بیانیہ آج کی زبان میں لکھ رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں تحریک کتنی آگے بڑھی ہے اس کی بات کیجیے اور آئندہ آنے والے برسوں میں اور آگے بڑھے گی۔ اس کی معنویت میں مزید اضافہ ہو گا۔ مقاصد پورے ہوں گے۔ وقت کا پہیہ اب سست نہیں رہا۔ نئی آوازیں بلند ہوں گی، ملک کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی کے حقوق زیادہ عرصے تک دبائے نہیں جا سکیں گے۔ ورنہ تاریخ کا دھارا ہمیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا اور ہم سب کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔

اس معاشرے کا ہر باشعور فرد اس مارچ، اس تحریک کے ساتھ ہے اور رہے گا اور بہتری کے نئے امکانات جنم لیں گے۔ وہ خواب جو کہیں آنکھوں میں اداس پڑے ہیں ، پورے ہونے کے انتظار میں سسکتے نہیں رہیں گے اور یہ عورت مارچ ہر گلی اور محلے تک پہنچے گا اور اس کے ثمرات معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچیں گے۔

یہ عورت مرد کی نہیں ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے اور ظالم کا جینڈر کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ استبداد کے یہ حربے کامیاب نہیں ہوں گے اور یہ کارواں ایک سیل رواں کی صورت آگے ہی بڑھے گا اور تم اسے اب روک نہیں پاؤ گے۔ کاش کہ جتنی تکلیف تمہیں عورت مارچ سے ہوتی ہے اتنی عورتوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم سے بھی ہوتی۔ عورت مارچ زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments