عورت مارچ اور رنگ برنگے تاثرات


میں زندگی کو ہمیشہ کتابوں سے باہر دیکھنے کا عادی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ میڈیائی دور میں کتاب اپنے گرد و نواح کی زندگی سے سو فیصد مطابقت نہیں رکھتی۔ بہت کم لکھاری زندگی کا عکس اتارنے ہوئے اپنے لوکیل تک محدود رہتے ہیں اور میں اسی کہانی یا ناول کو اہم سمجھتا ہوں جو اپنے لوکیل تک محدود ہو ورنہ اس میڈیائی دور میں کیسے ممکن ہے کہ ایک لکھاری کو کراچی، لاہور سے نیویارک اور پیرس کی روشنیاں متاثر نہ کریں۔

جو مسائل مغرب کے ہیں وہ نو آبادیاتی کالونیوں کے مسائل نہیں، اسی طرح طبقاتی معاشروں میں اشرافیہ کے مسائل نچلے طبقے سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر ہر شعبے اور پیشے کے مسائل بھی مختلف ہیں۔ اسی طرح آزادی کا مفہوم بھی ہر طبقے کے ہاں مختلف اور متنوع تصورات کا حامل ہے۔ ماسوائے چند معاملات کے یہ تنوع بہت زیادہ پھیلاؤ رکھتا ہے۔ جہاں تک عورت کے مسائل اور آزادی کی بات ہے تو یہ بھی مختلف معاشروں اور طبقوں میں مختلف ہیں۔

اس وقت معاشرے کی ایک جیسی صورت حال نہیں ہے ، کہیں عورت مظلوم اور زیر دست ہے تو کہیں مرد بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ اصل مسئلہ انسانی سطح پر آزادی، عدل اور اعلیٰ انسانیت کا شعور ہے۔ جو خواتین عورت مارچ میں شرکت کرتی ہیں ، وہ بنیادی طور پر آزاد زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ خواتین ان عورتوں کی آواز ہیں جو معاشرے میں جبر کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورت مارچ کی حامی خواتین بے حیائی کا مطالبہ کرتی ہیں یا خود بے حیا ہیں۔

یہ خواتین ان مردوں کے خلاف احتجاج کرتی ہیں جو عورت کو غلام تصور کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کا استحصال کرتے ہیں اور ان عورتوں کو مضبوط کرتی ہیں جو استحصال کی چکی میں پس رہی ہیں اور اپنی بے بسی پر قانع ہیں۔ کوئی بھی دن منانے کا مقصد اس روح کو زندہ اور توانا رکھنا مقصود ہوتا ہے جو معاشرے اور افراد کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ حقوق کی برابری غیر متوازن معاشرے کے توازن اور اعتدال کے لیے ضروری ہیں۔ عورت مارچ ہر ملک میں منعقد ہوتا ہے مگر بنیادی تھیسز یہ ہے کہ کیا ہر ملک کی عورت کے ایک جیسے مسائل ہیں؟

سب سے پہلے ہمیں اپنے مختلف طبقات میں عورت کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ ہماری عورت کو ان مسائل کا اندازہ ہے جن سے اکثریت دوچار ہے یا صرف مغربی چکا چوند میں وہ نعرے ایجاد کیے جائیں جو ہماری عورت کی ترجیح ہی نہیں ہے ، میں نے بہ طور ایک معاشرتی فرد ہونے کہ عورت کے جو مسائل دیکھے ہیں ، بہت کم ان پر توجہ دی جاتی ہے۔

ہماری عورت کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی سطح پر کمزور ہونا ہے اور ہمارے ہاں شادی جو کہ ایک فطری عمل اور جنسی عمل کی سماجی قبولیت کا ادارہ ہے ، اس وقت معاشی مسائل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کا رشتہ کرتے ہوئے والدین اس کی پسند ناپسند کی بجائے ایسا مرد کی تلاش کرتے ہیں جو اسے روٹی کپڑا مکان دینے کی حیثیت رکھتا ہو ، اس معاملے میں عورت کی پسند ناپسند اور اپنی زندگی کی فیصلہ سازی بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ عورت معاشی سطح پر مضبوط ہو تو شادی سماجی قبولیت کا سب سے خوب صورت تجربہ بن سکتا ہے اور خاندان پہلے کی نسبت زیادہ مستحکم ہو گا۔ اس سلسلے میں ہمیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے عورت مارچ کی خواتین کے ساتھ ایک بہترین مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچنا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ جنسی استحصال ہے۔ مرد جیسا بھی ہو عورت کو اس کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے عورتوں کی گفت گو سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔ عورتیں بھی جنسی تجربات ایک دوسرے سے شیئر کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنی عورتیں ہیں جن کی جنسی زندگی ناآسودہ رہتی ہے؟ کیا عورت کو زندگی سے لطف اندوز ہونے کا حق نہیں ہے؟ کتنے مرد ہیں جو عورت کی جنسی ضروریات اور خواہشات سے پوری طرح واقف ہیں؟ اگر واقف ہیں تو اسے کتنے فیصد پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

کیا ایک مرد کے بیمار ہونے پر عورت کی جنسی زندگی ختم نہیں ہو جاتی؟ جب کہ عورت کے بیمار ہونے پر مرد کو دوسری شادی کی اجازت ہے لیکن عورت کے لیے کوئی قانون نہیں سوائے طلاق لینے کے اور طلاق کے بعد اس کی سماجی قبولیت کے امکانات کتنے فیصد ہے؟ ہمیں عورت مارچ پر طلاق کی سماجی قبولیت کے حوالے سے آگہی پیدا کرنا ہو گی کہ ہر طلاق یافتہ عورت بدکردار نہیں ہوتی کچھ طلاق یافتہ عورتوں کے شوہر بھی بدکردار ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر طلاق یافتہ عورت بانجھ نہیں ہوتی کچھ عورتوں کے شوہر بھی نامرد ہوتے ہیں۔

ہماری عورت کا تیسرا اہم مسئلہ عورت کا سماجی تحفظ ہے، بلیک میلنگ اور معاشرے کی غلط نگاہی ہے۔ جب ایک پچیس تیس، سالہ لڑکی اپنے نو سالہ بھائی یا بیٹے کو اپنے ساتھ لے کر خود کو محفوظ سمجھتی ہے تو دراصل یہ معاشرے میں موجود مرد کی درندگی پر ایک طماچہ ہے۔ جس نے عورت کی نفسیات میں کس قدر عدم تحفظ کو جنم دے رکھا ہے۔ عورت اگر انسانیت کی سطح پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لے تو اس کی ویڈیوز اور تصاویر سے بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد سے رومانس کرتی ہے یا اس کے ساتھ جنسی عمل سے گزرتی ہے تو مرد اس کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیوں کرتا ہے؟ کیا مرد بھی اس عمل میں برابر کا شریک نہیں۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ مرد سیگریٹ پئے تو اس کے پھیپھڑے خراب ہوتے ہیں اور عورت سیگریٹ پیے تو اس کا کردار خراب ہوتا ہے۔ ہمیں سماجی سطح پر ایسے بیانیے کی نفی کرنا ہو گی اور مرد کو برابر کا شریک سمجھنا چاہیے تاکہ بلیک میلنگ کا دھندا ختم ہو سکے اور اس کی تمام تر ذمہ داری عورت پر عائد نہ ہو۔

اس کے علاوہ عورت کے جسم پر فیتہ رکھنے کی بجائے اس کی شخصیت اور قابلیت کو معیار ہونے کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہمیشہ جسم کے پیمانے میں دیکھا گیا ہے۔ عورت کے لباس پر بے حیائی کے خطبے دینے والوں کو بغیر انڈر وئیر کے نیکر پہن کر بازاروں میں گھومنے والے نظر نہیں آتے۔  یہ کشش فطری ہے جو بغیر لباس کے بھی ہے اور ستر پردوں میں بھی اور اس کشش پر قدغن لگانا غیر فطری فعل ہے۔ اس سے ماورا ضرورت اس شعور کی ہے کہ عورت جسم سے آگے ذہن جذبات اور روح کے ساتھ بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔

سماجی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے تعاون کی بات نہیں، بات مرد کی اس سوچ کی ہے جس نے عورت کو انسانی سطح پر بہت کم محسوس کیا ہے اور اسے اپنی جاگیر سمجھ کر اجارہ داری بنا رکھی ہے۔ مجھے اس وقت بہت تعجب ہوتا ہے جب ایک غلام مرد غلامی کے خلاف بھاشن دینے کے بعد گھر میں آقا بن جاتا ہے، جاگیرداروں کے سامنے زمین پر بیٹھتا ہے اور گھر عورت کو پاؤں کی طرف بٹھانے کی خواہش کرتا ہے۔

عورت مارچ پر میرا پیغام یہی ہے کہ قطع نظر متنازعہ نعروں اور بینرز کے عورت کو انسانی سطح پر جسم، جذبات، احساسات اور روح کے ساتھ پوری طرح سمجھا جائے اور انسانی اقدار کے مطابق قدر دی جائے ۔ میرے نزدیک صنفی امتیاز دراصل اس وحدت کی نفی ہے جو فطرت نے مرد اور عورت کے اندر ودیعت کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments