ہمارا تصورِ ذات کیسے بنتا ہے(قسط 6)


ذات کی تشکیل کے بعد ہم نے دیکھا کہ زندگی کی راہیں کس قدر آسان ہو جاتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہاکی اچھی کھیل سکتے ہیں لہٰذا آپ ہاکی کھیلتے ہیں اور ایک اچھے کھلاڑی کے طور پر ابھرتے ہیں۔ اسی طرح آپ کو علم ہوتا ہے کہ آپ کی دلچسپی بیالوجی میں نہیں بلکہ ریاضی میں ہے ، سو آپ ریاضی میں ماسٹرز کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ذات کی تشکیل کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ اپنے ارد گرد لوگوں کی پہچان کر سکیں اور اپنے اعمال اور کردار کی سمت کا تعین کر سکیں۔

اسی طرح آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کب آپ نے اپنی اصل ذات کو چھپا کر ماحول کے مطابق ڈھل جانا ہے اور کب آپ نے اپنی اصل ذات کا پرچار کرنا ہے چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری زندگی آرام اور سکون سے بغیر کسی مسئلے کے چلتی رہتی،  ذات کی تشکیل کے بعد لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ آپ پریشان تو پھر بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مشکلات تو کبھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔

تصور ذات کی تشکیل کے بعد اس تصور کو برقرار اور قائم رکھنا بہت اہم کام بن جاتا ہے۔ ایسا کوئی بھی واقعہ جو اس تصور ذات سے مطابقت نہ رکھتا ہو ، ہماری ذات کے لیے ایک ”خطرہ“ ہی ہے۔ مثال کے طور پہ آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ ایک ذہین اور محنتی طالب علم ہیں اور یہ کہ آپ نے فلاں پرچے کی بڑی اچھی طرح تیاری کی ہے لیکن نتیجے کے وقت آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔

اسی طرح آپ شادی کرتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ آپ کا ہمسفر آپ کی ذات سے واقف ہے اور آپ کی ضروریات کا خیال رکھنے والا ہے لیکن آپ کی شادی کامیاب نہیں ہوتی۔ ان مندرجہ بالا حالات میں آپ کی ذات ”خطرے“ سے دو چار ہوتی ہے کیونکہ سب کچھ آپ کے تصور ذات کے خلاف رونما ہو رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح کسی شخص کی بری تنقید بھی آپ کے تصور ذات پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے ۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ صرف منفی واقعات ہی ہماری ذات کے لیے خطرناک نہیں ہوتے بلکہ ایسے بہت سے واقعات بھی آپ کو سوچنے کو مجبور کر دیتے ہیں جو بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوں ، مثال کے طورپہ شادی  یا پھر اولاد کا پیدا ہونا، کسی دوسرے ملک ہجرت کرنا وغیرہ وغیرہ۔

ذات کو لاحق ان خطرات کے نفسیاتی ، جذباتی (Emotional ) اثرات کے علاوہ جسمانی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ مثال طور پہ ایک لمحے کے لیے سوچے کیا آپ کی نوکری ختم ہو جاتی ہے یا یہ کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔ آپ کسی نہایت اہم امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں۔ آپ کی شادی کی ناکامی کی وجہ سے طلاق ہو جاتی ہے تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ یقیناً برا محسوس کریں گے اور خوف، غصے اور پریشانی کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن یہاں اگر آپ کی Self Esteem مضبوط ہے تو آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ اس طرح کے شدید برے حالات بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جن لوگوں کی Self Esteem زیادہ ہوتی ہے ، ان پہ برے حالات اور خطرات کے زیادہ اثرات نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ جنگ جیسے شدید حالات میں بھی مضبوط Self Esteem کے مالک لوگ برے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ اس کے برعکس وہ لوگ جن کی Self Esteem کمزور ہوتی ہے اس طرح کے حالات میں شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ان برے اور پریشان کن حالات میں ہمارا جسم بھی متاثر ہوتا ہے۔ ذات کو لاحق یہ خطرات ہمارے مدافعتی نظام (Immune System ) ، اعصابی نظام(Nervous System ) اور بلڈ پریشر وغیرہ پہ براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں جن کی بدولت نفسیاتی صحت کے ساتھ ساتھ ہماری جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔

ایک تجربے میں چند لوگوں کو ان کی ذات کے متعلق چند پریشان کن معلومات کے متعلق آگاہ کیا گیا اور اس کے نتیجے میں جہاں یہ لوگ پریشانی (Emotional Effect ) کا شکار ہوئے ہیں ، ان کے جسم میں موجود ( Natural Killer Cells ) کی سرگرمی کی رفتار کم ہو گئی۔ یاد رہے کہ ( Natural Killer Cells ) ہمارے مدافعتی نظام کا حصہ ہیں جو ہمیں کینسر اور وائرس سے بچاتے ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ ہر کام کو بہت زیادہ سنجیدہ لیتے ہیں، بہت زیادہ مقابلے کی حالت میں رہتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پہ غصہ کرتے ہیں، دل کی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس جو لوگ خوش رہتے ہیں ان کی صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور وہ ناخوش لوگوں سے زیادہ لمبی عمر گزارتے ہیں۔

ذات کو لاحق خطرات کے حوالے سے آخری مگر اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کے حالات آپ کے قابو میں ہیں یا یہ کہ آپ ان پر قدرت رکھتے ہیں ، تو منفی اثرات کم پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ امتحان میں ناکامی ہوئی، لیکن آپ سمجھتے ہیں کے آپ قدرت رکھتے تھے کامیاب ہونے کی ( زیادہ محنت کر کے ) یا آگے جا کر آپ محنت کر کے کامیاب ہو جائیں گے تو اس ناکامی کے آپ پہ نسبتاً کم منفی اثرات ہوں گے۔

اس قسط میں ہم نے ذات کو لاحق خطرات کا ذکر کیا۔ اگلے حصوں میں ہم ان تراکیب  (Strategies ) کا ذکر کریں گے جن کی مدد سے ہم ان خطرات کے منفی اثرات سے اپنی ذات کو بچا سکتے ہیں۔

(جاری ہے۔۔۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments