غریبوں کی بستی



میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں دن میں آگ کم اور دھواں زیادہ ہوتا ہے۔ جہاں پر لوگ اپنے بچوں کے خوابوں کی ہانڈیاں چڑھا کر سارا دن اس دھوئیں کی نذر کر دیتے ہیں جس سے بھوک مٹانے والی ہانڈی تیار نہیں ہو سکتی۔ سورج نکلتے ہی یہ اللہ کے بندے حلال رزق کی خاطر نہ سردی کی شدت کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی گرمی کی تپش کا خیال کرتے ہیں۔ بس بچپن سے لے کر بڑھاپے تک بلکہ جب تک جسم میں جان ہے ، غربت کے خاتمے کی جنگ لڑتے لڑتے منوں مٹی کے نیچے دفن ہونے والے یہ وہ سفید پوش لوگ ہوتے ہیں جو کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں سوائے اللہ پاک کی ذات کے علاوہ جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر و باطن اس صاف آئینے کی طرح ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے لباس پر وہ غلیظ دھبے دیکھ سکتا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتے ہیں۔ یہ وہ محنتی لوگ ہیں جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ افسوس غربت ان کا خاتمہ کر کے ہی دم لیتی ہے۔ مگر مجھے غم یہ ہے کہ یہاں بااثر کاروباری لوگ، بزنس مین، ایسے مظلوم لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو چند پیسے ایڈوانس میں دے کر اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ لیکن وہ پیسے بھی سود پر دیتے ہیں تاکہ کام بھی کریں ، سود بھی بھریں۔

مجھے حیرانی اس بات پر ہوتی ہے ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں جس کا رقبہ لاکھوں مربع کلو میٹر پر محیط ہے جس میں دریا، سمندر، پہاڑ، جنگلات، صحرا سبھی شامل ہیں ، کیا ان ساری زمینوں کے مالک 22 کروڑ آبادی میں صرف چند لوگ ہی ہیں۔ باقی سارے لوگ غریب پیدا ہوئے تھے۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ، یہاں سفید پوش لوگ بااثر لوگوں کے آگے بے بس ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ اپنی دو وقت کی روٹی کو ہی ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کی ذاتیات پر کوئی بات نہ کرے۔

مجھے یہ بات کرتے ہوئے ہرگز شرم نہیں آتی کیونکہ میں خود اسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ مجھے پتا ہے ایک وقت کی روٹی کے لے کتنی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ میری حاکم وقت سے اپیل ہے کہ ایک بار آپ آئیں اور ان کی حالت زندگی کو دیکھیں اور محسوس کریں کہ کیا یہ آزاد ہیں؟ کیا یہ ریاست مدینہ کے باسی ہیں؟

یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ضروریات زندگی کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ وہ پانی پیتے ہیں جس میں مضر صحت وائرس حد سے زیادہ ہے۔ کوئی جاگیردار ہے جو ایسی زندگی گزارنے کا خواہش مند ہو؟

میری ان لوگوں سے اپیل ہے جو صاحب زر ہیں ، جن کے پاس ہزاروں ایکڑ زمینیں ہیں۔ خدا کے لیے ان مظلوموں پر رحم کریں ،خدا سے ڈریں اور ان کی بہبود کے لے کچھ اقدامات کریں تاکہ یہ بھی زندگی کو کسی حد تک محسوس کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments