فرضی کرامتوں کی بنیاد ہر فرقے بنانے والے



میرا تعلق ایک قدامت پسند خاندان سے ہے۔ علم کے نام سے یہ خاندان ناآشنا ہے۔ برسوں سے ہمارا خاندان پڑھے لکھے جاہل اور گنوار لوگ پیدا کر رہا ہے۔ پڑھے لکھے بھی میں ترس کھا کر کہہ رہا ہوں ورنہ ان کا کتابوں سے کیا لینا دینا، یہ تو عقیدت پسند لوگ ہیں ، سنی سنائی اور کہانیوں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ مذہبی طور پر بہت سی خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔

ان کی بدقسمتی سمجھ لیں یا میری بدقسمتی کہ میں ان کے درمیان پیدا ہو گیا۔ آج کا دور علم کا دور ہے اور ساتھ ہی انٹرنیٹ نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آپ جس قسم کا بھی علم چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شعور بھی عطا کیا ہے اور عقل بھی کہ سوچو اور تحقیق کرو کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، میں بھی آج کل اسی تحقیق میں لگا ہوا ہوں اور کافی حد تک اصلاح ہو رہی ہے اور ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔

ہمارے ہاں ویسے تو بزرگوں کی کرامات اب باقاعدہ ایک ڈگری کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ جس مولوی کو کرامات کا علم کم ہے اس کے سننے والے بھی اتنے ہی کم لوگ ہوں گے۔ کہانیاں لوگوں کو اچھی لگتی ہیں اور مولوی حضرات بزرگان دین کی کرامات کے بارے میں ایسی ایسی کہانی بناتے ہیں کہ انہیں اللہ کا ڈر بھی نہیں ہوتا کہ وہ کہیں شرک کے مرتکب نہیں ہو رہے۔ لیکن ایسا ہو رہا ہے اور شاید ہوتا رہے۔

گیارہویں شریف (بیڑا پار لگانے کا قصہ) ایک ایسی کرامت ہے جو اب باقاعدہ طور پر ایک فرقے کی شناخت بن چکی ہے۔ اس کرامت کی بنیاد پر لوگوں کے دین ایمان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ گیارہویں شریف جو کھاتے ہیں ، وہ پکے اور سچے مسلمان اور جو نہیں کھاتے وہ جہنم کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔

میں اصلاح کے جس سفر پر نکلا ہوا ہوں، اس نے تو اس واقعہ کو نادرست قرار دے دیا تھا۔ کچھ کم ظرف لوگ بھی میرے ارد گرد موجود تھے ، میری اس واقعے کے متعلق گفتگو کو خاندان کے لوگوں تک پہنچایا گیا، مولویوں کے جھرمٹ کے درمیان یہ بات کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ میرے ارد گرد کے جاہل جو ”بیڑا پار ہونے“ کے واقعے کو ایمان کی حد تک سچا سمجھتے تھے۔ وہ ایک دم میرے پیچھے لگ گئے۔

مجھے کافر، مرتد، منافق اور پتا نہیں کیا کیا نہیں کہا گیا۔ میں سنتا رہا اور خاموش رہا ۔ جب ہر کوئی الزام لگا چکا، پھر بھی مجھ میں تبدیلی نہیں آئی تو پھر جاہلوں کو عقل آئی کہ چلو اس بچے کا دین سیدھا کرواتے ہیں اور اسے کسی پڑھے لکھے عالم کے پاس لے چلتے ہیں۔ اب مجھے گھسیٹ کر ایک عالم کے پاس لے کر جایا گیا۔

میں نے مولانا کے سامنے بھی یہی کہا کہ یہ واقعہ ایک بہت بڑی کہانی ہے۔ انہوں نے کہا بالکل ٹھیک کہا تم نے یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ قصے کہانیوں کا حصہ ہی ہے ، یہ ایک واقعہ ہے جس کی کوئی عقلی دلیل نہیں۔ کوئی بیڑا ڈوبا ہی نہیں اور نہ کوئی بیڑا تیرا ہے۔ میں نے کہا یہاں تو یہ واقعہ باقاعدہ ایک فرقے کی بنیاد بن چکا ہے ، لوگوں کے دین ایمان کا فیصلہ اس واقعے کے ماننے اور نہ ماننے پر کیا جاتا ہے آپ کیسے اسے جھوٹ قرار دے رہے ہیں؟ کہنے لگے ہمارے علماء کرام کی کتابوں میں  اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ واقعہ اور اس سے ملتے جلتے بہت سے مشہور واقعات من گھڑت ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے سامنے پڑی چند کتابوں کے حوالے بھی دیے۔

اب آپ اندازہ کریں کہ لوگ صدیوں سے اس واقعے کو کرامت اور پتا نہیں کیا سمجھتے آ رہے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ اس تحقیق میں نہیں جائیں گے کہ کیا یہ ہوا بھی ہے یا نہیں؟ یہ واقعہ ہمارے ہاں جس طبقے کا میں حصہ ہوں ایک باقاعدہ فرقے کی بنیاد رکھ چکا ہے۔ یہ واقعہ دین کی بنیاد بن چکا ہے۔ روز مولوی چیخ چیخ کر اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ بیڑا جس پر بارات آ رہی تھی وہ ڈوب گیا اور برسوں بعد ایک پیر نے دعا کی اور وہ بیڑا ویسا ہی دریا سے برآمد ہو گیا۔ سب زندہ تھے۔ شادی کی تقریبات کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے جو بعد میں مکمل ہوئیں اور تو اور دولہے کی قبر کا پتہ بھی بتایا جاتا ہے۔ اور بعض لوگ زیارت بھی کر کے آ چکے ہیں۔

اب آپ اندازہ لگائیں کہ جس کو علماء کرام جھوٹ قرار دے رہے ہیں کہ ایسا واقعہ ہوا ہی نہیں۔ اس واقعہ کی مکمل تفصیلات بھی مولویوں نے بتا دیں اور ایسے لوگوں کی نشاندہی ثبوت کے طور پر کر دی جو دولہے کی قبر سے بھی ہو کر آ چکے ہیں اور بغداد میں وہ کشتی بھی دیکھ چکے ہیں۔ جو بقول ان کے ابھی تک وہاں موجود ہے۔

کرامات دین کا حصہ نہیں ہیں، خدارا ان سے نکلیں اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ توحید دین اسلام کا سب سے اولین درس ہے۔ قرآن مجید کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ توحید پر مبنی ہے۔ لوگ ان کرامات کے معاملے میں بہت کچھ کر جاتے ہیں اور اپنا عقیدہ توحید اور دین اسلام خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔ انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں ہوتا ، وہ سنی سنائی باتوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں جو انہیں مولوی بتاتے ہیں اور ان کے آباء و اجداد ان کا بیڑا غرق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، سوچنے اور تدبر کرنے کے لئے بھی کہا ہے۔ تو سوچیں اور تحقیق کریں۔ مولویوں کا دین اور ہے، علماء کا دین اور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments