آغا شورش کاشمیری اور ان کا ہفت روزہ چٹان


آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والدین کشمیر سے ہجرت کر کے قیام پذیر ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالکریم تھا لیکن شہرت آغا شورش کاشمیری کے نام سے پائی۔ متوسط گھرانا تھا، سات سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ابھی یتیمی کا صدمہ کم نہ ہوا تھا کہ والد نظام الدین بھی دار فانی سے کوچ کر گئے۔ والد اور والدہ کی وفات کے بعد دادا جو انارکلی بازار میں ایبک روڈ پر باقرخانی اور کلچے لگاتے تھے، نے آپ کو دیوسماج ہائی سکول لاہور میں حصول تعلیم کے لیے داخل کروا دیا۔

اسی سکول سے آپ نے میٹرک کا امتحان 1932ء میں پاس کیا۔ اس کے بعد کچھ سال فارغ رہے لیکن باقاعدگی سے پنجاب پبلک لائبریری جاتے رہے جہاں زیادہ تر وقت مطالعۂ کتب میں صرف کیا کرتے۔ ایک جگہ خود رقمطراز ہیں کہ ابتداء ہی سے ”زمیندار“ کے مستقل قاری رہے۔ یہی وہ اخبار تھا جس نے آپ کی ذہنی تربیت کی۔ ابھی آپ چھٹی جماعت میں تھے کہ سائمن کمیشن آیا جس کے خلاف لاہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاج ہوا، پولیس کا لاٹھی چارج ہوا جس سے کئی لوگ زخمی ہوئے۔

یہ واقعہ ان کی سیاست میں دلچسپی اور انگریز سرکار سے شدید نفرت کا باعث بنا۔ زمیندار کے مطالعے اور مولانا ظفر علی خان سے مراسم ہونے کے باعث گھر کا ماحول سیاسی تھا۔ ابتدا ہی سے جوش و جذبے کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کے ہدی خواں تھے۔ شاعری کا مزاج بچپن ہی سے پایا، چنانچہ ابتدا میں ”الفت“ تخلص کیا لیکن زمانے میں شورش بپا تھی چنانچہ حسب مزاج و زمانہ تخلص کو الفت سے ”شورش“ کیا۔ کچھ کرگزرنے کا جذبہ طبیعت میں زور پکڑتا رہا۔

مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت خطابت اور عشق نبی ﷺ شورش کے مزاج کا حصہ بن چکے تھے اور خون میں حلاوت کر چکے تھے چنانچہ جملہ شعبہ جات میں تعلیم و تربیت ہوتی رہی۔ آغا صاحب نے مولانا ظفر علی خان کی جماعت ”مجلس اتحاد ملت“ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس زمانے میں 1935 یا 36ء میں مسجد شہید گنج کا واقعہ رونما ہوا ہوا۔ جب اس سلسلے میں جلسوں کا آغاز ہوا تو آغا صاحب نے اپنی پہلی تقریر اسی حوالے سے منعقدہ جلسے میں کی۔

جولائی 1935ء میں شاہی مسجد لاہور میں ایک دھواں دار تقریر کر کے خود کو منوایا۔ ایک دو برس بعد آپ کی تقریر میں وہ تمام لوازم یکجا ہو گئے جو ایک اچھے خطیب میں ضروری ہوتے ہیں۔ مسجد شہید گنج واقعے کے بعد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، حقیقت میں آغا جی کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزرا۔ جیل میں ایسے مظالم بھی برداشت کیے جس کا ذکر الفاظ میں ممکن نہیں۔

شورش اور انگریز

شورش کی پوری زندگی جہد مسلسل اور جبر مسلسل سے تعبیر ہے۔ وہ سراپا ہمت و محنت تھے۔ ان کی ہر تحریر انگریز اور ان کے حامیوں کے خلاف ننگی تلوار تھی۔ جو کچھ لکھتے برملا لکھتے۔ ان کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک پہلو نہ صرف نمایاں نظر آتا ہے بلکہ سب سے زیادہ طاقتور حیثیت بن کر ابھرتا ہے ہے کہ انہیں قلبی، فطری اور دینی اعتبار سے انگریز سامراج اور اس کے تخلیق کردہ ایجنڈے سے نفرت تھی۔ ان کا یہ شعر ان کی شخصیت کو جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے کے لئے انتہائی موزوں ہے۔

ہر اک دور کے آقا غلام ابن غلام
ہر اک عہد کی تاریخ چند سودائی

اکثر فرمایا کرتے تھے ”جو لوگ کسی جمال و کمال کے بغیر اپنے خدا ہونے پر اصرار کریں اور پھر گماں ہو کہ بڑے آدمیوں میں سے ہیں، انہیں نہ تو ذہن قبول کرتا ہے اور نہ دل مانتا ہے اور نہ قلم کے ہاں ان کے لیے کوئی عزت ہے۔ میں نے اس قسم کے خداؤں اور انسانوں سے ہمیشہ بغاوت کی ہے۔“ 1939ء سے 1944ء تک کا عرصہ قید میں گزرا۔ جب رہا ہوئے تو کسی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہوئے لیکن نظریۂ پاکستان اور اسلام کے علم بردار رہے۔

قیام پاکستان سے پہلے انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں شورش کاشمیری نے جس بہادری اور بے خوفی کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا اور ان کو قید و بند کے دوران جن روح فرسا مصائب جن میں ان کے بھائی کی وفات اور جنازہ میں شرکت نہ کرنے دینا سے لے کر احتجاجاً بھوک ہڑتال کرنے پر انسانی فضلے سے بھرا ہوا تھیلہ منہ پر باندھ کر اس کو کھانے پر مجبور کرنے جیسے اندوہناک واقعات کا تذکرہ ہے، ایسی مثالیں جد وجہد آزادی کی تاریخ میں خال خال ہی ہوں گی ۔

آغا جی کی خطابت اور آغا جی کا قلم

برصغیر میں خطابت کے فن پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے بعد آغا جی کا نام جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، وہ بلاشبہ ایک باکمال مبلغ و خطیب تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے کو مٹھی میں لینے اور ان کے جذبات کو آگ لگا دینے کا فن جانتے تھے۔ میٹرک پاس تھے لیکن بے پناہ مطالعے کے باعث وہ زبان و بیان کے رموز پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ہم قافیہ الفاظ ان کے منہ سے آبشار کی طرح بہتے چلے جاتے اور دریا کی روانی کے مثل جملے ادا ہوتے جاتے۔

وہ انگریزوں اور دیسی حکمرانوں سے ٹکر لے کر ان کے خلاف بھرپور مزاحمتی خطبات دیتے رہے جس کی وجہ سے برصغیر میں ایک اعلیٰ پائے کے منفرد خطیب کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ تمام ہندوستان ان کے نام سے متعارف ہوا۔ جس کی وجہ سے ان کے سیاسی وقار اور قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا۔ جس دوران مسلم لیگ آزاد مملکت کے حصول کے لیے کوشاں تھی ، اس وقت آغا شورش کاشمیری ”مجلس احرار“ کے چنیدہ رہنماؤں میں شامل ہو چکے تھے۔ مجلس احرار کے ایک روزنامہ ”آزاد“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔

حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ پرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بہت صبر و استقلال سے ڈٹے رہنا آغا کے مزاج کا حصہ تھا۔ تحریک ختم نبوتﷺ آغا جی کی زندگی کا اہم اثاثہ تھی، وہ تب تک چین سے نہ بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوتﷺ کے عقیدے کو شامل کروا کر قادیانیوں کو خارج اسلام نہ کر لیا۔ پاکستان میں آئین سازی ہو یا جمہوری اقدار کے احیاء کی بات ہو ، پاک بھارت جنگ ہو یا مارشل لا کے ضابطے آڑے آئیں، شورش ایک محب وطن رہبر بن کر میدان فکروعمل کے سالار ہے۔ جوش خطابت ایسا کہ برصغیر کے سب سے بڑے خطیب اور آغا جی کے مرشد سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کہہ اٹھے کہ ”شورش تم میری مراد ہو“ خطیب اعظم کا مرید، جوش خطابت اور فن خطابت میں ید طولیٰ کیسے نہ رکھتا۔

شورش کے نزدیک قلم کی تجارت ذلت سے کم نہ تھی۔ آغا جی ایک ایسی شخصیت تھے جن میں بے شمار خوبیاں یکجا ہو گئی تھی تھیں۔ ایسے صحافی تھے کہ خود امام صحافت مولانا ظفر علی خان کو کہنا پڑا:

شورش سے میرا رشتہ ہے وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانیٔ سہراب

آغا جی نے مولانا ابوالکلام آزادؔ کو اپنا استاد مانا جنہوں نے ان کی تحریر کو دیکھ کر کہا کہ ”نوجوان کی تحریر کی پختگی یہ بتا رہی ہے کہ یہ تحریر و تقریر کی بہت سی منزلوں کو بآسانی طے کر لے“ ۔ اردو زبان میں ان کی دسترس کا یہ عالم تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رشید احمد صدیقی نے برملا اعتراف کیا اور کہا کہ ”پنجاب کو ناز کرنا چاہیے کہ اس نے اقبال ہی نہیں شورش کاشمیری کو بھی پیدا کیا ہے“ ۔

مزید ایک موقع پر کہا کہ ”اردو زبان ہماری ہے لیکن اس پر حکومت دو پنجابیوں نے کی“ ۔ شورش ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اور حمایت میں کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ آپ قلم سے تلوار کا کام لیتے، آپ کے قلم نے طاقتور کے سامنے جھکنا نہیں سیکھا تھا۔ شورش نے نعت، غزل اور نظم میں بھی طبع آزمائی کی لیکن اصل میدان ہنگامی اور سیاسی شاعری ہی رہا اور اس ضمن میں آپ کے بے باک کالم اور مضامین مرکز خاص و عام رہے۔ آغا جی سے اچھی اردو لکھنے والا صحافی پاکستان میں کبھی پیدا نہ ہو سکا۔ ان کے قلم سے کئی معرکۃ الآراء کتب تخلیق ہوئیں بقول آغا جی ”صحافت کو تجارت بنانے والے صحافی صحافت کو زنگ آلود کر دیتے ہیں۔

ہفت روزہ چٹان کا پاکستانی سیاست میں کردار

آغا جی نے صحافتی زندگی کا آغاز ”زمیندار“ سے کیا۔ بعد ازاں تاجور نجیب آبادی کے رسالے ”شاہکار“ کے ایڈیٹر ہو گئے۔ روزنامہ ”سیاست“ اور ”الہلال“ سے ہوتے ہوئے آپ نے اپنے رسالہ ہفت روزہ ”چٹان“ کا اجراء یکم جنوری 1949ء سے کیا۔ ”چٹان“ لاہور سے جاری ہوا جس میں آغا جی اداریے، کالم ، شذرات اور مضامین مختلف ناموں سے لکھتے رہے۔ جب سے شورش تخلص کیا تب سے زیادہ معروف ہوئے۔ چٹان بیک وقت سیاسی، تہذیبی اور اصلاحی رسالہ تھا۔

یہ رسالہ معاشرتی برائیوں کا زبردست نقاد تھا اور اس روش کے باعث پر کئی مرتبہ بندش ہوئی لیکن اس کی آواز کو دبایا نہ جا سکا۔ چٹان جب بھی بندش کے بعد دوبارہ چھپنا شروع ہوتا تو ایک نئی آب و تاب اور جذبہ و توانائی لئے منظر عام پر آتا ، اس کی مقبولیت میں کبھی بھی کمی واقع نہ ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد ”چٹان“ نے اپنی بے باک اور منفرد صحافت برقرار رکھی اور یہی وہ وقت تھا جب اس کو کئی طرح کی مشکلات سے گزرنا پڑا۔

چٹان باقی رسائل و جرائد کی طرح محض ایک عام رسالہ نہ تھا بلکہ اس کا ظلم و استبداد، آمرانہ اور جابرانہ پالیسیوں اور ناجائز قوانین کے خلاف آواز بلند کرنا ہی دراصل اس کی انفرادیت تھی اور یہی صفات اس کو اپنے وقت میں ایک اعلیٰ صحافتی اقدار کا علم بردار بنائے ہوئے تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد نظریۂ پاکستان اور نظریۂ اسلام اور جمہوریت ہی اس کا اولین ہدف تھے اور ان کی بقاء اور سلامتی کے لیے ’چٹان‘ مثل چٹان کھڑا رہا۔

بھٹو کے دور حکومت میں غیر جمہوری پالیسیاں، فسطائی اور سول آمریت، آزاد روی اور ختم نبوت ﷺ وغیرہ کے معاملات میں میں تمام تنقید جو ”چٹان“ میں چھپتی تھی وہ اصحاب ایوان کو ناگوار اور اپنی بقاء کے لیے خطرہ محسوس ہوتی تھی ۔ چنانچہ بھٹو کے حکم پر گورنر پنجاب نے نے آغا جی کی بیٹی کو اغواء کروایا اور ان سے صحافت ترک کرنے کا کہا گیا۔ چنانچہ تب آغا جی نے اپنا آخری اداریہ لکھا کہ میں نے آزادی کی خاطر اتنی مصیبتیں برداشت کیں، انگریز سامراج کے ظلم و ستم سہے پھر اس ملک کے قیام کے بعد مصائب و الم برداشت کیے لیکن میں اپنی بیٹی کی عصمت نہیں دے سکتا، چنانچہ قلم رکھتا ہوں۔

جب حبیب جالب کو گرفتار کیا گیا تو آغا صاحب ”چٹان“ کے دفتر میں موجود تھے چنانچہ فوراً تھانے پہنچ کر اپنے روایتی اندازمیں  پولیس والوں کو برا بھلا کہا کہ ان کو معافی مانگنا مشکل ہو گیا، بالآخر جب جالبؔ کو لے کر چٹان کے دفتر آئے تو انہوں نے پولیس کی زیادتی پر یہ سوچے بغیر کہ جالبؔ کا تعلق سوشلسٹ جماعت سے ہے، زبردست احتجاج کیا جو تاریخی احتجاج کہلایا۔ یہ چٹان ہی تھا جو ظلم و جبر اور غیر جمہوری پالیسیوں کے خلاف صف اول میں کھڑا رہا۔

تقسیم کے بعد ہی سے ”چٹان“ نے پاکستان کی صحافت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یوں تو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے چند اکابرین نے نمایاں کردار ادا کیا لیکن تحریک ختم نبوتﷺ کے آخری دور میں شورش کاشمیری نے ”چٹان“ کے ذریعے اپنے قلم اور زبان کی آتش فشانی سے قادیانیت کے چہرے کو بے نقاب کرنے کا حق ادا کر دیا تھا جس کے نتیجے میں قادیانیوں کا سیاسی خرمن راکھ کا ڈھیر بن گیا۔

آغا جی کی کتابیں

آغا جی کے قلم سے یوں تو درجن بھر سے زیادہ تصانیف قلم بند ہوئیں لیکن ان کی کچھ کتب کو بہت اہم مقام حاصل ہے جن کا ذکر درج ذیل ہے۔

پس دیوار زندان

پس دیوار زنداں میں آغا جی نے اپنی قید و بند کی اس کہانی کو بیان کیا ہے ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے آپ نے گزاری۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید آغا جی کا خاصا تھی جس کی وجہ سے اپنی حیات میں کئی بار پس دیوار زنداں ہوئے۔ کتاب 1971ء میں لکھی گئی اور اپنے جوان سال بھائی ”یورش کاشمیری“ کے نام انتساب کیا۔ جس میں بھائی کی موت کے بعد چوتھائی صدی کے عرصے، اپنی نارسائی اور کرب کو بیان کیا ہے۔ کتاب میں اس تاخیر کے اسباب بھی بتائے اور اپنی گرفتاریوں کے اوقات بھی۔ جیل میں اپنی خرابیٔ صحت سمیت جملہ حوادث کا تذکرہ کیا۔

بوئے گل نالۂ دل، دودِ چراغ محفل

بوئے گل نالۂ دل، دودِ چراغ محفل ، آغا جی کے افکار پر مشتمل تصنیف ہے۔ جس کے انتساب میں لکھتے ہیں ”میں کیا میری سوانح کیا، یہ کہانی صرف اس لئے لکھ دی ہے کہ دوسروں کو عبرت ہو“ کتاب میں بچپن کے حالات و واقعات، طبیعت و جنوں، خاندان کے مسائل، سیاسی حالات و واقعات، نظربندیاں اور دیگر حقیقتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب بچپن سے لے کر پاکستان بننے تک کے حالات کے گرد گھومتی ہے اور اس کا آخری مضمون ”ہم آزاد ہو گئے“ اور ”پاکستان بن گیا“ کے عنوان سے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آغا جی پر قیام پاکستان کے بعد بھی مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔

شب جائے کہ من بودم

”شب جائے کہ من بودم“ آغا جی کا سرزمین عرب حجاز مقدس میں قیام کے چودہ دنوں کا سفرنامہ ہے۔ کتاب میں آغا جی کے احوال عشق و محبت رسول اللہ ﷺ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے مؤدت کا احوال ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مزار پر حاضری کا احوال اور پھر اس کے بعد خواب میں جنت البقیع میں بی بی رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار کے بارے میں انکشاف ہونا، ان سب کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ہمارے سامنے ایک بالکل منفرد شورش کاشمیری وارد ہوتا ہے جو سراپا محبت ہے، عاجزی و انکساری میں ڈوبا ہوا شخص ہے اور ایک ایک واقعے کو اتنی دلگدازی اور رقت آمیزی سے قلم بند کرتا ہے کہ صاحبان عشق کے دل تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔ کتاب کا انتساب ملک عباس حسین کے نام ہے۔

شورش کی عقیدتوں کے مرکز

پروفیسر اقبال جاوید رقم طراز ہیں کہ ”شورش کے شعور نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ صحافت و خطابت اور شعر و سخن کے لحاظ سے سماوی رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ اقبال کا مفکرانہ سوز و ساز، ظفر علی خاں کا نعرۂ پیکار، محمد علی جوہر کا پرخلوص طنطنہ، ابوالکلام آزاد کی پرشکوہ علمیت اور سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے خطیبانہ زمزمے فضاؤں میں منتشر ہو کر دلوں کے انجماد کو اضطراب بخش رہے تھے۔ عبدالسلام خورشید کے الفاظ میں“ شورش کو ابو الکلام نے شعور بخشا، اقبالؒ نے فکر دی، ظفر علی خان نے سج دھج عطا کی اور عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے پاکیزہ ذوق ان کی زبان کو خارا شگافی کی صلاحیتیں بخشیں۔

علامہ محمد اقبالؒ کے زیر صدارت خلافت کانفرنس سے کوچہ سیاست میں داخل ہوئے پھر مولانا ظفر علی خان کی صحافت کو استاد بنایا اور تحریر و تقریر کے فن کو یکتا بنا دیا۔ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو اپنا مرشد کہتے تھے۔ آغا جی کی شعلہ بیانی میں شاہ صاحبؒ کے خطاب کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے مرشد شاہ جیؒ کی پہلی برسی کے موقع پر جب آپ اظہار خیال کے لئے اسٹیج پر آئے تو چند ساعتیں خاموش رہے پھر گویا ہوئے کہ ”میں جنتی ہوں اس لیے کہ شاہ جیؒ میرے بغیر جنت میں نہ جائیں گے“ ۔

یہ عالم تھا اپنے مرشد شاہ جی ؒسے محبت و مؤدت کا۔ شاہ جیؒ بھی اپنی حیات میں آغا جی سے بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ جو علم و فکر میں آپ اپنی مثال تھے، آغا جی ان کو اپنا استاد مانتے تھے اور وہی شعلہ بیانی، بے مثال نثر، زبان و بیان میں روانی آغا جی کے حصے میں بھی آئی۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒکو آغا جی اپنا بہترین دوست اور دین کا کماندار کہتے تھے اور ان سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔

چونکہ نظریۂ اسلام کے حوالے سے مودودی ؒکی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں چنانچہ جملہ خصوصیات آغا جی کے اندر ان گراں قدر مشاہیر کی عقیدت، محبت اور سنگت کی وجہ سے پائی جاتی تھیں اور ان کے انداز، تحاریر، سوچ، افکار میں مذکور شخصیات کا عکس واضح دکھائی دیتا تھا تھا۔ مولانا احمد علی لاہوری ؒسے آغا جی کو خاص نسبت تھی اور مولانا میں جو اپنے وقت کے جید عالم تھے ، آغا جی سے محبت و شفقت فرماتے تھے۔ مولانا احمد علی کاشف القبور تھے اور بعد وفات آپ کی قبر کی مٹی سے خوشبو جاری رہتی اور عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا۔

آغا جی نے اقبالؒ پر جو کچھ لکھا وہ ان کی اقبال ؒسے محبت اور عقیدت کا ثبوت ہے۔ آغا جی نے اقبال پر کتاب بھی تحریر کی ”اقبالیات شورش“ کے عنوان سے جس میں ان کی فکر اقبالؒ سے متعلق بھرپور شخصیت ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ”فیضان اقبال“ اور ”اقبالی مجرم“ بھی آپ کی اقبالؒ سے عقیدت اور محبت کا گہرا ثبوت ہیں۔ اپنے مرشد سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ سے عقیدت کے طور پر ان کی سوانح پر مشتمل کتاب ”سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ۔

سوانح و افکار“ شائع کی جو شاہ جی ؒ کے حوالے سے سب سے مستند کتاب مانی جاتی ہے۔ ایک جگہ پر کہا کہ ”مولانا آزاد ؔاور اقبالؒ کے ترجمان القرآن اور الہلال نے میری تعمیر میں حصہ لیا ہے اور کلام اقبالؒ نے مجھ میں نہ صرف مسلمانوں سے یک گونہ وابستگی پیدا کر دی ہے بلکہ اسلام کے ماضی کا شیدا، حال کا نقاد اور مستقبل کا سپاہی بنا دیا ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments