ناروے کا شاہی خاندان جو بہت شاہی نہیں ہے


ناروے کا شاہی خاندان دوسرے شاہی خاندانوں سے ذرا الگ سا ہے۔ یہ کچھ عوامی سا خاندان ہے۔ شہزادے شہزادیاں محبت میں گرفتار ہوئے۔ خاندان سے بغاوت کی۔ اپنی بات منوا کر چھوڑی۔ عوام میں گھل مل جاتے ہیں۔ فلاحی رفاہی کام کرتے ہیں۔ اور بادشاہ تاج بھی نہیں پہنتے۔ یہ رواج اب ختم ہو گیا ہے۔ بادشاہ کا تاج ایک میوزیم میں رکھا ہوا ہے، اس کا وزن ڈیڑھ کلو گرام ہے۔ شاہی خواتین ضرور اپنے سر پر جڑاؤ آرائش سجاتی ہیں جسے ٹیارا کہتے ہیں۔

1957 میں شاہ ہوکن کی وفات کے بعد ولی عہد اولاؤ نے تخت سنبھال لیا۔ اولاؤ نے تیتیس سال تک بادشاہت کی اور بہت مقبول رہے۔ یہ خوش شکل اور خوش مزاج تھے اور عوام کے دلوں تک پہنچنے کا فن جانتے تھے۔ انہیں عوام کا بادشاہ کہا گیا۔ انہیں اسپورٹ میں بھی بہت دلچسپی تھی اور اسکینگ کے تو بہت ہی شوقین تھا۔ انہوں نے اپنی سویٗڈش کزن شہزادی مارتھا سے شادی کی۔ اس زمانے تک بھی شاہی خاندان کے افراد شاہی خاندانون میں ہی شادیاں کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب یوروپ کے سارے شاہی افراد آپس میں کزنز تھے۔ ان کے چار بچے ہوئے، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا جو ولی عہد بنا اور بعد میں شاہ بھی۔

King Olav

ولی عہد ہارلڈ نوجوانی میں ہی ایک لڑکی سونیا کو دل دے بیٹھے۔ لڑکی کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں تھا۔ بادشاہ نے اس کی سخت مخالفت کی کہ ایک عام گھرانے کی لڑکی شاہی خاندان کی بہو نہیں بن سکتی اور کہا کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ لیکن شہزادے نے کہا کہ شادی ہو گی تو سونیا سے ہی ہوگی ورنہ ہو گی ہی نہیں۔ نو سال یہ محبت چلتی رہی، بادشاہ کسی طور ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اب ایک طرف راج ہٹ دوسری طرف بالک ہٹ ۔ بالک راجکمار بھی تھا اس لیٗے جیت اسی کی ہوئی۔ آخر کو اکلوتا بیٹا تھا۔ اور 1968ء میں دھوم دھام سے یہ شادی ہو گئی۔

کہتے ہیں کہ شروع شروع میں بادشاہ اپنی عام گھرانے کی بہو سے کچھ خوش نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ سونیا کی فہم و فراست، دانشمندی اور وفاداری کا قائل ہو گیا۔ سونیا نے بھی خود کو شاہی آداب میں مکمل طور پر ڈھال لیا اور شہزادے کے دل پر حکومت کرتی رہی۔ دونوں کی پہلی اولاد لڑکی ہوئی اس وقت ناروے کے قانون کے تحت تخت کا وارث نرینہ اولاد ہی ہو سکتی ہے۔ اب یہ قانون بدل گیا ہے۔ پہلی اولاد خواہ لڑکی ہو خواہ لڑکا وہی ولی عہد ہوگی۔ اور پھر بیٹا بھی ہو گیا جو ولی عہد بنا اور آج ملک کا بادشاہ ہے۔

1991 میں شاہ اولاو فوت ہوئے اور ولی عہد ہارلڈ تخت نشین ہو گئے۔ اور شہزادہ ہوکن ولی عہد بن گئے۔ شہزادے نے ابتدائی تعلیم ناروے کے عام اسکول میں حاصل کی۔ ہائی اسکول تک ناروے میں ہی پڑھے۔ اس کے بعد ملٹری میں گئے۔ اور بعد میں اعلی تعلیم کے لیئے کیلیفورنیا کی برکلے یونیورسٹی گئے اور لندن میں بھی تعلیم حاصل کی۔

نئی صدی شروع ہوئی اور 2001 میں ناروے نے ایک حیرت انگیز صورت حال دیکھی۔ ایسا لگا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور اس بار کافی سنگدلی سے دہرا رہی ہے۔ ہوکن کو ایک عام لڑکی اچھی لگنے لگی۔ اس نام تھا میتے ماریت۔ شہزادے کی اس سے پہلی ملاقات ایک میوزک کے اجتماع میں ہوئی اور اس سے متاثر بھی ہوا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور ملاقات ہوئی اور شہزادہ اسیر ہو گیا۔

میتے ماریت خوبصورت تھی لیکن اس کے ساتھ کئی ایک مسائل تھے۔ تعلیم واجبی سی تھی۔ کچھ عرصہ ایک ریسٹورانٹ میں ویٹرس کا کام کرتی رہی۔ غلط قسم کے لوگوں سے تعلقات رہے جن میں کچھ جرائم میں ملوث بھی تھے۔ ایسے ماحول کا حصہ رہی جہاں ڈرگز کا استعمال ہوتا تھا۔ خاندانی پس منظر بھی غیر متاثر کن تھا۔ ماں باپ میں طلاق ہوئی۔ باپ الکوحل کا عادی تھا۔ اس نے دوسری شادی ایک کلب کی اسٹریپر سے کر لی۔ ماں نے بھی دوسری شادی کر لی ۔ میتے ماریت کا بچپن اور لڑکپن بھٹکتے گذرا۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک بچے کی غیر شادی شدہ ماں تھی۔ بچے کا باپ ایک سزا یافتہ مجرم تھا۔

Crown Prince with his fiancee Mette Marit at press conference

اب کیا کیا جا سکتا تھا۔ شہزادے نے دل دے دیا تھا اور ضد پکڑ لی تھی۔ شاہی خاندان کے علاوہ ناروے کے عوام بھی اسے قبول نہیں کر پا رہے تھے۔ عوام کے لیے یہ ایک انتہائی نامعقول اور شرمناک بات تھی کہ ملک کی ہونے والی ملکہ کا ماضی اس قدر مشکوک رہ چکا ہے۔ اور اب وہ اپنے ولی عہد کی استعداد اور دانائی پر سوال اٹھا رہے تھے۔ شہزادے نے منگنی کا اعلان کردیا اور عوام کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار ہونے لگا۔

ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں شہزادہ نے اپنی منگیتر کو ساتھ بٹھا کر شرکت کی۔ شہزادے نے اپنا دل کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیا۔ میتے ماریت نے بھی بھیگی آنکھوں اور رندھے گلے سے اپنے بارے میں کھل کر بات کی۔ اپنی تمام غلطیوں کا اعتراف اور اپنے ماضی پر شرمندگی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ ناروے کے عوام اسے قبول کر لیں گے۔ اس پریس کانفرنس کا بڑا مثبت اثر ہوا۔ لوگوں کو شہزادے کی منگیتر سے ہمدردی ہو گئی۔ لیکن شک اب بھی تھا کہ اس قدر مختلف ماحول میں پلنے اور رہنے والی خود کو شاہی آداب میں ڈھال سکے گی؟

شادی ہو گئی اور میتے ماریت بہت جلد اس نئے ماحول میں ہنسی خوشی رچ بس گئی اور عوام کی جانب سے بھی اسے عزت و توقیر ملی۔ پچھلے سال میتے ماریت ایک بار پھر منفی طور پر خبروں میں رہی جب بدنام زمانہ جنسی مجرم جیفری ایپ سٹائین سے پرانے روابط سامنے آئے۔

Princess Martha Louis and husband Ari Beham

مارتھا لویئس پرنس ہوکن کی بہن ہے جو دو سال بڑی ہے۔ سال دو ہزار دو میں اس نے بھی ایک غیر شاہی عام آدمی آری بیہم سے شادی کی۔ آری ایک الگ مزاج کا بندا تھا۔ ادیب بھی تھا اور اس کی ایک کتاب بھی چھپ چکی تھی۔ فنکار قسم کے اس نوجوان کو شاہی آداب و رسومات تکلیف دہ لگتیں۔ وہ آزاد طبیعت کا مالک تھا پھر بھی جہاں تک ہو سکا، اپنی شہزادی بیوی کا ساتھ دیتا رہا۔ ان دونوں کی تین بیٹیاں ہیں۔

ایک روز اچانک مارتھا لویئس کو یہ احساس ہوا کہ وہ فرشتوں سے باتیں کر سکتی ہے اور اس نے یہ دعوی بھی کر ڈالا۔ ۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ یہ فن دوسروں کو بھی سکھا سکتی ہے۔ ایک پارٹنر کی مدد سے اس نے باقاعدہ بزنس کا آغاز کیا اور اپنا ایک اینجلز اسکول کھولا جہاں وہ آنے والوں کو یہ سکھاتی کہ کس طرح وہ اپنے گارڈین اینجیلز اور فوت ہو جانے والے عزیزوں سے رابطہ کر سکتے ہیں اور ہمکلام ہو سکتے ہیں۔ اس اسکول میں داخلے اور لیکچرز سننے کی بھاری فیس تھی۔ یہ اسکول دو ہزار سات سے لے کر دو ہزار سترہ تک چلتا رہا پھر معاشی بد حالی کا شکار ہو کر بند کر دیا گیا۔

آری بیہم اس دوران اپنے مشاغل میں مصروف رہا۔ اس نے کتابیں لکھیں، ٹی وی پروگرامز کیے، سیاحت کی اور مصوری بھی کرتا رہا۔ لیکن ان دونوں میں دوریاں بڑھتی گیں۔ شاہی تقریبات میں وہ کم کم نظر آتا۔ اکیلا یا دوستوں کے ساتھ ملک ملک گھومتا رہا۔ اس نے افسانے بھی لکھے، ناول بھی اور ایک ڈرامہ بھی۔ اس کی فنکارانہ صلاحیتوں پر لوگوں اور نقادوں کے ملے جلے تاثرات ہیں۔ وہ کسی بھی فن میں بلندی پر نہیں پہنچ سکا۔

دوہزار سترہ میں مارتھا لویئس اور آری بیہم کی شادی اختتام کو پہنچی۔ وہ کبھی بھی اس شاہی خاندان کا صحیح معنوں میں حصہ نہ بن سکا۔ اس سے یہ بندشوں والی مصنوعی زندگی گزاری بھی نہیں جا رہی تھی۔

مارتھا لویئس بھی اب آزاد تھی۔ اسے اب بھی اپنی فرشتوں سے ہمکلام ہونے کی صلاحیت پر نازتھا۔ مارتھا لویئس نے جب ایک عام شہری کی طرح اپنا بزنس شروع کیا تو اسے شاہی لقب سے محروم کر دیا گیا۔ وہ شہزادی تو رہی لیکن ہر رائل ہائی نس کا خطاب اسے نہیں دیا جاتا۔ دو ہزار انیس میں مارتھا لویس نے اعلان کیا کہ اسے کسی سے محبت ہو گئی ہے۔ یہ ’کسی’ ایک عجیب سی شخصیت تھا۔ امریکی ’شامن’۔ شامن کو آپ یوں سمجھ لیں جیسے کوئی جھاڑ پھونک کر علاج کرنے والا۔ اس کا نام دوریک ویریت ہے۔ یہ کیلیفورنیا میں پلا بڑھا۔ اس کے کہنے کے مطابق اس کی ماں انڈین نارویجین تھی۔ اور باپ ہایتی کا تھا۔ دوریک کا دعوی رہا ہے کہ وہ بیماروں کو شفا دے سکتا ہے۔

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے کینسر کے مریضوں کو بھی شفا بخشی ہے۔ اس پر جب اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اس نے اپنے بیان میں کچھ تبدیلی کی کہ کینسر کے مریضوں کو اس نے کسی حد تک آرام پہنچایا۔ اس کے علاوہ بھی اس کے کچھ دعوے ہیں جس میں مردہ لوگوں سے بات چیت کرنا اور مستقبل کی پیش گوئی بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے نائن الیون کے سانحے کا بہت پہلے علم ہو گیا تھا لیکن اس نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کا ایک دعوی یہ بھی ہے کہ وہ ایٹم اور الیکٹرونز پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے اور کسی کی عمر تبدیل کر سکتا ہے۔ دوریک کے ان دعوں کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا سوائے مارتھا لویئس کے جس کا کہنا ہے کہ اسے بھی دوریک نے شفائے کامل بخشی۔

Princess Ingrid Alexandra

دوسری طرف مارتھا لویئس کا پہلا شوہر آری بیہم اپنی دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ وہ شراب نوشی اور ڈیپریشن سے لڑتا رہا۔ اور دو ہزار انیس میں عین کرسمس کے دن وہ یہ دنیا چھوڑ گیا۔ اس نے خود کشی کر لی۔ اس کے عمر سینتالیس برس تھی۔ شاہی خاندان نے اس کی بے وقت موت پر غم کا اظہار کیا۔ اس کے جنازے میں بھی شرکت کی۔ خود مارتھا لویئس اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ موجود تھی۔

حال ہی میں مارتھا لویئس نے دوریک ویریت سے اپنی منگنی کا اعلان کر دیا اور شاہی محل نے اس کی تصدیق بھی کردی۔

بادشاہ ہیرالڈ اب چوراسی سال کے ہو چکے ہیں۔ بیمار بھی رہتے ہیں۔ ولی عہد ہوکن چھیالیس برس کے ہیں۔ ان کی بیٹی انگرید الکسانڈرا اگلی ولی عہد ہے، وہ سترہ سال کی ہے۔ یہ تھی ناروے کے شاہی خاندان کی کہانی۔ اب ایک نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ اور دیکھنا ہے کہ یہ نوجوان کس حد تک شاہی روایات پر عمل کریں گے اور کس حد تک اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments