محبت کا علانیہ اظہار اور فحاشی کی تعریف


چند دن قبل لاہور کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ اور طالب علم کو محبت کا سر عام اظہار کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے خیال میں یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح کے افعال سے بے حیائی پھیلتی ہے۔

اس خبر کا سوشل میڈیا میں آنا تھا کہ فوراً سے ویڈیو وائرل ہو گئی اور انٹرنیٹ سے منسلک بڑی تعداد نے اس واقعے پر رائے دینا شروع کر دی۔ کچھ لوگوں نے اس جوڑے کے حق میں بات کی اور کثیر تعداد نے یونیورسٹی کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس واقعے کو بے حیائی سے جوڑ دیا۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے یونیورسٹی انتظامیہ سے سوال کیا کہ بے حیائی براہ راست جنس کے معاملے میں ہی ہوتی ہے ؟ کیا حیاء صرف عورت ہی کی ذمہ داری ہے ؟ کیا صرف عورت ہی بے حیائی کے لئے جواب دہ ہے؟

کچھ طلبا نے رائے دی کہ جب آپ بڑے ہمارے لئے پالیسیز بناتے ہوئے ہم سے رائے نہیں لیں گے تو ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہمارے لئے ٹھیک ہے اور کیا غلط ۔ درحقیقت آپ ہماری تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں ، ہماری ذاتی زندگی کے نہیں۔

کچھ طلبا نے سوال کیا کہ کیا بے حیائی کی تعریف صرف طلبا پر لاگو ہوتی ہے ، باقی سماج کی اکائیاں اپنے اعمال کی ذمہ دار نہیں ہیں؟ جو کچھ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا ہے ، کیا وہ بے حیائی کے زمرے میں نہیں آتا؟

کچھ نے کہا یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب ہے ، جیسے کچھ عرصہ قبل ایکٹر یاسر حسین اور اقراء عزیز نے جب ایک شو کے دوران اپنی محبت کا اظہار کیا تو اسی سماج میں لوگوں نے مبارکبادیں دیں۔  بھلا کیوں ؟ اس لیے کہ ہم ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔

سید مزمل صاحب نے اپنے وی لاگ میں فریڈرک نطشے (ایک جرمن فلاسفر) کی آقا اور غلام کی اخلاقیات کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے یہاں بھی یہی صورت حال ہے کہ یہاں جو ماسٹر ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے وہ کچھ بھی کرنے سے پہلے کسی سے پوچھتا نہیں اور وہ اس قدر پراعتماد ہوتا ہے کہ اسے لگتا ہے وہ اپنی اخلاقیات کا دائرہ خود طے کرے گا۔

عورت مارچ اور اس کے فوراً بعد اس واقعے نے بے حیائی اور اس کی تعریف پر ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا اور اس واقعے کے چند ایک ظاہری اور بہت سارے پوشیدہ حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد نے اپنی اپنی رائے دے دی ہے اور سینیٹ الیکشن کی طرح یونیورسٹی کے پریزائیڈنگ آفیسر نے فیصلہ سنا کر کے گیند اسٹیک ہولڈرز کی کورٹ میں ڈال دی ہے ۔ دیکھتے ہیں اس بار روایتی اکثریتی، روشن خیال اقلیتی لوگوں کو کچھ جگہ دیتے ہیں یا پہلے کی طرح وہی روایتی رویہ اپنایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments