پنجاب اپنے کیے پر نادم ہے



اگر ہمارے بچے ہمارا خراب تلفظ ٹھیک کرانے کی کوشش کریں تو کیا ہمیں برا لگتا ہے؟ بالکل بھی نہیں لیکن یہی کام کوئی دوسرا کرے اور اس کا اپنا تلفظ بھی اچھا نہ ہو تو ہ میں کیسا لگے گا؟  یقیناً ہمارے ماتھے پر بل آئیں گے، ہو سکتا ہے ہم ایسے شخص کو اپنی علمیت اپنے پاس رکھنے کا مشورہ بھی دے ڈالیں۔

اسی طرح اگر ہم اپنے بچوں کی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، نمبر کم آنے پر نالائقی کا طعنہ دیتے ہیں لیکن یہی کام ہمارا ہمسایہ کرنا چاہے تو کون ہو گا جو اس کی اجازت دے گا کیونکہ ہمیں پتا ہوتا ہے اس کے اپنے گھر میں بھی کسی ایڈیسن یا البیرونی نے جنم نہیں لیا۔ سادہ سا اصول ہے، سنگ باری میں تو وہ حصہ لے جس کا اپنا دامن گناہوں سے آلودہ نہ ہو۔

محمود خان اچکزئی نے لاہور جلسے میں پنجاب کے تاریخی کردار کے بارے میں جو کچھ کہا، اس پر بہت گفتگو ہوئی مگر حقیقت یہ ہے ہم اہل پنجاب کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا ”ماضی بعید اور قریب“ اس سے بھی زیادہ تلخ، ندامت زدہ اور بھیانک رہا ہے اور ہمارا ”حال“ بھی قطعاً قابل فخر کارناموں سے مزین نہیں۔ اس کے باوجود پنجاب نے اچکزئی صاحب کے طعنوں کا برا مانا۔ وجہ صرف یہ رہی کہ بلوچوں یا پشتونوں سمیت پاکستان میں بسنے والی دیگر قومیتوں کا اپنا ماضی بھی پنجاب سے زیادہ مختلف نہیں رہا۔ ہم سب کے پاؤں میں غلامی کی زنجیروں کے ایک جیسے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کوئی بتائے گا پورے ”برٹش بلوچستان“ کی قیمت کیا تھی؟ محض تین سو روپے ماہانہ الاؤنس، جسے درجنوں بلوچ اور پشتون سردار ”خانہ نشینی“ الاؤنس کے نام پر حکومت برطانیہ سے وصول کیا کرتے تھے۔

بلوچستان تو وہ خطہ تھا جہاں قبضے کے لیے انگریزوں کو توپ کا ایک گولہ بھی ضائع نہیں کرنا پڑا۔ یہاں کے باسیوں نے انگریز سرکار کی توقع سے بھی زیادہ فرماں برداری کی مثالیں قائم کیں۔ بلوچ مصنف شاہ محمد مری اپنی کتاب ”بلوچ نوآبادیاتی عہد“ میں لکھتے ہیں ”ایک مرتبہ ایک انگریز افسر نے بلوچ سرداروں کی وفاداری کا امتحان لینے کے لیے تمام نمایاں سرداروں کو سبّی طلب کیا۔ انہیں کہا گیا وہ اپنی میم کے ساتھ سبّی اسٹیشن جانا چاہتے ہیں لیکن بگھی کے لیے گھوڑے دستیاب نہیں، تم لوگوں کو ہماری بگھی خود کھینچنا ہو گی۔ تمام بلوچ سرداروں نے چوں چرا کیے بغیرخوشی خوشی حکم کی تعمیل کی۔“

1839 سے 1842 تک پہلی برطانیہ افغان جنگ میں وڈیرہ بنگلزئی، سردار شاہوانی، سردار لہڑی اور سردار رئیسانی جیسے کئی دیگر بلوچ سرداروں نے افغان بھائیوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا۔ بدلے میں یہ سردار بھی ”خانہ نشینی الاؤنس“ کے حق دار قرار پائے۔

1876 میں ایک انگریز افسر رابرٹ سنڈیمن کی موجودگی میں خان آف قلات اور بلوچ سرداروں کے درمیان کسی تنازع کی صورت میں حکومت برطانیہ کو ثالث تسلیم کرنے کا شرمناک معاہدہ ہوا۔ یہ بات اتنی ہتک آمیز تھی کہ اپنی روایات اور اقدار پر ناز کرنے والے بلوچ سرداراپنے آپ سے نظر ملاتے ہوئے شرماتے تھے۔

ایسے واقعات کا مقصد کسی قوم کو بزدل یا ڈرپوک ثابت کرنا ہرگز نہیں اور نہ ہی خدانخواستہ بلوچ قوم کی دل آزاری یا اہانت مقصود ہے، مدعا صرف یہ ہے، تاریخ کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والوں اور مصلحت کوشی میں ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں بلکہ غیر آئینی اورخود ساختہ حکومتوں کے سامنے سر جھکانے کی یہ روش آج تک چلی آ رہی ہے جس سے پنجاب سمیت کوئی بھی صوبہ مبرا نہیں۔

سب جانتے ہیں ایک رات میں جنم لینے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا اصل باپ کون ہے، موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا اچانک اور حیرت انگیز ”نزول“ کہاں سے اور کیوں ہوا تھا۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی اصل کہانی کیا تھی۔  وہ کون سی طاقتیں ہیں جو دوبارہ سنجرانی صاحب کو ہی چیئرمین سینیٹ دیکھنا چاہتی ہیں، ورنہ وزیراعظم عمران خان کا بس چلے تو ہر جگہ شبلی یا اسد قیصر جیسوں کو بٹھا دیں۔ کون نہیں جانتا پچھلے دور میں بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت کا دو دن میں دھڑن تختہ کس نے اور کس کے کہنے پر کیا تھا۔

مان لیا، پنجاب نے ہر آمر کا ساتھ دیا، کسی داغے ہوئے غلام سے بھی زیادہ غلامانہ طرز عمل کا بار بار مظاہرہ کیا۔ وردی میں دس دس بار منتخب کرنے کی گردان بھی یہیں سے سنائی دیتی رہی۔ اور تو اور میرے آبائی ضلع گوجرانوالہ نے جس طرح جنرل ایوب خان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی نفرت انگیز مثال قائم کی اس پر تو ہماری سات نسلیں آج تک شرمندہ ہیں۔ جنرل ایوب خان کی خوشنودی کے لیے میرے اپنے گرائیوں نے فاطمہ جناح کے مقدس نام کی حرمت کا بھی پاس نہ رکھا۔

فاطمہ جناح کے سفید بالوں کی مناسبت سے ایک کتیا پر سفید چادر اور گلے میں فاطمہ جناح کے نام کی تختی ڈالی گئی اور پھر اس کتیا کو شہر بھر میں گھمایا گیا۔ ”پہلوانوں کے شہر“ کے باسی اکھاڑوں میں تو مخالفین کو دھول چٹا کر ان کے ”بکرے بلاتے“ تھے لیکن ڈکٹیٹرز کے سامنے خود بکری بننے میں ایک لمحہ نہ لگاتے تھے۔

آمرانہ قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں پنجاب اور خاص طور پرمیرا علاقہ سینٹرل پنجاب ہمیشہ آگے آگے رہا۔ گجرات کا ایک کنبہ تو آج تک آمروں کے ہر گناہ پر ”مٹی پاؤ“ کے کام پر لگا ہوا ہے۔ آج بھی یہ خانوادہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا اور ناک کا بال ہے۔ مزاحمت کے معاملے میں یہاں کی زمین ہمیشہ بنجر اور خشک رہی لیکن سوال یہ ہے باقی صوبوں نے غیرآئینی قبضوں کے خلاف برسرپیکار ہونے کی کون سی عظیم اور نادر و نایاب مثالیں قائم کیں؟ ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول ترین سیاسی رہنما کی پھانسی پر سندھ سے کون سا انقلاب رونما ہو گیا تھا؟  بلوچستان نے آمرانہ دور میں مزاحمت کے کون سے تیر چلائے ہیں؟ خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے المعروف ”ملا ملٹری اتحاد“ کا راج تو کل کی بات ہے۔ ایسے میں دوسری اکائیوں کا صرف پنجاب سے شکوہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ یہ دلیل دینا کہ ایوب خان کے خلاف پنجاب اٹھ کھڑا ہوتا تو پاکستان کی تاریخ آج مختلف ہوتی، یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے۔

کسی بھی وفاقی ریاست میں ملک کی سمت درست رکھنے کی ذمہ داری کبھی ایک اکائی پر نہیں ڈالی جا سکتی اور نہ ہی کسی ایک قومیت کی مزاحمت سے بے سمت ریاست کو سمت مل سکتی ہے۔ ملک کا قبلہ درست کرنا تمام قومیتوں کی اجتماعی کوششوں ہی سے ممکن ہے، جس کے لیے تمام اکائیوں کو اپنے حصے کی ذمہ داری خود اٹھانی اور اپنی غلطیوں کی اصلاح بھی خود کرنا پڑے گی۔ یہ تصور کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار ختم کرنا یا ریاست کا کوڑھ ختم کرنا صرف بڑے صوبے کام ہے، غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے بحیثیت قوم ہم زندگی کو بغیر پس و پیش اور سوالات کے قبول کر نے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے جتنے زیادہ سوالات کریں گے، زندگی اتنی ہی مشکل لگے گی، لہٰذا جیسا چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔ خاص طور پر ہمارا متوسط طبقہ اسی رویے میں عافیت اور راحت محسوس کرتا ہے۔

ایک سوئس مصنف ایلین سورل نے اسی پہلو کو زیادہ منطقی انداز میں پیش کیا ہے، وہ لکھتا ہے ”متوسط طبقہ مزاحمتی سیاست میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ اس طبقے کی تمام ترتوجہ محض پرسکون زندگی گزارنے پر ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب کوئی شخص مڈل کلاس کا حصہ بن جائے تو وہ اس سے ہرگز دست بردار نہیں ہوتا۔ مزاحمتی چنگاری کو گل کرنے میں متوسط طبقے سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔“ یاد رہنا چاہیے یہ طبقہ صرف پنجاب میں نہیں ہر صوبے میں اور بڑی تعداد میں موجود ہے۔

پاکستان میں بھی کم و بیش ایسا ہی ہوتا آیا ہے حالانکہ متوسط طبقے کی یہ نفسیات نہ صرف خود اس کی اپنی حق تلفی کا سبب بنی بلکہ اسی رویے کی وجہ سے ملک کی تقدیر زیادہ تر غیر نمائندہ، مصنوعی، کٹھ پتلی اور مسلط کردہ قیادت کے ہاتھ میں رہی۔

بدقسمتی سے اس کا مظاہرہ ہم آج بھی ایوانوں میں پوری آب و تاب سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی اپنی شناخت پرویز مشرف کی بنائی ق لیگ یا ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ سے مختلف نہیں، یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں جیت ہو یا کسی معاشی اور سیاسی محاذ پر شکست کا غم غلط کرنا ہو، حکومت کو اپنا ہر غم غلط کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے کندھے کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس پر شرمندگی کے بجائے فخر کیا جاتا ہے۔

ایک طبقے کا خیال ہے پنجاب کی تاریخ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو اس خطے کے بارے میں دیگر قومیتوں کے گلے شکوے کسی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ حنیف رامے اپنی معروف کتاب ”پنجاب کا مقدمہ“ میں لکھتے ہیں ”پنجاب نے تاریخ کے تھپیڑوں میں بہت کم سکھ کا سانس لیا ہے۔ آریائی قبائل سے شروع ہونے والا حملوں کا سلسلہ یونانی، تاتاری، پہلوی، غزنوی، درانی، ابدالی، مغل اور انگریز حملہ آوروں تک جاری رہا۔ ان حالات نے پنجاب کے مزاج میں دو نفسیاتی رویوں کو جنم دیا۔ پہلے رویے کو دشمن کی نظر سے دیکھیں تو کہا جائے گا پنجابی“ حال مست اور کھال مست ”بن گئے ہیں۔ ذرا محبت کی نظر سے دیکھا جائے تو اسے صابر و شاکر ہونا بھی کہہ سکتے ہیں۔“

حنیف رامے کے اس استدلال سے مکمل اتفاق نہ بھی کیا جائے لیکن اسے قطعی طور پر مسترد کرنا مشکل ہے۔ انسان جس ماحول میں جیتا ہے اس کے اثرات لازمی قبول کرتا ہے۔ فرانسیسی مصنف رابرٹ اوون کے بقول ”کسی انسان کا کردار بڑی حد تک اسے تشکیل کردہ ہی ملتا ہے جو اس کے پیش رو وراثت میں منتقل کرتے ہیں۔ یہ شر انگیز ترکہ (موروثی رویے ) برائی کا حقیقی اور واحد منبع ہیں۔ دنیا میں انسان کے لیے اس سے بڑا کبھی کوئی چیلنج نہیں رہا کہ وہ اپنا کردار مکمل اپنی مرضی سے خود وضع کر سکے۔“

پنجاب کو بھی حالات سے سمجھوتے کرنے کی عادت وراثت میں ملی۔ تاریخی تشدد سے مسلسل گزرنے والے اس خطے کی نفسیات میں عدم تحفظ کا احساس کہیں جم کر رہ گیا۔ یہی وجہ رہی پنجاب ہمیشہ مضبوط مرکزیت کا حامی رہا کیونکہ وہ اس میں زیادہ تحفظ محسوس کرتا تھا۔ اسی سوچ نے اسے ہر آئینی اور غیر آئینی حکومت کی حمایت پر مجبور کیا۔ مضبوط وفاق کے سامنے جمہوریت کی قربانی پنجاب کو ہمیشہ بہت چھوٹی چیز لگی حالانکہ اس روش نے پنجاب کی سوچ کے برعکس وفاق کو مضبوط بنانے کے بجائے مزید کمزور کر ڈالا۔

آج جب پنجاب کی اپنی سیاسی اور معاشی آزادیاں سلب ہونے لگیں تو اسے احساس ہو رہا ہے کہ وہ تاریخ کی غلط سمت پر کھڑا تھا۔ پنجاب کو اب جا کر ادراک ہوا ہے ”وطن نازک دور سے گزر رہا ہے“ دراصل تاویل کا ایسا پھندا تھا جو ہمیشہ مطلق اختیارات، ذاتی مفادات اور لامحدود طاقت کے لیے لگایا جاتا رہا۔ پنجاب کو تجربہ ہوا ہے ”طاقت بگاڑتی ہے اور مکمل طاقت مکمل بگاڑ سکتی ہے۔“ کیونکہ مرضی کی سیاسی قیادت منتخب کرنے اور اپنے ووٹ کے تحفظ میں سب سے زیادہ مشکلات اور چیلنج آج پنجاب ہی کو درپیش ہیں۔

کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پنجاب پر طعنہ زنی کرنے والوں کو اتنی تو رعایت دینی چاہیے کہ یہاں کے لوگ وطن کی محبت میں ہر کسی پر آنکھ بند کر کے اعتبار کرتے رہے۔ انہوں نے یہ کبھی نہ دیکھا کون ہزارہ سے آیا، کون دلی یا جالندھر سے۔ جس نے بھی مضبوط اور مستحکم پاکستان کا نعرہ لگایا وہ انگلی پکڑ کر پیچھے پیچھے چل پڑے۔ لیکن اہل پنجاب کے ساتھ وہی ہوا جو بیت المقدس کے قدیم باسیوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ ہر نیا آنے والا پادری انہیں طلائی گلیوں والے ”تخیلاتی یروشلم“ میں گھماتا تھا اور وہ بے چارے سادہ لوح گھومتے رہتے تھے۔

آج مگر ماحول بدل رہا ہے۔ پنجاب سیاسی بلوغت کو پہنچ گیا ہے۔ وہ جان گیا ہے اگر وہ خود اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی حق کے لیے نہیں لڑے گا تو کوئی دوسرا اس کے لیے یہ مشقت کبھی نہیں کرے گا۔  ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں اس کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آئی اور آنے والے الیکشن میں اس کا اور بھی زیادہ واضح انداز میں اظہار ہو گا۔

حنیف رامے ”پنجاب کا مقدمہ“ میں ایک جگہ لکھتے ہیں ”وہ دن آئے گا جب پنجاب اپنے آپ سے شرمندہ رہنے کے بجائے فخر سے سراٹھا کر چل سکے گا۔“ مجھے لگتا ہے یہ وقت آ رہا ہے۔ سب کو سمجھ آ رہی ہے ناجائز قبضہ ہمیشہ امتیاز گھٹاتا ہے بڑھاتا نہیں۔ معروف اسکاٹش شاعر اور مترجم سر الیگزنڈر گرے کے بقول ”میں نے جبر سے حاصل کردہ امتیاز سے زیادہ کسی اور چیز کو اتنی سرعت سے اپنی قدر کھوتے کبھی نہیں دیکھا۔“

ہر آمر سے کبھی پرجوش اور کبھی لرزتا مصافحہ کرنے والا پنجاب نہ صرف اپنے کیے پر نادم ہے بلکہ اس کا کفارہ ادا کرنے کو بھی پوری طرح تیار ہے۔ ملک کے تمام جمہوریت پسندوں کو نوید ہو، میرا ”میرا سوہنا پنجاب“ اپنی غیر ضروری درویشی، انکساریت پسندی اور نسل در نسل سیاسی کاہلی کی دلدل سے باہر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments