میانمار فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج میں کم از کم 14 مظاہرین حکام کی فائرنگ سے ہلاک، اقتدار سے بے دخل سیاسی رہنماؤں کا ’انقلاب‘ لانے کا عہد


میانمار

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ملک کے دارالحکومت ینگون میں جاری مظاہروں میں سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ سے کم از کم 14 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ جبکہ اقتدار سے بے دخل کیے جانے والے سیاسی رہنماؤں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ‘انقلاب’ لانے کے لیے اپنی مزاحمت جاری رکھیں۔

ینگون کے علاقے ہلائینگ تہریار میں حکام نے مظاہرین کے اجتماع پر فائرنگ کھول دی جس کے جواب میں مظاہرین میں ڈنڈے اور چھریوں کا استعمال کیا۔

واضح رہے کہ جنتا نے علاقے میں چین سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کی دکانوں پر حملہ کیا جس کے بعد حکام نے وہاں پر مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

میانمار کی فوج کی ’خفیہ اور احتساب سے بالاتر‘ کاروباری سلطنت

میانمار میں فوجی بغاوت: فوج کا اب اگلا قدم کیا ہوگا؟

میانمار میں منتخب حکومت گرا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہ کون ہیں؟

مظاہرین کا ماننا ہے کہ چینی حکومت میانمار کی فوج کی حمایت کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ پہلی فروری کو ملک میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو حراست میں لیا ہوا ہے۔

دوسری جانب متعدد سیاسی رہنماؤں نے بغاوت کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور فوج کو چکمہ دے کر روپوشی اختیار کی ہوئی ہے۔

میانمار

اتوار کو ہوا کیا؟

چین نے ہلائینگ تہریار کے علاقے میں چینی فیکٹریوں پر ہونے والے حملے کے بعد میانمار میں حکام سے ان کے تحفط کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد وہاں پر مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا۔

چینی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ مسلح افراد نے ینگون میں 10 چینی فیکٹریوں اور ایک چینی ہوٹل کو نشانہ بنایا اور متعدد چینی افراد کو زخمی کیا گیا۔

میانمار میں چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ’پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے مزید موثر اقدامات اٹھائیں اور چینی کاروبار اور چینی شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کریں۔‘

علاقے میں سارے دن فائرنگ کا آواز سنائی دی جاتی رہی ہے جبکہ پولیس کے ایک افسر نے سوشل میڈیا پر پیغام میں بتایا کہ پولیس مظاہرین کے خلاف بھاری اسلحے کا استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی میڈیا اور ایک ڈاکٹر کا حوالے دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ میانمار کے شمالی شہر ہپکانت میں سکیورٹی فورسز نے ایک جوان شخص کو گولی مار کر ہلاک کیا۔

جبکہ مقامی شاہدین اور رپورٹرز کے مطابق ایک اور نوجوان کو ینگون کے نواحی علاقے باگو میں ہلاک کیا گیا۔ مقامی میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا ہےکہ تین مظاہرین کو ینگون میں احتجاج کے دوران ہلاک کیا گیا۔

عینی شاہدین اور بی بی سی برمیز کے مطابق سنیچر کو 12 مظاہرین کی ہلاکتیں کے بعد سے یہ تازہ ترین ہلاکتیں ہیں۔

میانمار

واضح رہے کہ میانمار جسے برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یکم فروری سے فوجی بغاوت کے بعد سے ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔

یکم فروری کو ملک کی عسکری قیادت نے حکمران جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی سربراہ آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور انھیں حراست میں لے لیا تھا۔

آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت این ایل ڈی کو گذشتہ برس کے عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھیں تاہم فوج کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھوکہ دہی کی گئی تھی۔

نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے وہ ارکان اسمبلی جو گرفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے نے کمیٹی فار رپریزنٹنگ یونین پارلیمنٹ (سی آر پی ایچ) کے نام سے ایک نیا سیاسی گروہ قائم کر لیا ہے۔

مہانون خینگ تھان کو اس کا عارضی سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور یہ سیاسی گروہ عالمی سطح پر میانمار کی حقیقی حکومت کے طور پر پہچان حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مہانون خینگ تھان نے خطاب میں کیا کہا؟

روپوش سیاسی رہنما مہانون نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم فیس بک پر اپنے خطاب میں کہا کہ ‘ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے شہری ملک کے تاریک دور کے خلاف اپنی مزاحمت برقرار رکھیں۔’

مہانون تھان

ان کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ‘ماضی میں ہمارے اختلافات کے باوجود اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ساتھ متحد ہو کر ہمیشہ کے لیے اس آمریت کا خاتمہ کر دیں’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایک وفاقی جمہوریت کی تشکیل کے لیے، جس میں تمام نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی شامل ہو، جو کئی دہائیوں سے آمریت کے طرح طرح کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں، واقعتاً یہ چاہتے ہیں کہ ‘یہ انقلاب ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم اپنی کوششیں متحد اور ایک ساتھ رکھیں۔’

ان کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ‘ماضی میں ہمارے اختلافات کے باوجود اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ساتھ متحد ہو کر ہمیشہ کے لیے اس آمریت کا خاتمہ کر دیں۔’

میانمار کی فوج سیاسی گروہ سی آر پی ایچ کو ایک غیر قانونی گروہ قرار دیتی ہے اور لوگوں کو خبردار کرتی ہے کہ اگر کسی نے اس جماعت کا ساتھ دیا تو اس سنگین غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔

اس کا پس منظر کیا ہے؟

آزاد عالمی مبصرین نے گذشتہ برس نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں فوج کے دھاندلی کے دعوے کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس الیکشن میں کوئی بے ضابطگیاں نہیں ہوئی تھیں۔

گذشتہ ہفتے فوج نے آنگ سان سوچی پر غیر قانونی طور پر چھ لاکھ ڈالرز اور گیارہ کلو سونا قبول کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے اور این ایل ڈی کے اراکین نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔

آنگ سانگ سوچی اور میانمار کی فوج کے سربراہ من لانگ ہیلانگ

آنگ سان سوچی کو گذشتہ پانچ ہفتوں سے ایک نامعلوم مقام پر زیر حراست رکھا گیا ہے اور ان پر غیر قانونی طور پر ریڈیو وائرلیس کا سازو سامان رکھنے، کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے سمیت دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ملک میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی عسکری قیادت نے اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کے سلسلے کو بازور بازو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے باعث یہ مظاہرے پرتشدد ہو گئے ہیں اور اس میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ جبکہ عالمی برادری نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔

امریکہ نے ملک کی عسکری قیادت پر معاشی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکہ میں موجود میانمار حکومت کے ایک ارب ڈالرز کے سرکاری فنڈز تک رسائی کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ملک کی فوج نے اپنے جارحانہ اور پرتشدد اقدامات پر تنقید کو رد کرتے ہوئے ملک میں پرتشدد کارروائیوں کا الزام آنگ سان سوچی پر عائد کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp