فطرت سے جنگ کراچی کو تباہ کر رہی ہے


فطرت سے لڑنے کا ایک بھیانک انجام کورونا وبا کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے ہے، جس کے اثرات ایک اندازے کے مطابق 2022 تک رہیں گے۔ بڑے بڑے شہر بنانے کے خواب سے انڈسٹریز تک ماحولیات کو نقصان پہچانے میں خدا کے نائب کہے جانے والی مخلوق نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج بڑے بڑے شہر فقط کنکریٹ کے جنگل ہیں، جن کی آلودگی اور بڑھتی ہوئی آبادیاں قدرت کے خزانوں کو نگلتی اور تباہ کرتی جا رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک شہر کراچی بھی ہے۔

میرے ملک کا انوکھا شہر۔ بحیرۂ عرب کے جنوبی ساحل پر بسنے والا ایک ایسا شہر جو افغانستان اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں پر مشتمل خطے میں واحد گرم پانی کا علاقہ ہے۔ یہ شہر ایک قدرتی بندرگاہ رکھنے کے ساتھ اپنے سینے پر دو ندیاں ملیر ندی اور لیاری ندی بھی بہا رہا ہے۔ کراچی کا محل وقوع اسے نہایت اہم شہر بناتا ہے۔ پاکستان کا یہ ساحلی علاقہ حیاتیاتی اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن ان وسائل سے ملک وقوم کو فیضیاب کرنے کے بجائے انھیں تباہ کیا جا رہا ہے۔

اس صورت حال کا خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقوں کے قریب واقع جزیرے سمندر میں غرق ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ان جنگلات کو نقصان پہنچنا ہے جو ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اب تک اب تک 32 لاکھ سے 40 لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔ سمندری ساحلی سطح کو محفوظ رکھنے میں قدرت نے مینگروز کے نام سے پہچانا جانے والا ایک پودا اس زمین کو تحفے میں دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس پودے کو شدید نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

22 جون 2013 کو پاکستان میں مینگروز کے آٹھ لاکھ سینتالیس ہزار پودے لگا کر پاکستان میں مینگروز کی شجرکاری کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا۔ اس سے پہلے سال دو ہزار نو میں بھی پاکستان نے کیٹی بندر میں پانچ لاکھ پینتالیس ہزار مینگروز لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا، لیکن اگلے سال ہی بھارت نے یہ ریکارڈ توڑ دیا۔ پاکستان میں اس پودے کی نشوونما کو اس وقت نقصان پہنچا تھا جب دو ہزار دس میں ہمارے ملک کو بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا لگائے گئے مینگروز میں سے ستر فیصد محفوظ رہے، جبکہ تیس فیصد کو شدید نقصان پہنچا۔

یہ تو وہ نقصان تھا جو قدرتی طور پر پر ہوا اور پھر قدرت کے کارخانے سے ہی کرم کی صورت میں اس ستر فیصد کی نشوونما میں واضح بہتری دیکھی گئی۔ لیکن اس نقصان کیا کیا جائے جو اس ملک کے چند لوگ کبھی چائنا کٹنگ اور کبھی پلاٹنگ کے نام سے کر رہے ہیں۔

مینگروز فطرت کا وہ تحفہ ہے جو ساحلوں پر لہروں کے دباؤ کو روکتے اور سیلاب کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں، لیکن ہم اپنے ان محافظوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے جزیرہ بنڈل کا ماجرا سنیے۔ کراچی سے کچھ دور ایک غیر آباد جزیرہ ہے جو بنڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جزیرے میں مینگروز کے درختوں کا ایک گھنا جنگل ہے۔ قدرت نے ایسے انتظامات کر رکھے ہیں جو کہ انسانی آبادی کو بچاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ جنگل بھی کراچی کو طوفانوں اور سونامی سے بچا کر رکھتا ہے، لیکن اس جزیرے میں بھی ریئل اسٹیٹ پراجیکٹ بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ مستقبل کے خطرات سے بے خبر ہمارے کرتا دھرتا یہ جانتے ہی نہیں کہ ان اقدامات سے کراچی کے شہریوں کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جزائر پر جدید شہر بننے سے کراچی کا ماحولیاتی دفاع ختم ہو جائے گا۔ اس قسم کے تعمیراتی پروجیکٹ کراچی کو تباہ کرنے کر سکتے ہیں، جس کا اثر کراچی کی حالیہ بارشوں میں ہمیں نظر آیا۔

قدرت کا نظام دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سمندری جنگلات عموماً سمندر کے کنارے ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں میٹھا پانی سمندر میں شامل ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یہ جنگلات دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پہلے بلوچستان کے علاقے میں گھنے جنگلات تھے مگر اب یہ صرف چار ہزار ایکڑ پر جیونی، کلمت کور اور سونمیانی کے علاقوں میں باقی بچے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں تمرکاری سے گوادر، پشکان، پسنی اور ہنگو نیشنل پارک کی ایچوری میں مصنوعی جنگلات اگائے جا رہے ہیں۔

ان جنگلات کو ساحلوں کا محافظ کہنا غلط نہ ہو گا۔ انہی جنگلات میں مچھلیوں کی بہت سی اقسام اور جھینگے کی افزائش نسل بھی ہوتی ہے۔ مچھلی اور جھینگے یہاں انڈے دیتے ہیں اور ان کے بچے ابتدائی دنوں میں ان ہی سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں، جن علاقوں میں سمندری جنگلات میں کمی واقع ہوتی ہے، وہاں واضح طور مچھلی کے شکار میں بھی کمی آتی ہے۔

ہاکس بے ساحل پر مینگروز کی کٹائی کر کے غیر قانونی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ سینڈزپٹ سے منوڑہ جانے والی سڑک پر مینگروز کی کٹائی کھلے عام جاری ہے۔ چائنا کٹنگ کے نام پر ہونے والا یہ ظلم کراچی کے باسیوں کو اگلے چند برسوں میں شدید نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ چائنا کٹنگ کراچی کا وہ جن جو اب کراچی کے ساحلی علاقوں کو بھی نگل رہا ہے۔ ذمہ دار ادارے اب بھی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ مافیا کے سامنے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے۔ اور کیسی عجب بات ہے کہ انتظامیہ ان افراد کو نامعلوم افراد کہہ کر اپنا دامن بچا رہی ہے۔

1977ء میں پاکستان میں تقریباً اڑھائی لاکھ ایکڑ پر جنگلات تھے جو کہ اب تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار ایکڑ پر رہ گئے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ مقامی آبادی ایندھن اور چارے کے لیے ایک اندازے کے مطابق ہر پانچ لاکھ ٹن جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی استعمال کرتی ہے۔ دوسری طرف کراچی میں تمام تر صنعتی کارخانوں اور سیوریج کا گندا اور زہریلا پانی سمندری آلودگی میں بے پناہ اضافہ کر رہا ہے جس سے ان درختوں اور مچھلیوں کی افزائش کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔

سمندری جنگلات کے فوائد کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہے کہ ان کا تحفظ کیا جائے کیونکہ ان کی تباہی ایک طرف تو پاکستان کی ماہی گیری کی صنعت (جوکہ سالانہ ایک سو ملین ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ دیتی ہے ) تباہ ہو جائے گی، دوسری طرف ساحلوں کے کٹاؤ کی وجہ سے ساحلی شہر اور گاؤں طوفانوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام لوگوں میں سمندری جنگلات کی افادیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

یہ ہمارے ملک کے پالیسی بنانے والے ہیں جنہوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں جا کر ضائع ہو رہا ہے ڈیم اور بیراج بنا کر پانی کے ایک بڑے حصے سے سمندری جنگلات کو محروم کر دیا ہے۔ مقامی آبادی کا ان جنگلات سے براہ راست تعلق ہے ، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان لوگوں کو سمندری جنگلات کے تحفظ کے لیے ہونے والی منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے اور ان جنگلات کے مناسب استعمال کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنا ہے تو اب اس دنیا کے باسیوں کے پاس محدود وقت ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اب بھی فطرت مقابل کھڑے ہونے کی جرأت سے باز آجائیں۔ ورنہ نتائج اس سے کہیں زیادہ خوفناک برآمد ہونے کا خطرہ ہے جتنے ابھی تک سامنے آ چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments