شہباز گل مکافات عمل کا شکار ہوئے


عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ جب آپ سیاست کو ایک گندا اور متعفن جوہڑ بنائیں گے اور اس میں مسلسل پتھر مار کے دوسروں کے کپڑے خراب کریں گے تو ایک دن یہ کیچڑ آپ کے لباس کو بھی آلودہ کر دے گا۔ وزیراعظم کے ترجمان شہباز گل اسی اندھی، غلیظ اور بے رحم نفرت کا ہدف بن گئے جس کا پرچار وہ ہمہ وقت کرتے رہتے تھے۔ اس سے قبل فیاض الحسن چوہان بھی ایک موقعے پر ایسے ہی ردعمل کا شکار ہو چکے ہیں۔ لاہور میں عدالت پیشی کے دوران ہر چند کہ پنجاب حکومت اور پولیس نے سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کر رکھے تھے مگر نون لیگ کے کچھ کارکن اس کے باوجود عدالت کے احاطے میں پہنچ گئے۔ زرقا نے سیاہی شہباز کے چہرے پر انڈیلی اور میاں عباس نے گندے انڈوں سے ان کا سواگت کیا۔

یہ افسوسناک واقعہ بظاہر تو پچھلے دنوں پارلیمنٹ لاجز کے سامنے رونما ہونے والے اس واقعے کا فوری رد عمل لگتا ہے جہاں نون لیگ کی مرکزی قیادت کو پی ٹی آئی کے مشتعل ہجوم کی طرف سے گالم گلوچ اور بد تمیزی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے شرافت اور تہذیب و شائستگی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے مریم اورنگ زیب کے ساتھ بھی بد تمیزی کی تھی اور ان کا دوپٹہ اتارنے کی جسارت کی تھی۔ افسوسناک بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں ہوا تھا۔

اس سے بھی زیادہ قابل افسوس اور مایوس کن بات یہ تھی کہ سوائے فواد چودھری کے کسی حکومتی راہنما اور ترجمان نے اس گھناوٴنے واقعے کی مذمت نہیں کی تھی۔ بلکہ شہباز گل، فیاض چوہان، فردوس عاشق، زرتاج گل اور شبلی فراز وغیرہ نے اس ہلڑ بازی اور بد تہذیبی پر اپنے ٹائیگرز کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ سب سے زیادہ تاسف انگیز امر یہ تھا کہ خود وزیراعظم نے اس بد تمیزی پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی تعریف کی تھی حالانکہ ہر مہذب شہری یہ توقع کر رہا تھا کہ وزیراعظم ضرور اس واقعے کی مذمت کریں گے مگر ان کے نزدیک تو سیاسی مخالفین پر اس طرح کے رکیک اور اخلاق سوز حملے کرنے والے چیتے اور ٹائیگرز اور اقبال کے شاہین کا لقب پاتے ہیں۔

عدالت کے احاطے میں وقوع پذیر ہونے والے افسوسناک واقعے کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے مگر عمران خان اور ان کی لڑاکا اور منہ پھٹ ٹیم ماضی میں جو بوتی رہی ہے اب وہی کاٹ رہی ہے۔ دھرنے سے پہلے اور دھرنے کے دوران وہ کون سی گالی ہے جو عمران خان نے سیاسی مخالفین، اداروں اور افسران کو نہیں دی ہے۔ دھرنوں کو دوران جس طرح ایس پی، پولیس والوں اور دوسرے سکیورٹی اہلکاروں کو سفاکی سے زدو و کوب کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جب مشعل ڈنڈا بردار ہجوم پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑے گا اور عملے کو ہراساں کر کے قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا اور کپتان صاحب اور ان کے سیاسی کزن اسے انقلاب سے تعبیر کریں گے تو موقع ملنے پر دوسری طرف سے بھی ایسا ہی رد عمل آئے گا۔

آپ سابق وزیراعظم پر جوتا پھینکیں، پارلیمانی لیڈروں کے چہروں پر سیاہی پھینکیں، ان کے راستے روکیں، ان پر انڈے برسائیں اور طوفان بد تمیزی مچائیں اور جب مہذب لوگ مذمت کریں تو آپ ایسے افعال کو عوامی رد عمل سے تعبیر کریں تو پھر آپ بھی ایسے ہی عوامی رد عمل کے لیے تیار رہیں۔ ابھی تو یہ نقطۂ آغاز ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے جس طرح سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنا کر مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے اس کے مظاہرے تو بد ترین فاشسٹ حکومتوں میں بھی نہیں ہوتے۔ ابھی تو آپ سخت ترین حفاظتی حصار اور پروٹو کول کی درجنوں گاڑیوں کے جلو میں سفر کرتے اور مخصوص دروازوں سے اداروں میں آتے جاتے ہیں، ڈریں اس وقت سے جب اس لاوٴ لشکر کے بغیر عوامی حلقوں میں آئیں گے۔

ہر مہذب شہری ایسے واقعات کی دل سے مذمت کرتا ہے مگر کانٹوں کی جو فصل آپ بیس بائیس سال سے بوتے رہے ہیں اب وہ پک چکی ہے اور اس کے کٹنے کا موسم آن پہنچا ہے۔ بد قسمتی سے کپتان نے ایک ایسی جذباتی، بد تمیز، بد زبان اور بد تہذیب نسل تیار کی ہے جو چند منٹ کے لیے بھی دلیل اور منطق سے بات کرنے کے قابل نہیں۔ گالی تو اس کی زبان پر دھری رہتی ہے۔ ہر مخالف کو چور، ڈاکو، لٹیرا، اٹھائی گیر، لچا لفنگا اور کرپٹ کہنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ یہاں نون لیگ، پی پی اور دوسری پارٹیوں کے قائدین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے لاہور واقعے کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کاش کچھ روز قبل وزیراعظم اور حکمران پارٹی کے ترجمان بھی پارلیمنٹ لاجز کے باہر ہونے والی ہلڑ بازی اور بد تہذیبی کی مذمت کر لیتے تو شاید یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔ سیاست میں جس طرح کا ماحول وزیراعظم اور ان کی پارٹی پیدا کر چکی ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ خدا نخواستہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہونے والا ہے اور سیاسی مخالفین گلی محلوں اور سڑکوں پر ایک دوسرے سے دوبدو لڑائی کریں گے۔

کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ، یہاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہات دے، اس ہات لے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments