پی ڈی ایم تحریک کس طرف جا رہی ہے؟


حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم کا جب آغاز ہوا تو حکومت یعنی عمران خان کے اقتدار کی طوالت کو روکنا، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف معرکہ آرا ہونا اس کے چند عزائم و مقاصد تھے، جن کا اظہار میاں نواز شریف سے لے کر مریم اور دیگر سیاسی اتحاد کی جماعتوں کے تمام رہنما اپنے اپنے بیانات میں کر چکے ہیں۔

اسی جدوجہد کے لئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے غیر فطری اتحاد قائم کیا لیکن سینیٹ کے انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی کو منتخب کروانے کے لئے پی پی کا سیاسی و معاشی زور اور جدوجہد سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کا ایک ہی مقصد تھا کہ اپنے کسی امیدوار کو سینیٹ کا چیئرمین بنایا جائے۔ ویسے جس انداز میں یوسف رضا گیلانی کی انتخابی مہم چلی ، اس سے تو اندازہ ہو رہا تھا کہ جیسے پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ ہی سینیٹ انتخابات ہیں اور اگر گیلانی صاحب چیئرمین سینٹ بن جاتے ہیں تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

لیکن ہوا کیا کہ حکومتی حلقہ سے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور کہنہ مشق سیاست دان پرویز خٹک نے جمیعت علماء اسلام کے سینئر رکن اور بلوچستان کے منتخب کردہ سینیٹر عبدالغفور حیدری سے ملاقات کی اور انہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی پیش کش کی۔ اگرچہ مولانا غفور حیدری کی طرف سے اس بیان اور ملاقات کے بعد تردید بھی آ گئی ہے کہ میں اس پیش کش کو قبول نہیں کروں گا۔ لیکن سوال تو اٹھنا شروع ہو گئے کہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس ملاقات کا خاص کر اس وقت جب کہ پورے ملک کی نظریں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب پر لگی ہوئی ہیں ، کا مقصد کیا تھا۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں اسی منصب کے لئے غفور حیدری کا نام پیش کیا تھا جسے کچھ احباب نے رد کر دیا۔ اور صادق سنجرانی اور پرویز خٹک سے ملاقات بھی اسی انکار کے بعد ہی ہوئی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ اس لئے کہ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی کہ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔ اگر اس بیان کی حالیہ عملی شکل دیکھنا ہو تو پی ڈی ایم کی تحریک اور اس کی بنیاد سے لگا سکتے ہیں کہ پی پی اور نون لیگ  کے سابقہ ادوار میں کیا کیا اختلافات اور بیانات تھے جبکہ آج سب ایک ہی پیالے میں پانی پی رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن اپنے کسی امیدوار کو کیوں ڈپٹی چیئرمین بنانا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مولانا کو تو ایسی کوئی نشست ہی درکار ہے جس کی کوئی اہمیت بھی ہو۔ حکومت سے ان کا اتحاد تو ہے نہیں لیکن اگر کسی طرح وہ اس سیٹ پر کامیاب ہو جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے پاس ایسے اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ کبھی سینیٹ کا چیئرمین تو کبھی قائم مقام ملکی صدر بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ اگر سینیٹ کا چیئرمین ملک میں موجود نہیں ہے یا رخصت پر ہے تو قائم مقام سینیٹ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین ہی ہو گا۔

اسی طرح جب کبھی ملک میں صدر موجود نہ ہو یا چھٹی پر ہو تو قائم مقام صدر سینیٹ کا چیئرمین ہوتا ہے تو اگر دوراندیشی کا مظاہرہ کیا جائے تو مولانا عبدالغفور حیدری کو مذکورہ مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ یعنی مولانا صاحب بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ملکی سیاست اور یہی پاکستانی جمہوریت کا حسن بھی ہے کہ جہاں سے مفاد پورا ہو، وہیں ڈیرے ڈال دیے جائیں۔

کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو سیاست نہیں کرنا آتی، اس سے بہتر پاکستانی سیاست کیا ہو گی کہ حکومت نے حزب اختلاف میں پھوٹ ڈالنے کے لئے ایسی ڈائس پھینکی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان حکومت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کروا لیتے ہیں تو ظاہر ہے وہ حکومتی حمایت کے بنا ممکن نہیں ہو پائے گا تو مولانا کے اس فعل سے دو نتائج سامنے آئیں گے ایک تو یہ کہ پی ڈی ایم کے بقیہ اراکین کا ان پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور دوسرا یہ بات بھی کھل کر سامنے آ جائے گی کہ مولانا کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے۔

اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں میں پھوٹ بھی پڑ سکتی ہے اور حکومت کا مطمع نظر بھی یہی ہے۔ اگر اس بات کو سنجیدگی سے دیکھا جائے تو مولانا کے پی ڈی ایم سے نکل جانے سے یہ اتحاد ٹوٹ بھی سکتا ہے۔اس پورے سیاسی کھیل سے تو لگتا ہے کہ اب عمران خان کو بھی پاکستانی سیاست کی سمجھ آتی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہی سیاسی ماحول رہا تو عنقریب خان، میاں اور زرداری میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

میری رائے میں اگر پی ڈی ایم، جوڑ توڑ اور ذاتی مفاد پرستی کی سیاست کرنے کی بجائے شروع دن سے ہی عوامی مسائل کو ایشو بنا کر چلتی تو آج اس اتحاد کی اہمیت و وقعت کچھ اور ہی ہوتی۔ جیسے کہ عمران خان حکومت کے آغاز سے ہی مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا، لا قانونیت بھی آغاز سے ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھی، پنجاب میں تو وزیراعظم خاموشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ تو ایسی صورت حال میں حزب مخالف کو چاہیے تھا کہ وہ عوامی مسائل کو لے کر اپنی تحریک میں جان ڈالتے۔

ایسا کرنے سے ان کو دو طرح کے فوائد حاصل ہوتے ایک تو یہ کہ حکومت سوچنے پر مجبور ہو جاتی اور دوسرا عوام بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے۔ لیکن پی ڈی ایم کے زیادہ تر جلسوں میں عوامی مسائل کم اور ذاتی مسائل زیادہ دیکھنے میں آئے، جس کی وجہ سے حزب اختلاف عوام کو اپنے ساتھ ملانے اور انہیں سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے ابھی بھی اپنا قبلہ درست نہیں کیا۔ ابھی بھی وہ ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کی سیاست ہی کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں خود بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس سمت میں جا رہے ہیں۔ کیونکہ وہی مسافر کامیاب ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments