برسات کی وہ رات!


کیا کبھی آپ نے بہت سی بدروحوں کو مل کے چیختے سنا ہے؟ یا پھر ٹھہر ٹھہر کے بین کرتی آوازوں کا شور جو ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر دوڑاتے ہوئے آپ کو اپنی جگہ پہ ساکت کردے۔ بالکل بچپن کے اس کھیل کی طرح جس میں ایک بچے کو اشارے سے ساکت کر دیا جاتا تھا۔ اب بھلے کچھ بھی ہو، جسم جس بھی پوزیشن میں ہو، اردگرد کچھ بھی ہو رہا ہو، ساکت بچے کو حرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

وہ ایک اندھیری رات تھی!

تند و تیز ہوائیں جب درختوں سے ٹکراتی ہوئیں ان کی شاخوں کو ان سے جدا کرتیں، چٹختی ہوئی شاخوں کی تڑتڑاہٹ ہواؤں کے شور میں شامل ہو کے اسے مزید ہولناک بنا دیتیں۔ گہرے بادلوں کے پیچھے چھپتا چاند، وقفے وقفے سے چمکتی بجلی اور موسلا دھار بارش طوفان کی شدت کو بڑھاتی تھی۔ دو منزلہ مکان کی لرزتی کھڑکیاں، تیز ہوا کے زور سے ہلتا دروازہ اور بارش سے ٹپکتی بوسیدہ چھت کے نیچے کانپتی ہوئی ماں بیٹی!

یہ رات ان دونوں کو کبھی نہیں بھولی!

ہمیں بچپن سے ہی مری کی پہاڑیوں میں درختوں کے بیچوں بیچ پہروں گھومنا بہت اچھا لگتا تھا۔ آپا کی نوکری سے پہلے تو مری سے تعلق ایک آدھ دن تک محیط رہا۔ لیکن جب آپا نے لارنس کالج میں پڑھانا شروع کیا تو گرمیوں کی چھٹیاں ہمارے لئے وہ نعمت بن گئیں جس کے انتظار میں ہم سارا سال پل پل گن کے گزارتے اور سکول کے آخری دن کا ڈھلتا سورج ہمیں مری کے راستے میں دیکھتا۔

نوعمری کے برس، مری سا پر فضا مقام اور ہماری فطرت سے محبت ہمیں سارا دن ادھر ادھر بھگائے پھرتی۔ ان برسوں میں ہم نے مری کو اور مری نے ہمیں جی بھر کے دیکھا اور دونوں کی ایک دوسرے سے محبت گہری ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت برسوں بعد جب حکام بالا نے ہماری مری میں تعیناتی کا پروانہ جاری کیا تو ہم خوشی خوشی چل دیے۔ اب کے ہمارے ساتھ آپا کا ساتھ نہیں تھا لیکن گود میں ایک ننھی پری ہمکتی تھی!

سول ہسپتال مری، پوسٹ آفس کے برابر والی سڑک پہ بنا ہوا تھا۔ شروع میں ڈاکٹروں کے لئے بنائے ہوئے دو منزلہ مکان اور پھر تھوڑی چڑھائی کے بعد ہسپتال کی عمارت آتی۔

ہماری خوش قسمتی کہ ان میں ایک گھر خالی تھا سو ہمیں الاٹ ہو گیا۔ نیچے والی منزل پہ دو ہال نما کمرے اور غسل خانہ اور بالائی منزل پہ دو بیڈ روم، باورچی خانہ اور رہائشی کمرہ تھا۔ نیچے والے حصے کو نہ چھیڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے اوپر والے کمروں کا انتخاب کیا۔ رہائشی کمرے کی بڑی بڑی کھڑکیاں سڑک کی طرف کھلتیں اور بیڈ روم سے درختوں کا جھنڈ، جہاں سے ہوا کی سرسراہٹ سے پتوں کا رقص نظر آتا رہتا۔

دوسرا بیڈ روم ہم نے آیا بی بی کو دے دیا جو ہماری غیر موجودگی میں ہماری بیٹی کی دیکھ بھال کرتیں اور کھانا بھی بناتیں۔ ارے ہاں یہ تو بتانا ہی بھول گئے کہ ہمارے شوہر کی پوسٹنگ پنڈی میں تھی سو وہ ویک اینڈ پہ ہمارے ساتھ ہوتے اور آیا بی بی ویک اینڈ پہ اپنے گھر چلی جاتیں۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آیا بی بی ہفتے کے درمیانی دنوں میں کسی ضروری کام سے چلی جاتیں تو اس دن ہم ماں بیٹی اس بھائیں بھائیں کرتے گھر میں اکیلے ہوتے۔ خیال رہے کہ نہ تو موبائل فون تھے اور نہ ہی انٹرنیٹ، بلکہ ہمارے گھر میں تو لینڈ لائن فون بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود بہادری کا یہ عالم تھا کہ بے فکری سے آیا بی بی کو جانے کی اجازت دے دیتے۔

مری ایک ایسا شہر ہے جو گرما میں انگڑائیاں لے کے جاگ اٹھتا ہے۔ رونقیں جوبن پر ہوتی ہیں لیکن گرما کے رخصت ہوتے ہی چاروں طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ سیاح فضا میں اپنی ہنسی اور باتوں کی بازگشت چھوڑ کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہوتے ہیں۔ گنگناتے دن اداس شاموں اور تھکی ہوئی راتوں کے دامن میں منہ چھپا لیتے ہیں۔

یہ رات ایسی ہی ایک رات تھی جب گھر کے باہر سنسان گلیاں اور رستے تھے اور گھر کے اندر خالی کمرے۔

آیا بی بی کسی ضروری کام سے اپنے گھر جا چکی تھیں۔ آسمان پہ گہرے بادلوں کے باعث سرشام ہی اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ کچھ دیر ٹی وی دیکھا، کچھ دیر کتاب پڑھی، کچھ پیٹ پوجا کی اور بچی کو لے کر سونے کے لئے لیٹ گئے۔ نیند کی پری جلد ہی پلکوں پہ اتر آئی۔ یہاں تک راوی امن لکھتا تھا۔

نصف شب اور طوفان سے لرزتا گھر! آخر ہماری آنکھ کیسے نہ کھلتی۔ تھوڑی گھبراہٹ ہوئی لیکن پھر اپنے آپ کو یاددہانی کروائی کہ پہاڑی علاقوں میں تو یہ معمول کی بات ہوا کرتی ہے۔ تکیے پہ سر رکھ کے پھر آنکھیں موند لیں۔ بچی ماں کے ساتھ لپٹی دنیا و مافیہا سے بے خبر گہری نیند سو رہی تھی۔

نیند کی دیوی روٹھ چکی تھی۔ باہر سے کبھی بارش کی جھنکار سنائی دیتی اور کبھی تیز ہوا کی ملہار۔ ساتھ میں درختوں کی شاخیں جھوم جھوم کے داد دیتیں۔

یکایک ایک عجیب سی آواز سنائی دی جو سروں کی اس تال سے میل نہیں کھاتی تھی۔
آج بھی وہ آواز حافظے میں محفوظ ہے!

کھڑکی کے شیشے پہ ٹک ٹک! پہلے کچھ وقفے کے بعد اور پھر بتدریج تیز اور بلند آہنگ! کیسی آواز ہے یہ؟ ہم نے اپنے آپ سے پوچھا۔ ارے کچھ نہیں، درخت کی کوئی شاخ کھڑکی سے ٹکرا رہی ہو گی۔ جواب میں ہم نے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے پھر سے آنکھیں موند لیں!

آواز تھمی نہیں تھی بلکہ اب اس میں ہلکا سا تھپتھپانے اور دھکیلنے کا عنصر بھی شامل تھا۔ کیا ہے بھئی؟ کیا کھڑکی کی طرف جاؤں اور شیشے سے باہر جھانکوں؟ لیکن کیا نظر آئے گا اس گھپ اندھیرے میں؟ کیا کوئی جنگلی جانور ہے جو طوفان سے پناہ کے لئے اندر آنا چاہتا ہے؟ ہم اپنے آپ سے ہمکلام تھے۔

نہیں بھئی نہیں، میں تو کھڑکی کی طرف نہیں جا رہی۔ میرے پاس تو نہ کوئی ہتھیار ہے اور نہ ہی کسی کو بلانے کا کوئی ذریعہ۔

دھیرے دھیرے ایک نادیدہ خوف نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ آواز ابھی بھی آ رہی تھی اور اب اس میں کچھ بے چینی اور کچھ جھنجھلاہٹ بھی پائی جاتی تھی۔ ہم اٹھ کے بیٹھ چکے تھے۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی اور یک دم ہمیں وہ خیال آیا جس نے اس تاریک رات کو ہمارے لئے ایک ایسا پھانسی گھاٹ بنا دیا جس تک جانے کے لئے ہر لمحہ عذاب بن کر اترتا ہے۔

کیا کوئی انسانی قبیلے سے تعلق رکھنے والا کھڑکی سے زور آزمائی کر رہا ہے؟ ہم نے اپنے آپ سے پوچھا، آہستہ آہستہ، متواتر، کھڑکی کھولنے کی کوشش! کوئی۔ کوئی ایسا، جسے یہ علم ہے کہ اس گھر میں ایک جوان عورت اپنی ننھی بچی کے ساتھ تنہا ہے۔ جو رات کے اس پہر کسی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلا سکتی۔ باہر کی دنیا سے تعلق محض گھر کا مین دروازہ ہے۔ قرب و جوار میں نزدیک ترین گھر بھی سو دو سو گز کے فاصلے پر ہے۔ تاریک رات، طوفان، اکیلی عورت، چھوٹی بچی اور مدد کے وسائل عنقا۔

لیکن کون ہو سکتا ہے؟ کیا گھر کے سامنے بنے ہوٹل کے ملازمین میں سے کوئی؟ جو ہمیں آتے جاتے دیکھتے اور جانتے ہیں کہ اس گھر میں لیڈی ڈاکٹر اپنی ننھی بچی کے ساتھ اکیلی رہتی ہے۔ لیکن وہ سب تو کتنے مودب دکھتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی استقبالیہ والے ہماری اماں کا فون سننے کے لئے ہمیں بلا بھی لیتے ہیں۔ نہیں وہ نہیں ہو سکتے۔

کیا ہسپتال کے ملازمین میں سے کوئی؟ سب ہی کو تو علم ہے کہ آیا بی بی اکثر چلی جاتی ہیں اور یہ بھی کہ اس دو منزلہ مکان میں میں اکیلی رہتی ہوں۔ لیکن وہ کیوں کریں گے ایسا؟

ہش، باؤلی بی بی، کیا سارے قصے کہانیاں بھلا بیٹھیں جہاں ایسا کرنے کے لئے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک کمزور لمحہ ہی تو ہوتا ہے جو زور آور کو بھی پچھاڑ دیتا ہے۔

یاد آیا، میرے گھر کے عقب میں گورنمنٹ گرلز کالج کے ملازمین کے کوارٹر بھی تو ہیں جو اونچائی پہ ہونے کے باعث میرے گھر کی اوپر والی منزل کے برابر میں ہیں اور بیڈروم کی کھڑکی تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں۔ لیکن وہ تو سب مجھے اچھی طرح جانتے ہیں جب میں شام کو کالج کے اندر ہوسٹل میں مقیم اپنی لیکچرار دوستوں کے ساتھ چائے پینے جاتی ہوں، کیسے بڑھ کر میرے لئے گیٹ کھولتے ہیں اور ننھی ماہم کی پرام میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے مجھے ہوسٹل تک چھوڑنے جاتے ہیں۔ ان کی آنکھ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اس دیہی علاقے کی عورتوں کے لئے آنے والی لیڈی ڈاکٹر کے لئے احترام ہوتا ہے۔ سنو بی بی، خیال بدلتے اور شیطان حاوی ہوتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ انسانی کمزوری سب پہ حاوی آ جاتی ہے۔

خوف، تنہائی، بے بسی، تاریکی اور رات نے ہمیں چاروں طرف سے جکڑ کے یہ یقین دلا دیا تھا کہ کھڑکی کے باہر جو کوئی بھی ہے، اس کا ارادہ نیک نہیں ہے۔

