انگریزی اردو کی کشمکش



کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں خواتین مالکان کی جانب سے اپنے ادارے کے مینجر کے ساتھ گفتگو اور اس کی انگریزی زبان میں عبور نہ ہونے پر تضحیک اور ٹھٹھہ اڑانے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس پر بڑی تعداد میں سوشل میڈیا کے صارفین نے مینیجر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے خواتین مالکان کی بدسلوکی پر افسوس کا اظہار کیا،مگر بطور معاشرہ ہماری اکثریت اپنے عمل سے ان خواتین کی روش پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔

جب ہم اپنے معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس سے ملے جلے کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں محض انگریزی زبان میں مہارت نہ ہونے بلکہ کئی جگہ لہجے اور تلفظ میں کوتاہی پر تحقیر اور تمسخر اڑانا عام بات ہے حالانکہ انگریزی زبان سمیت کسی بھی زبان پر عبور ہونا ہرگز قابلیت کا معیار نہیں بلکہ زبانیں تو محض ابلاغ کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے غیر زبان سیکھنا یا بولنا کوئی قابل عار عمل نہیں مگر اپنی مادری یا قومی زبان کی تحقیر کے بدلے کسی غیر زبان کو سیکھنا یا اختیار کرنا غلامانہ ذہن کا عکاس ہے۔

یہ روش اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ہم نے 1947ء میں انگریز سامراج کے عفریت سے جسمانی اور ظاہری طور پر نجات حاصل کر لی تھی مگر ہماری بودوباش، قوانین، زبان اور تدریسی عمل میں ابھی تک انگریز کی غلامی کا عنصر جھلکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ اس سحر میں عوام کی نسبت زیادہ مبتلا ہے اور اس فکر اور سوچ کا دفاع کرتے ہوئے مغرب کی ترقی اور بڑی مقدار میں علمی ذخیرہ انگریزی میں ہونے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور علمی اور مادی ترقی کو انگریزی زبان کے اختیار کرنے سے مشروط سمجھتے ہیں، جب کہ اہل علم کے نزدیک یہ دعویٰ اور دلیل عملی میدان میں معتبر نہیں بلکہ بعض حضرات تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اشرافیہ نے ملک پر اپنا تسلط مستحکم رکھنے کے لئے انگریزی زبان کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔

چین، روس، جاپان، جرمنی سمیت اکثر ترقی یافتہ ممالک ہر شعبے میں اپنی قومی زبان کو انگریزی پر ترجیح دیتے ہیں جس سے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ علمی ذخیرے تک رسائی انگریزی زبان کی محتاج ہے۔ یہی نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی قوم نے اپنی مادری یا قومی زبان پر غیر زبان کو ترجیح دے کر ترقی نہیں کی۔

چونکہ ہم ابھی تک ذہنی غلامی سے نہیں نکل سکے ، اس لیے ہم نے کئی ہزار میل دور بولی جانے والی زبان کو اپنے ہاں ذریعۂ تعلیم بنا کر طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے پروان چڑھنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹ دیے جس کے باعث نئی نسل کی ذہنی اور فکری ترقی منجمد ہو گئی ہے اور نطلبہ علمی میدان میں اپنے بین الاقوامی معاصرین سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ، حالانکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے واشگاف انداز میں اردو کو ریاست پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔ اسی وجہ سے 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر اس کے عملی نفاذ کے لئے پندرہ برس کا عرصہ مختص کیا گیا تھا۔

اسی سلسلے میں ”مقتدرہ قومی زبان“ کا ادارہ بھی 1979ء میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد اردو کو سرکاری اور نجی دفاتر اور تعلیمی اداروں میں عملی طور پر رائج کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل مہیا کرنا تھا۔

بعد ازاں اس ہدف کو ادارے نے 1988ء میں پورا کر کے حکومت کو آگاہ کر دیا تھا مگر آنے والی حکومتوں نے اس ذمہ داری سے پہلو تہی سے کام لیا۔ اسی مسئلے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج جواد ایس خواجہ نے 2015ء میں اردو کو سرکاری دفاتر میں فوری طور پر رائج کرنے کا حکم دیا تھا مگر پھر بھی اس مسئلے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

غرض یہ کہ اس انگریزی اردو کی کشمکش میں معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے جو کسی بھی معاشرے میں اتحاد، اتفاق اور یگانگت کے لیے زہر ہلاہل ہے۔

اب ہمیں انگریز اور اس کی غلاموں کی باقیات کو اپنے معاشرے سے اکھاڑ پھینک کر اپنی زبان اور تہذیب اپنانے میں احساس کمتری کو احساس تفخر سے تبدیل کرنا ہو گا جو کہ سرکاری ، نجی دفاتر اور تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو نافذ کر کے ہی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments