بلوچستان میں شاہراہوں پہ موت کا رقص



12 مارچ 2020 کو بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کی جانب سے کراچی پریس کلب سے لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے اور بلوچستان میں قومی شاہراہوں (جنہیں آج سے تیس سال پہلے کے ٹریفک کے حساب سے ترتیب دے کر بنایا گیا تھا) کی بہتری کے لیے آواز اٹھانا تھا۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے بھی انہی تیس سال پرانی قومی شاہراہوں سے منسلک ہونے اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ درجنوں حادثات پیش آ رہے ہیں ، یہ احتجاج انہی خستہ حال سنگل یا یک رویہ شاہراہوں کو ڈبل کرانے کے لیے کیا گیا تھا ، خاص مطالبہ یہ تھا کہ چمن ٹو کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ڈبل وے اور باقی شاہراہوں کو کشادہ کیا جائے۔

بلوچستان میں پچھلے کئی سالوں سے ٹریفک حادثات کی صورت میں ہزاروں افراد جان سے گئے ہیں اور بلاشبہ لاکھوں لوگ زخمی بھی ہوئے اور بہت سے افراد مستقل طور پر معذور ہو گئے۔ بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کا یہ لانگ مارچ 24 مارچ 2020 کو خضدار وڈھ کے مقام پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کی بناء پر مؤخر کر دیا گیا۔ انتظامیہ اور حکومت کے نمائندوں کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کراچی تا کوئٹہ چمن شاہراہ کو دو رویہ یعنی موٹروے بنایا جائے گا مگر وفاقی حکومت کا بلوچستان کے ساتھ ہمیشہ سے سوتیلی ماں والا رویہ رہا ہے اور بلوچستان کے سیاست دان بھی اس محکوم صوبے اور اس میں رہنے والے لوگوں سے مخلص نہیں ہیں۔

ہم عوام کے حقوق کے حصول کے لئے پر امن جد و جہد جاری رکھیں گے ، لوگوں کی زندگیوں میں خوش حالی لانے کے لئے ہم ہر فورم تک جائیں گے۔ اگر آپ اب بھی خاموشی سے ہماری اجڑی ہوئی بستی کا تماشا دیکھتے رہو گے تو ہم سمجھیں گے آہ کی عدالت کا نظام ناقص اور باطل ہے۔

بلوچستان کی شاہراہوں نے قاتل سڑکوں کا روپ دھار لیا ہے ، کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ ان قاتل سڑکوں پر کوئی جان لیوا حادثہ پیش نہ آتا ہو، کبھی کوئی طالب علم اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا اور کبھی کوئی باپ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے روزی کی تلاش میں نکلتا ہے تو کسی حادثے کی نذر ہو جاتا ہے۔

اس روڈ پر ہونے والے لاتعداد حادثات کے بعد بھی حکمرانوں و صاحب اقتدار لوگوں کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی، جان لیوا اور دل دہلا دینے والے افسوس ناک واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ، اس کے باوجود حکمران اور عوامی نمائندے ٹس سے مس نہیں ہو رہے، یہ ہوں گے بھی کیوں کیونکہ انہوں نے تو ایوانوں کے مزے لینے ہیں۔

حکمرانوں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا کہ جو مائیں اپنے بچوں کو کوئٹہ یا دوسرے بڑے شہروں پر پڑھنے بھیجتی ہیں۔ جب ان کے پاس ان کے معصوم بچوں کی لاشیں پہنچتی ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی ۔ ان معصوم بچوں پر کیا گزرتی ہو گی جن کے سرپرست ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان بوڑھے ماں باپ پر کیا گزرتی ہو گی جن کے بڑھاپے کے سہارے ٹریفک حادثات کی وجہ سے چلے جاتے ہیں ۔ اگر حکمران اور خود کو عوام کا خادم کہلوانے والے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے تو آج بلوچستان کے عوام کا یہ حال نہ ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments