پھلاں کاری: وادی نیلم کی مقامی چادر جس نے صائمہ بی بی کے خاندان کو فاقوں سے بچا لیا


’ہمارے گھر میں فاقے ہو رہے تھے اور میں کام کر کے اپنے خاندان کی مدد کرنا چاہتی تھی. محلّے میں خواتین کو چادریں بناتے دیکھا تو مجھ میں بھی اس کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے سوچا اگر میں بھی چادر بنانا سیکھ لوں تو انھیں بیچ کر میں گھر والوں کی مدد کر سکتی ہوں.‘

صائمہ ابھی دوسری کلاس میں تھیں کہ ان کے گھر کے واحد کفیل، ان کے والد کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ گھر پر کوئی کمانے والا نہیں رہا تو ان کے لیے سکول جانا بھی بہت مشکل ہو گیا۔ سکول کی فیس اور کتابیں کاپیاں کیا، گھر پر تو دو وقت کی روٹی میسر نہیں تھی۔

صائمہ نے سات سال کی عمر میں سکول جانا چھوڑ دیا اور اپنے خاندان کی مدد کرنے کے غرض سے چادر بنانے کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔

پھلاں کاری کی چادر بُننا وادی نیلم کا مقامی فن ہے۔ بھیڑوں کے اون سے بننے والی یہ موٹی چادر سخت سردی میں بھی انسان کو گرم رکھتی ہے اور اس کے دیدہ زیب رنگ ہر دیکھنے والے کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی دستکاری کا تانا بانا

دستکاری کی رنگ برنگی اور انوکھی دنیا

سمندری ریشم جسے بُننے میں چھ سال لگتے ہیں

پرانے وقتوں میں اس چادر کی تیاری میں استعمال ہونے والا تمام سامان مقامی سطح پر تیار کیا جاتا تھا اور گھر کے تمام افراد اس عمل میں ہاتھ بٹاتے تھے۔

گاؤں کے مرد بھیڑوں کا اون کاٹ کر گھر کی خواتین کے حوالے کر دیتے جو اس سے دھاگہ تیار کرتیں۔ مرد حضرات اس کو تانڑی پر بُنتے، جس کے بعد کنارے بنانے کی ذمہ داری خواتین کی ہوتی تھی۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی ترجیحات تبدیل ہوتی رہیں، گھروں میں بھیڑ بکریاں پالنے کا رواج آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور مقامی اون کی پیدوار کم ہو گئی۔ پھر چادر بنانے والے زیادہ تر افراد کو بازار سے دھاگہ خرید کر اپنا کام جاری رکھنا پڑا۔ تاہم اب کچھ گنے چنے لوگ مقامی بھیڑ کی اون سے ہی چادریں تیار کرتے ہیں.

اُس زمانے میں وادی نیلم میں شادی بیاہ کے موقعوں پر دولہا کے لیے پھلاں کاری کی چادر اوڑھنا لازمی سمجھا جاتا تھا اور دولہا اور اس کے دوستوں کو ان کی چادروں سے پہچانا جا سکتا تھا۔ یہ چادر تحفے کی طور پر بھی دی جاتی تھی۔ تاہم اب جہاں مقامی لوگوں میں اس کی مانگ کم ہوئی ہے، وہیں سیاحوں کی اس علاقے میں آمد سے اس چادر کو ایک نئی مارکیٹ مل گئی ہے۔

سیاحوں کی وجہ سے چادر کی مانگ میں اضافے سے صائمہ بی بی نے بھی فائدہ اٹھایا۔

صائمہ نے بتایا کہ انھیں یہ کام سیکھنے میں آٹھ ماہ لگے جس کے بعد انھوں نے اپنے گھر میں تانڑی لگائی اور چادر بُننے کا کام شروع کر دیا۔

’مجھے اپنی پہلی چادر مکمل کرنے میں 15 دن لگے۔ وہ چادر میں نے اب تک سنبھال کر رکھی ہوئی ہے کہ اپنے بھائی کی شادی پر اُس کو تحفے کے طور پر دوں گی۔

شروع میں وہ اپنے بنائی ہوئی چادریں مقامی دکانداروں کے پاس چھوڑ دیتی تھیں اور ان کی فروخت سے ملنے والے پیسے انھیں مل جاتے۔ ’کبھی سیاح چادر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آتے تو میں خود ہی ان کو بیچ دیتی ہوں۔‘

صائمہ نے چادریں بیچ بیچ کر جب کافی پیسے کما لیے تو انھوں نے اپنے بھائی کو ایک دکان کھول کر دی اور اس کی ماسٹرز تک پڑھائی مکمل کروائی۔’اب بھی میں چادروں کے پیسے بھائی کو دیتی ہوں جس سے وہ اپنی دوکان کا سامان خریدتا ہے۔ گھر کے اخراجات بھی ان ہی پیسوں سے چلتے ہیں۔‘

صائمہ بی بی کا کہنا تھا ان کی خواہش ہے کہ ان کے بہن بھائی اپنی تعلیم حاصل کریں۔ ’بڑے بھائی کی نوکری لگ جائے اور ہمارا مکان بن جائے، بس۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد میں کام نہیں کروں گی، میں اپنا کام جاری رکھوں گی اور اپنے خاندان کی مدد کرتی رہوں گی۔‘

صائمہ کے مطابق ہر چادر بنانے میں 15 دن لگتے ہیں اور ایک چادر 10 سے 15 ہزار میں فروخت ہوتی ہے۔ ’جتنی اس پر محنت ہوتی ہے، اتنی اجرت نہیں ملتی۔ لیکن کیا کریں، اس کے علاوہ یہاں کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق کچھ لوگ اپنا دھاگہ خود لانا پسند کرتے ہیں، جن سے وہ صرف اپنی مزدوری کے تین ہزار روپے لیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp