سائنسدانوں نے دنیا کے قدیم ترین ’کمپیوٹر‘ کی پہیلی سلجھا لی
سائنسدانوں نے ایک دو ہزار سال پرانا آلہ دوبارہ تیار کیا ہے جسے اکثر دنیا کا قدیم ترین کمپیوٹر کہا جاتا ہے۔ محققین کی کوشش ہے کہ وہ یہ جانیں کہ یہ کام کیسے کرتا تھا۔
اینٹی کیتھرا نامی اس آلے نے ماہرین کو کئی برسوں سے پریشان کیے رکھا ہے۔ یہ 1901 میں یونان سے ایک رومن دور کی ڈوبی ہوئی کشتی سے ملا تھا۔
ہاتھ کی توانائی سے چلنے والے اس قدیم یونانی آلے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے سورج گرہن یا چاند گرہن کے ساتھ ساتھ دیگر فلکی واقعات کی پیشگوئی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
مگر اس آلے کا تقریباً دو تہائی حصہ تباہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے ماہرین اسے دوبارہ بنا نہیں سکتے تھے اور یہ جاننے میں کوشاں رہے کہ یہ کیسا دیکھتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
’دنیا کا ٹھنڈا ترین کمپیوٹر جو روایتی کمپیوٹر کو پیچھے چھوڑ دے گا‘
’کٹ، کاپی، پیسٹ‘ ایجاد کرنے والے سائنسدان چل بسے
کمپیوٹر اور انسان کے درمیان پہلا دو بدو مباحثہ
اس کے پیچھے موجود میکانزم کو تو پہلے کی تحقیق میں سلجھا لیا گیا تھا تاہم اس کا پیچیدہ گیئر نظام ایک پہیلی رہا ہے۔
مگر اب یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انھوں نے تھری ڈی کمپیوٹر ماڈلنگ کی مدد سے اس کا پزل سلجھا لیا ہے۔ اب انھیں امید ہے کہ وہ جدید مواد استعمال کرتے ہوئے اس آلے کا ہو بہو نمونہ بنا لیں گے۔
جمعے کے روز سائنٹفک رپورٹس نامی جریدے میں اس آلے کے پیچیدہ گیئر نظام کی نئی تصاویر شائع کی گئی ہیں جن میں اس نظام کا بہت تفصیلی عکس دیکھایا گیا ہے۔
اس تحقیق کے رہنما پروفیسر ٹونی فریتھ کا کہنا ہے کہ ’قدیم یونانی ذہانت اس بات سے عیاں ہے کہ اس میں سورج، چاند اور دیگر سیارے بہت واضح طور پر دیکھائے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماڈل موجودہ تمام شواہد سے مطابقت رکھتا ہے اور اس پر موجود مکینکل لکھائی کے بھی مطابق ہے۔
اس آلے کو فلکی کیلکیولیٹر بھی کہا جاتا رہا ہے اور اسے دنیا کے پہلے اینالاگ کمپیوٹر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ تانبے کا بنا ہوا تھا اور اس میں درجنوں گیئر تھے۔
یہ آلہ جب ملا تھا تو اس کے تقریباً 82 ٹکرے مل سکے تھے جو کہ اس کا ایک تہائی حصہ ہے۔ سائنسدانوں کو اسی لیے ایکس رے اور ایک یونانی ریاضی کے ماڈل کی مدد سے اس کا بقایا حصہ تعمیر کرنا پڑا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).