کیا کروں اب؟ کیا اپنے آپ کو حالات کے دھارے پہ چھوڑ دوں یا پھر آخری لمحے تک اس سے نبرد آزمائی! لیکن مدد کہاں سے آئے گی؟ باہر کی دنیا سے رابطے کی کوئی صورت نہیں۔ کیا رہائشی کمرے کی کھڑکی کھول کے چیخوں؟ کون سنے گا اس شور میں۔ سامنے ہوٹل کے ملازمین تو بارش کی وجہ سے اندر دبکے بیٹھے ہیں، میری آواز کیسے پہنچے گی ان تک؟ اور جب میں کھڑکی کھول کے چیخوں گی تو باہر والا بھی جان جائے گا کہ میں خبردار ہو چکی ہوں۔ اس کے پاس وقت بھی کم ہو گا۔ اور شاید میری چیخ و پکار میں وہ اسی کھڑکی تک پہنچ جائے۔

اف خدایا کیا کروں؟ کیسے اپنی جان بچاؤں؟ اور یہ میری گڑیا سی بیٹی جس کے لئے ابھی زندگی صرف ماں کا لمس ہے، اسے کیسے بچاؤں؟

میرے گھر سے اگلا گھر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحب کا ہے لیکن ہمارے گھروں میں تو بہت فاصلہ ہے۔ ہر گھر ایک اونچے پلیٹ فارم پہ بنایا گیا ہے اور سڑک تک اترنے کے لئے دس بارہ سیڑھیاں ہیں۔ اگلے گھر جانے کے لئے ایک گھر کی سیڑھیاں اتر کر سڑک پہ سو گز چل کر پھر دوسرے گھر کی سیڑھیاں آتی ہیں اور ان پہ چڑھ کر ٹیرس اور پھر گھر کا بڑا دروازہ!

کیسے پہنچوں وہاں تک؟ بچی بھی گود میں ہو گی، بارش بھی ہے اور اگر میرے باہر نکلنے پہ اس نے مجھے دبوچ لیا، پھر؟ پھر کیا ہو گا؟ اوہ خدایا میرے ابا، وہ تو پہلے ہی فالج کا شکار ہو کر بستر پہ ہیں، کیسے سہ پائیں گے اس حادثے کو؟ کیا کروں؟ آگے خندق، پیچھے کھائی!

لیکن اگر باہر نہیں نکلی تو وہ کھڑکی توڑ کے اندر آ جائے گا پھر میں کیسے بچوں گی؟ اور میری ننھی سی بچی۔

نہیں مجھے نکلنا ہی ہو گا، میں بچی کو کمبل میں لپیٹ کر اپنے جسم کے ساتھ دوپٹے کی مدد سے باندھ لوں گی۔ دبے پاؤں اوپر والی منزل سے نیچے اتر کر گھر کا سامنے والا دروازہ کھول کر دروازہ بند کرنے کے لئے بھی نہیں رکوں گی۔ تیز قدموں سے سیڑھیاں اتر کے سڑک پہ میڈکل سپرنٹنڈنٹ کے گھر کی طرف بھاگوں گی۔ سیڑھیاں بھی تیزی سے چڑھوں گی، اللہ نہ کرے کہیں پھسل جاؤں۔

ہو سکتا ہے وہ مجھے روکنے کے لئے میرے پیچھے آئے لیکن مجھے اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے ان کے گھر تک پہنچ کے پوری قوت سے دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ پتہ نہیں گھنٹی کام کرے گی کہ نہیں؟ لیکن میں دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹوں گی اور حلق پھاڑ کے چیختے ہوئے کہوں گی، دروازہ کھولیے، جلدی پلیز۔ دروازہ کھولیے۔ میں مشکل میں ہوں، کوئی میرے تعاقب میں ہے۔

خدا کرے اس شور میں میری دستک سے ان کی آنکھ کھل جائے اور وہ جلدی سے دروازہ کھول دیں۔ لیکن اگر ان سب مراحل سے میں نہ گزر سکی تو؟

اگر اس نے مجھے راستے میں ہی روک لیا تو؟ اگر میں کہیں گر پڑی تو؟
ایسے ڈھیروں واہمے کلبلاتے سانپ بن کر ہمیں ڈس رہے تھے!

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments