دہلی گیٹ، مسجد وزیر خان، شاہی حمام اور راجہ دینا ناتھ کا کنواں


کہتے ہیں کہ ”جنے لہور نہیں ویکھیا اوہ جمیا ای نہیں“ ۔ یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ تو چلیں آج آپ کو لاہور کی تھوڑی سی سیر کراتے ہیں تاکہ جنھوں نے نہیں دیکھا وہ اپنے پیدا ہونے کی فکر کریں اور جو پیدا ہوچکے ہیں وہ دوسرے جنم کا سوچیں۔

پنجاب ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت سیاحوں کے لیے ڈبل ڈیکر بس کی سروس موجود ہے۔ جس کے ذریعے لاہور کی سیر کرنے کے خواہش مند اور سیاح آسانی کے ساتھ اس سہولت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ یہ بس سروس اپنے مہمانوں کو خاص کر اندرون لاہور، بادشاہی مسجد، مینار پاکستان اور واہگہ بارڈر جیسے مشہور مقامات کی سیر کراتی ہے۔ ٹرپ کے دوران ایک گائیڈ سیاحوں کی خدمت کے لیے موجود ہوتا ہے جو تمام مقامات کی مکمل تفصیل بیان کرتا ہے۔ حفاظت کے لیے پنجاب پولیس کے جوان ہمہ وقت ساتھ ہوتے ہیں۔

میں نے بھی کچھ فراخت کے لمحات کو غنیمت جانا اور لاہور کی آوارہ گردی پر نکل پڑا۔ اکیلا تھا اور ڈر رہا تھا کہ بوریت ہوگی لیکن گائیڈ عماد ہاشمی کی پرجوش اور خلوص بھری مہمان نوازی نے بہت لطف دیا۔ بس جیل روڈ، کینال روڈ، مال روڈ اور پھر بھاٹی چوک و جی ٹی روڈ سے ہوتی ہوئی سب سے پہلے دہلی گیٹ پہنچی۔ پرانے لاہور کے ارد گرد دیوار بنائی گئی تھی اور اس کے 13 دروازے ہیں۔ یہ دروازے دن میں داخلے کے لیے استعمال ہوتے اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔

ان دروازوں کے نام کچھ یوں ہیں۔ مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، یکی دروازی، دہلی دروازہ، اکبری دروازہ، موچی دروازہ، شاہ عالم دروازہ، لوہاری دروازہ، موری دروازہ، بھاٹی دروازہ، ٹیکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ۔ سب سے اہم دہلی دروازہ ہے۔ یہ چار سو سال پرانا دروازہ ہے اور جو شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا۔ اس دور میں یہ سب سے مصروف گزرگاہ ہوا کرتی تھی اور دہلی گیٹ کو دہلی گیٹ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا منہ دہلی کی طرف ہے۔ دہلی دروازے سے شاہی وفد لاہور میں داخل ہوتے تھے۔ اس دروازے کے عقب میں شاہی حمام اور وزیر خان مسجد موجود ہیں۔

دہلی گیٹ سے گزر کر جب مسجد وزیر خان کی طرف چلیں تو ایک اور دروازہ آپ کا استقبال کرتا ہے جسے چٹا دروازہ کہتے ہیں۔ جو 1650 ء میں تعمیر ہوا۔ مسجدوزیر خان نقش ونگار میں کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علم الدین انصاری جو عام طور پر نواب وزیر خان کے نام سے جانے جاتے ہیں سلطنت مغلیہ کے عہد شاہجہانی میں لاہور شہر کے گورنر تھے اور یہ مسجد انہی کے نام سے منسوب ہے۔ اس مسجد کی تعمیر دسمبر 1641 ء میں سات سال کی طویل مدت کے بعد پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

وزیر خان مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے طبیب خاص بھی تھے، اس سے قبل وہ مغل شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کے طبیب خاص بھی رہ چکے تھے۔ شیخ علم الدین انصاری چنیوٹ شہر میں پیشۂ حکمت سے منسلک تھے۔ جنوری 1621 ء میں تلاش معاش کی خاطر مغل دار الحکومت آگرہ پہنچے اور مغل دربار تک رسائی پائی۔ ان دنوں ملکہ نورجہاں علیل تھیں۔ شہنشاہ جہانگیر کی سب سے ناز و اندام والی ملکہ ”ملکہ نور جہاں“ کے پیر میں ایک بیماری عرق النساء کی وجہ سے پس پڑگئی۔

ملکہ نے شرط لگا رکھی تھی کہ اس کو چھوئے بغیر علاج کیا جائے۔ علاج کی خاطر ماہر حکیم اور اطباء کو دربار میں بلایا گیا۔ لیکن اس زخم کا علاج ممکن نہ ہوا۔ پھر شیخ علیم الدین کو علاج کی غرض سے بلایا گیا۔ انہوں نے ایک کمرے میں صحرائی ریت بچھوائی اور ملکہ سے درخواست کی کہ اس ریت پر ننگے پیر چلیں۔ ملکہ جب اس ریت پر چلی تو قدموں کے نشان واضح ہوتے گئے اور ان میں زخم والی جگہ الگ سے نمایاں تھی ملکہ کو باہر بھجوا دیا گیا اور علیم الدین نے کمال ہوشیاری سے زخم والی جگہ کے نشان پر انتہائی باریک اور چھوٹے کانچ کے ٹکڑے رکھ دیے۔

ملکہ سے دوبارہ قدموں کے نشانات پر چلنے کی درخواست کی گئی۔ دوبارہ چلنے کے دوران غیر محسوس طریقے سے زخم اپنے آپ کھل گیا اور تمام فاسد مادہ باہر نکل گیا اور یوں حکیم صاحب کی تدبیر کے باعث بغیر تکلیف کے علاج پایہ تکمیل تک پہنچا۔ ملکہ اس طریقۂ علاج سے اتنی خوش ہوئی کہ اس وقت زیب تن کیے تمام زیور، گہنے اتار کر حکیم صاحب کو دے دیے۔ ملکہ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ اس کی کنیزوں اور دیگر نوکرانیوں نے بھی اپنے تمام زیور گہنے حکیم صاحب کی خدمت میں پیش کردیے۔ ملکہ کی جان کے اس صدقے کی قیمت اس عہد میں بائیس لاکھ روپے سے زائد تھی۔ حکیم صاحب نے اس رقم سے وسط شہر لاہور میں عظیم الشان مسجد ”نواب وزیر خان“ تعمیر کروائی اور ملکہ کے علاج سے حاصل ہوئی تمام رقم اس پر صرف کر دی۔ بعد میں جہانگیر نے حکیم شیخ علیم الدین المعروف وزیر خان کوپنجاب کا گورنر بنا دیا۔

مسجد وزیر خان کے عین سامنے واقع کنواں ”دینا ناتھ“ کو 19 ویں صدی میں سکھ مملکت میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے راجہ دینا ناتھ سنگھ نے تعمیر کرایا تھا۔ متعدد مرتبہ ایسے بھی ہوا کہ اگر کبھی کسی وجہ سے مسجد وزیر خان میں پانی کی کمی ہو جاتی تو اسے کنواں دینا ناتھ سے ہی پورا کیا جاتا تھا۔ اس بنا پر کنواں دینا ناتھ شہر میں مذہبی ہم آہنگی کا استعارہ سمجھا جانے لگا۔ احسن بات یہ ہے کہ منہدم ہوتے ہوئے اس کنویں کی بحالی کے بعد اسے آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے۔

شاہی حمام جسے وزیر خان حمام بھی کہا جاتا ہے، ایک ترکی طرز کا حمام ہے جسے علم الدین انصاری المعروف وزیر خان نے 1635 میں تعمیر کیا تھا۔ اور اس کو مسجد کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہ حمام چونکہ دہلی دروازہ کے عقب میں واقع ہے اس لیے شاہی مہمان جب شہر میں داخل ہوتے تو ان کو یہاں غسل کروا کر دربار میں پیش کیا جاتا۔ شاہی خاندان خود بھی یہاں آ کر اس سہولت سے فائدہ اٹھاتا۔ ماہرین کے مطابق یہ مغلوں کا واحد عوامی حمام ہے جو اب تک موجود ہے۔ اپنی نوعیت کی جنوبی ایشیا میں واحدعمارت شاہ جہانی فن تعمیر، جو فارسی اور ترکی ڈیزائن کا مرکب ہے 21 کمروں اور گرم اور ٹھنڈے غسل کے لیے آٹھ آٹھ تالابوں پر مشتمل ہے۔ سٹیم باتھ کا بھی بندوبست تھا۔ اور عورتوں کے لیے علیحدہ انتطام کیا گیا تھا۔

اندرون شہر لاہور کی ایک اپنی ہے دنیا ہے۔ تنگ بازار، چھوٹی چھوٹی دکانیں، ریڑھیاں، تھڑے، تنگ گلیاں، بالکونیاں، طرح طرح کے کھابے اور ہر وقت موجود رش پرانے لاہور کی رونقیں ہیں۔

ٹرپ کے اختتام پر گریٹر اقبال پارک لایا گیا جہاں ڈانسنگ فاؤنٹین کا مظاہرہ تھا۔ دہلی گیٹ، مسجد وزیر خان اور شاہی حمام کی سیر کے بعد دل و دماغ ماضی کے قدیم دور میں محو تھے لیکن روشنیوں کے ساتھ ناچتے ہو ئے فواروں نے جھنجھوڑا۔ اور قدیم دور سے نکل کر جدید دور میں لا کھڑا کر دیا۔ ڈانسنگ فاؤنٹین شو کے دوران اچانک دو لڑکے جن کی عمریں بمشکل 8، 10 سال ہوں گی آ کر میرے پاس کھڑے ہو گئے۔ ایک لڑکے نے دوسرے سے سوال کیا کہ ”اے فواڑے عمڑان خاں نے لوائے نے؟“ تو اس کے جواب سے نہ صرف دونوں لڑکوں کے قہقہے ہوا میں بلند ہوئے بلکہ بے اختیار میری ہنسی بھی نہ رک سکی۔ ”عمڑان خاں نے تے کدی اپنڑے گھار نلکا نہی لوایا او کی فواڑے لوائے گا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments