وزیراعظم صاحب اور حلال ہارس ٹریڈنگ


زیادہ دن نہیں گزرے سینیٹ الیکشن میں ہم نے بڑا معرکہ دیکھا۔ جہاں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو سینیٹ کی سیٹ پر یوسف رضا گیلانی صاحب کی جیت کی صورت میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی وہاں اس الیکشن کے رزلٹ پر حکمران جماعت کو بھی بڑا جھٹکا لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس غیر متوقع نتیجے نے ہمارے وزیراعظم صاحب کو بھی یہ موقع عطا کر دیا کہ وہ ہماری قوم کے بگڑے اخلاق سدھاریں اور ہمیں یہ باور کروائیں کہ ہم اخلاقی لحاظ سے کس درجہ پست قوم بن چکے ہیں۔

وزیراعظم صاحب نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ذمہ داری خود اپنے کندھوں پہ اٹھا لی اور قوم سے دھواں دار خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے پاکستان کے بیشتر مسائل کی جڑ اپوزیشن اور ان کے طرز سیاست کو قرار دیتے ہوئے کہا یہ لوگ ووٹ چوری کرتے ہیں ، سرمائے سے لوگوں کے ضمیر خریدتے ہیں اور سیاست میں پیسہ لگا کر الیکشن جیتتے ہیں۔ انہوں نے خود کو ان تمام پریکٹسز کا سب بڑا ناقد بنا کر پیش کیا اور شفاف سیاست کے عزم کے اعادے کے ساتھ ان سب چوروں ڈاکوؤں کو پکڑنے کا اپنا عزم دہرایا۔

ہم نے ان سے یہ بھی سنا کہ کسی جمہوریت میں اس طرح پیسہ نہیں چلتا اور ہم نے کچھ مغربی ممالک کی جمہوریت کی مثالیں بھی سنی۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کے اس بیانیے کو میڈیا میں اور ان کے اپنے حلقۂ اثر میں خوب سراہا گیا ، سب طرف سے انہیں داد و تحسین ملی۔

کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہونے والے ہمارے کپتان نے الیکشن ہارنے کے بعد نہ صرف اعتماد کا ووٹ لیا بلکہ اپوزیشن کے خلاف بھرپور کیمپین چلائی اور اپنے تئیں اس کو ایکسپوز کرنے کی پوری کوشش کی اور خود کو ہائی مورل گراؤنڈ پر پیش کیا۔

اسی دوران سینیٹ الیکشن کا دوسرا مرحلہ آن پہنچا جب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہونا تھا اور جو کچھ وہاں ہوا ، وہ ہم سب کے لیے نیا تھا۔ جیسا کہ شبلی فراز نے کہا تھا حکومت نے اپوزیشن کے امیدوار کو ہرانے کے لیے نہ صرف ہر حربہ استعمال کیا بلکہ اپوزیشن سے بھی ایک قدم آگے چلی گئی۔ ہم نے پہلی بار سینیٹ ہال میں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے لگے دیکھے اور میری طرح بہت سے لوگوں نے اپنے علم میں اضافہ کیا کہ سپائی کیمرے کس طرح کے ہوتے ہیں اور کیسے لگائے جاتے ہیں۔

پھر جس طرح الیکشن کے بعد ووٹ مسترد کیے گئے ، وہ سارا منظر انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ پریزائنڈنگ افسر نے جس طرح جلدی جلدی ووٹ ریجیکٹ کرنے کی رولنگ دی ، اس نے عام پاکستانی کے ذہن میں کئی سوالوں کو جنم دیا۔ ان کی ایک رولنگ سے اقلیت اکثریت میں بدل گئی اور ہماری سیاسی تاریخ میں جمہوری اور اخلاقی قدروں کی پامالی کے ایک اور باب کا اضافہ ہو گیا۔

اس سارے منظر نامے کے بعد کیا پاکستانی قوم بھی اپنے وزیراعظم سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ وزیراعظم صاحب اب قوم پوچھتی ہے کیا کسی ہم سے کمتر اخلاقی معیار رکھنے والی جمہوریت میں بھی ایسی دیدہ دلیری ہوتی ہے؟ کیا کسی اور جمہوریت میں اس طرح خفیہ کیمرے لگا کر عوامی نمائندوں کو ہراساں کیا جاتا ہے؟ کسی اور جمہوریت میں ایسا ہوتا تو وزیراعظم اکیلا گھر جاتا یا اس کے ساتھ اس کی ساری کابینہ گھر جاتی؟ اور کچھ نہیں تو ہمارے وزیراعظم خفیہ کیمروں کی افادیت ہی ہمیں سمجھا دیں اور حکومت کی ”عین حلال ہارس ٹریڈنگ“ کے فضائل بیان کر دیں۔ تاکہ قوم کی بھی کچھ تسلی ہو جائے کہ جو اپوزیشن کی باری حرام تھا اب جائز کیسے ہو گیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments