شیطان از شفیق الرحمان


”چار ہیں ہم!“ وہ بولے۔
”اگر آپ پانچ ہوتے تو ہمارا کیا بگاڑ لیتے۔“ روفی بولے اور جلدی سے ریسیور رکھ دیا۔

اتنے میں وہ صاحب آ گئے اور ہم سینما روانہ ہوئے۔ پوچھا پکچر کون سی ہے؟ بولے، ”انصاف کی توپ۔“ میں نے صدائے احتجاج بلند کی کہ کرکٹ وغیرہ جیسی دلچسپ چیزیں چھوڑ کر اس قسم کی پکچر دیکھنا سراسر بدمذاقی ہے، لیکن روفی نے کہا، ”چلو اب تیار ہو گئے ہیں تو فلم کا نام خواہ مفلس عاشق۔ یا خونخوار بھیڑیا ہی کیوں نہ ہو، ضرور دیکھیں گے۔“ راستے میں ان صاحب نے اپنے والد بزرگوار کے متعلق جو باتیں شروع کی ہیں تو ہم تنگ آ گئے۔ ان کی تعریفیں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ ان کے والد مصنف تھے اور اچھے خاصے بھاری بھرکم انسان تھے۔ یہ ان کی بڑائیاں کر رہے تھے کہ کس طرح انہوں نے خطرناک عادی مجرموں کو بری کرا دیا اور بظاہر اچھے بھلے معصوم لوگوں کو قیدخانے میں بھیج دیا تھا۔ (سکور تو برابر ہی رہا) اب سارے ملک میں ان کے حیرت انگیز انصاف کا ڈنکا بج رہا تھا۔ آخر تنگ آ کر روفی بولے، ”تو وہ بہت اچھا انصاف کرتے ہیں؟“

”یقیناً!“ جواب ملا۔
”یعنی نہایت ہی بلند پائے کا انصاف کرتے ہیں وہ؟“
”جی!“
”پھر تو وہ انصاف کی توپ ہوئے۔“

کئی مرتبہ جی چاہا کہ حکومت آپا سے پوچھوں کہ آخر آپ چاہتی کیا ہیں؟ ہم کیا کریں جو آپ کے اس عجیب و غریب عتاب سے بچ سکیں، جو ہر وقت ہم پر نازل ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹے ہاتھ دھوکر (بلکہ ہاتھ منہ دھوکر) میرے پیچھے پڑی رہتی تھیں۔ رضیہ کی طرف میں نے ذرا آنکھ اٹھائی اور آفت آ گئی۔ اس میں میرا کیا قصور تھا؟ گھر میں ایک اچھی لڑکی ہے جو اتنی پیاری لگتی ہے تو اسے کیوں نہ دیکھیں۔ اگر یہی ہے تو حکومت آپا رضیہ کو کسی صندوق میں مقفل کیوں نہیں کر دیتیں تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ جب دیکھو تنقید کر رہی ہیں۔ جس پر پہلے پہل تو میں اداس ہو جایا کرتا، لیکن بعد میں عادی ہو گیا۔ اور یہ تنقید کیسی ہوتی؟ شوقین لڑکا ہے۔ رنگین مزاج ہے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنتا ہے۔ خوشبو کیوں لگاتا ہے۔ اس کا سینہ کافی چوڑا ہے، لیکن چہرہ کچھ دبلا ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں (نہ کیجیے اعتبار، کس مسخرے نے التجا کی ہے آپ سے۔ ) ہر وقت بازوؤں کے پٹھوں کو ٹٹولتا رہتا ہے (مضبوط پٹھے ہیں کیوں نہ ٹٹولیں۔ ) بیزاری کو بزاری کہتا ہے (یہ آپ کے کانوں کا قصور ہے۔ ) ہر وقت اکڑ کر چلتا ہے (تو کیا کبڑا ہو کر چلا کروں؟ ) رضیہ کے متعلق سوچتا رہتا ہے، اسے گھورتا رہتا ہے اور اسی کی باتیں کرتا ہے (رضیہ اچھی جو لگتی ہے۔ ) مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا (مجھے بھی آپ ذرا اچھی نہیں لگتیں۔ )

”مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔“ حکومت آپا کا تکیہ کلام تھا (لفظ ”پہلے“ پر خوب زور دے کر۔ ) ایک دن میں لائبریری سے مشہور ملکہ رضیہ سلطانہ پر تاریخی کتاب لے آیا۔ حکومت آپا نے دیکھ لی، بولیں، ”مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔“ ایک دن ایک ڈرامے میں لگاتار دو گھنٹے رضیہ کو دیکھتا رہا اور اپنا پارٹ غلط سلط کر گیا۔ حکومت آپا دیکھ کر چلائیں، ”مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔“ اور روفی بولے، ”جب آپ کو ہمیشہ پہلے ہی سے پتہ ہوتا ہے تو آپ ہمیں پہلے سے ٹوک کیوں نہیں دیتیں۔“

روفی اکثر انہیں آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ ایک روز بیگم کا کوئی قیمتی زیور کھو گیا۔ ہم سب ڈھونڈ رہے تھے۔ یکایک روفی بولے، ”حکومت آپا تمہیں تو پتہ ہوگا کہ زیور کہاں ہے۔“

”مجھے کیا پتہ؟“ وہ بولیں۔
”تمہیں پہلے ہی سے پتہ ہوا کرتا ہے۔“

پھر ایک دن سب پریشان بیٹھے تھے۔ کوئی کہتا تھا حامد پاس ہو گیا، کوئی کہتا تھا بالکل فیل ہے۔ ٹیلی فون کیا کوئی جواب نہ آیا۔ جج صاحب بھی پورا زور لگا چکے تھے۔ آخر روفی کہنے لگے، ”لو حکومت اب بتا ہی دو۔“ سب حکومت آپا کے پیچھے پڑ گئے کہ بتاؤ کون سی خبر صحیح ہے۔ روفی بولے، ”خواتین و حضرات! ایسے موقعوں پر آپ ہمیشہ حکومت سے مشورہ لیا کیجیے۔ یہ ولی اللہ ہیں اور انہیں ہر چیز کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔“ اس کے باوجود حکومت آپا کا تکیہ کلام اسی طرح رہا۔

روفی مجھے رضیہ کے متعلق طرح طرح کے مشورے تو دیا کرتے لیکن ہمیشہ پریشان رکھتے تھے۔ سب سے پہلے تو یہ سوال پوچھتے کہ آخر میرے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں رضیہ کو اچھا لگتا ہوں؟ یقیناً کوئی ثبوت نہ تھا۔ اس لیے یہ فقط یک طرفہ کارروائی قرار دی جاتی۔ یعنی کسی کو پسند کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ وہ بھی جواباً پسند نہ کرے۔ لہٰذا ان کے فارمولے کے مطابق میں اور رضیہ بالکل اجنبی تھے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ، ”دنیا بہت بڑی ہے، کہیں اور جا کے کوشش کرو۔ رضیہ سے بھی بہتر لڑکیاں ملیں گی۔“ اور مجھے ان کا یہ مشورہ بالکل پسند نہ آتا۔ ایک روز کہنے لگے، ”رضیہ کی نظر کمزور ہے، اسے دور کی چیزیں دھندلی دکھائی دیتی ہیں۔“

”تمہیں کیا پتہ؟“
”عید کا چاند اسے نظر نہ آ سکا، چنانچہ اس نے جج صاحب کی عینک سے دیکھا تھا۔“
”تو پھر؟“
”پھر کیا؟ شادی تک تو وہ کیا عینک لگائے گی، البتہ شادی کے بعد فوراً لگا لے گی۔“

اسی شام کو روفی اور حکومت آپا کی بحث ہو گئی۔ موضوع تھا۔ عینک۔ نہ جانے کون عینک کے خلاف بول رہا تھا اور کون طرفدار تھا۔ غدر سا مچا ہوا تھا۔ میں کچھ دیر باہر سے سنتا رہا۔ پھر اندر چلا گیا۔ روفی کہہ رہے تھے، ”تو گویا خاکسار جیت ہی گیا۔“ حکومت آپا بولیں، ”تعجب ہے کہ تین گھنٹے کی بحث کے بعد بھی آپ قائل نہیں ہوئے۔“

”تین گھنٹے کی بحث کے بعد ؟“ میں نے پوچھا۔

”ہاں بھئی، تین گھنٹے تک بحث ہوئی۔ پونے تین گھنٹے حکومت بولیں۔ دس منٹ وقفہ رہا اور پانچ منٹ میں بولا۔“ اور وہ جل ہی تو گئیں، کیونکہ وہ بولتی بہت تھیں۔ اتنے میں ٹن ٹن کرتا ہوا آگ بجھانے کا انجن سڑک سے گزرا۔ حکومت آپا بولیں، ”کہیں آگ لگی ہے شاید اس طرف!“ اتنے میں دوسرا انجن دوسری جانب ٹن ٹن کرتا ہوا چلا گیا۔ حکومت آپا بولیں، ”اوہ! ادھر بھی آگ لگی ہے!“ روفی سر مٹکا کر بولے، ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔“ اور وہ ناراض ہو کر چلی گئیں۔

روفی خوش ہو کر بولے، ”امرود کھائے جائیں؟“ میں نے سر ہلا دیا۔ کہنے لگے، ”کوئی نوکر آئے تو اسے باغ میں بھیجتے ہیں۔“ اتنے میں جمن (دیو) گزرا۔ یہ جمن صاحب ایک نہایت ہی موٹے نوکر تھے، جنہیں بچے رات کو دیکھ کر ڈر جاتے۔ اس لیے ان کی ڈیوٹی دن کو لگا رکھی تھی۔ رات کو ان کی چھٹی ہوتی۔ روفی نے آواز دی، جمن! اس نے سنا ہی نہیں۔ روفی نے پھر آواز دی۔ اس نے پھر نہیں سنا۔ روفی بولے، ”انگوٹھی گھسیں اس کے لیے؟“ میں نہ سمجھ سکا۔ روفی نے سمجھایا، ”بھئی دیو ہے، ایسے ویسے تھوڑا ہی آ جائے گا۔ کم از کم انگوٹھی تو گھسنی پڑے گی۔“ ذرا سی دیر میں جمن پھر گزرا۔ ہم نے بلایا، وہ آ گیا، روفی بولے، ”ہم نے انگوٹھی گھسی تھی۔ تم آئے ہی نہیں۔“ ویسے وہ بڑا خوش مزاج تھا، لیکن اس وقت نہایت اداس دکھائی دے رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کے گھر سے تار آیا ہے۔ اسے فوراً بلایا گیا ہے۔

”گھر سے اول تو میں خود واپس آ جاؤں گا، ورنہ آپ بلا لیں۔“ اس نے کہا۔
”ہاں ہاں ضرور بلا لیں گے۔“ میں نے یقین دلایا۔
”بھلا آپ کس پتے پر اطلاع دیں گے؟ کیونکہ میں نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا پھروں گا۔“

روفی بولے، ”اس کا تو یہی علاج ہے کہ تم اپنی مونچھ کا ایک بال ہمیں دے جاؤ۔ تاکہ جب ہم تمہیں بلانا چاہیں تو بال کو دھوپ میں رکھ دیں گے۔ پہلے آندھی آئے گی، پھر مینہ اور بعد میں تم اڑتے آ جاؤ گے۔“ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ میں نے لا حول پڑھی۔

جمن گیا تو دیکھا کہ روفی بھی کمرے میں نہیں تھے۔ دوسرے روز پھر اسی طرح کا واقعہ ہوا۔ مجھے کچھ شبہ سا ہو گیا۔ میں نے رضیہ کو بتایا اور ایک پروگرام بنایا گیا۔ سہ پہر کو چاء پر رضیہ نے جان بوجھ کر لاحول پڑھ دی اور بجلی کی طرح روفی کمرے سے نکل گئے، حالانکہ ابھی چاء شروع بھی نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا میں نے سب کو بتا دیا کہ چونکہ روفی لاحول سے بھاگتے ہیں اور ان کا حلیہ بھی شیطان سے ملتا ہے، اس لیے آج سے وہ مکمل شیطان ہیں۔ آئندہ کوئی انہیں روفی نہ کہے، شیطان کہے۔ یعنی اگر سامنے ہمت نہ پڑے تو کم از کم پیٹھ پیچھے ہی کہہ دے۔ بس اس دن روفی باقاعدہ طور پر شیطان قرار دیے گئے۔

نہایت دلفریب چاندنی رات تھی، پورا چاند درختوں کے جھنڈ سے طلوع ہوا تھا۔ ہوا کے خنک جھونکوں سے پودے جھوم رہے تھے۔ میں فوارے کے پاس بیٹھا تھا۔ خیالات کے سلسلے کو جہاں کہیں سے بھی شروع کرتا تھا، ختم رضیہ پر ہوتا تھا۔ یکایک جو دیکھتا ہوں تو پرے رضیہ پلاٹ میں بیٹھی چاند کو تک رہی تھی۔ ان دنوں اکثر میں اسے تنہا گوشوں میں خاموش بیٹھے دیکھا کرتا تھا۔ آخر کس کے متعلق سوچا کرتی ہے یہ؟ میں بے چین ہو گیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور پہنچا سیدھا شیطان کے کمرے میں۔ وہ سو رہے تھے، انہیں زبردستی جگایا۔

”ارے!“ میرے منہ سے نکل گیا، ”تم عینک لگا کر سوتے ہو؟“

”کل عینک لگانی بھول گیا تھا، رات بھر خواب دھندلے نظر آئے۔ میں چاہتا ہوں کہ کم از کم خواب صاف دکھائی دیں۔“

میں اتنا بے چین تھا کہ مجھ سے ہنسا بھی نہ گیا۔ جلدی سے سب کچھ انہیں بتا دیا اور کہا، ”رضیہ کو کسی کا خیال ضرور ہے، لیکن یہ پتہ نہیں کہ وہ خوش قسمت ہے کون؟ ویسے وہ آج کل ہر وقت کسی کے متعلق سوچتی ضرور رہتی ہے۔“ دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ سوال یہ تھا کہ کیسے یہ گتھی سلجھائی جائے؟ ویسے میں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھا کہ اسے میرا کس قدر خیال ہے۔ آخر بڑی سوچ بچار کے بعد شیطان بولے، ”بھئی اس کے لیے تو تھوڑی سی جرات کرنی پڑے گی۔“

”وہ کیا؟“
”اگر میری مانو تو تم خود کشی کر لو۔“
”خودکشی کر لوں؟“ میں چونک پڑا۔
”اصلی نہیں نقلی خودکشی۔ ظاہر یہی کریں گے کہ تم سچ مچ خودکش ہو گئے ہو۔ پھر دیکھیں رضیہ کیا کرتی ہے؟“

میں نے صاف انکار کر دیا۔ بیگم کو ضرور پتہ چل جائے گا اور اگر انہوں نے امی کو لکھ دیا تو آفت آ جائے گی۔ ویسے خودکشی کرنا ہے بھی فضول سی حرکت۔ شیطان بولے، ”بیگم کو تو ہرگز پتہ نہیں چلنے دیں گے۔ اس اتوار کو سارا کنبہ ایک پارٹی پر جا رہا ہے۔ رضیہ کا امتحان اگلے ہفتے ہے، اس لیے وہ یہیں رہے گی۔ بس میدان صاف پا کر تم خودکشی کر لینا۔ سارا انتظام میں کردوں گا۔“ ایک طویل بحث کے بعد شیطان نے مجھے ورغلا لیا۔ اگلے روز ہم نے خوب ریہرسل کیے۔ اتوار کا دن آیا۔ رضیہ کے سوا سب پارٹی پر چلے گئے۔ مجھے اور شیطان کو بہتیرا مجبور کیا گیا۔ لیکن ہم نے ایک کرکٹ میچ کا بہانہ کر دیا۔

شیطان کی ہدایات کے مطابق تیاریاں کی گئیں اور پھر میں نے خودکشی کرلی۔ ایک صوفے پر لیٹ گیا۔ ایک ہاتھ نیچے لٹک رہا ہے اور فرش پر عین انگلیوں کے نیچے ایک خالی شیشی پڑی تھی، جس پر ”زہر“ لکھا تھا۔ شیطان نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ”تیار؟“ میں نے کہا، ”ہاں۔“ اور انہوں نے ایک عجیب بے ڈھنگی آواز میں شور مچانا شروع کر دیا جس پر مجھے ہنسی آ گئی۔ رضیہ بھاگی بھاگی آئی۔ میں نے فوراً آنکھیں بند کر لیں، لیکن پلکوں میں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ شیطان نے فوراً اسے بتایا کہ میں نے خودکشی کرلی ہے۔ رضیہ نے پہلے شیشی کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر میری نبض دیکھی۔ بھلا میں نبض کس طرح بند کر سکتا تھا۔ بولی، ”افوہ! ابھی تھوڑی سی جان باقی ہے۔“ گھبرائی ہوئی ساتھ کے کمرے میں گئی۔ اس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔ وہ ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون کر رہی تھی۔ انہیں فوراً آنے کے لیے کہا اور بولی، ”خدا کے لیے جلدی کیجیے، زندگی اور موت کا سوال ہے۔“ اور میرا دل مسرت سے لبریز ہو گیا۔ کس کی زندگی اور موت کا سوال ہے؟ میری زندگی کا یا رضیہ کی زندگی کا؟ میں نے شیطان کو اشارہ کیا، وہ مسکرائے۔ رضیہ گھبرائی ہوئی آئی اور میرا سر دبانے لگی۔ اب جو اس کی انگلیاں گردن تک پہنچی ہیں تو مجھے سخت گدگدی ہوئی۔ بے حد ضبط کیا۔ آخر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور جلدی سے بیٹھ گیا۔

”ہیں؟“ رضیہ کے منہ سے نکلا۔
”ہیں؟“ شیطان نے چنگھاڑ کر کہا۔
”دیکھا ڈرا دیا نا تمہیں؟“ میں بولا۔

”واقعی میں تو ڈر ہی گئی تھی۔“ اس نے کہا اور خوشی کے مارے میرا برا حال ہو گیا۔ تو گویا رضیہ کو میرا بہت خیال تھا۔ اس نے خود جو کہا تھا کہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔

”تو کیا تم سچ مچ بہت گھبرا گئی تھیں؟“ میں نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا۔
”ہاں کچھ گھبرا ہی گئی تھی۔“ وہ مسکرا رہی تھی۔
”کچھ کیا؟ یوں کہو کہ مکمل طور پر گھبرا گئی تھیں، بہت بری طرح گھبرا گئی تھیں۔“
”خیر! اتنی تو نہیں گھبرائی۔ دراصل خودکشی اچھی طرح نہیں کی گئی۔ اس میں کچھ خامیاں رہ گئیں۔“
”اب تم خواہ کچھ ہی کہو۔ ایک مرتبہ تو نہایت پریشان ہو گئی تھیں۔“

”مثلاً اس زہری شیشی کو لیجیے۔“ وہ بولی، ”مانا کہ اس میں کبھی ٹنکچر آیوڈین آئی تھی۔ لیکن پورے دو سال سے اس میں بادام روغن تھا اور اگر واقعی بادام روغن سے خودکشی ہو سکتی ہے، تب بھی یہ عرصے سے خالی پڑی تھی۔“

”لیکن تم نے فون تو بڑی گھبراہٹ میں کیا تھا۔“ میں کھسیانا ہو چلا تھا۔
”اچھا بتائیے فون کس کمرے میں ہے؟“
”ڈرائنگ روم میں!“ میں نے کہا۔
”اور میں نے فون کس کمرے سے کیا تھا؟ ساتھ کے کمرے سے نا؟“

”ہاں!“
”اور ساتھ کا کمرہ ہے گودام۔ اب بتائیے وہاں ٹیلیفون کہاں سے آ گیا؟“
اور مجھے یقین ہو گیا کہ میں رضیہ کو بالکل اچھا نہیں لگتا، بلکہ شاید برا ہی لگتا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments