پروفیسر ڈاکٹر شہباز گل صاحب اور انڈہ گردی


لکھنو کو ادب کا شہر کہا جاتا ہے، لکھنو کے لوگ لڑتے ہوئے بھی ادب کا دامن نہیں چھوڑتے۔ دو بچے آپس میں کچھ یوں بحث کر رہے تھے۔ عالی جاہ! ہماری دیرینہ قلبی حسرت ہے کہ آپ کے رخ روشن پر ایسا زناٹے دار طمانچہ رسید کریں کہ آپ کے چہرے پر ہماری انگلیوں کے نشان ابد تک ثبت ہو جائیں اور آپ تاحیات اس ذلت کے نشان کو لے کر کوچہ کوچہ، قریہ قریہ اور بستی بستی گھوما کریں۔

دوسرا بچہ کہتا ہے کہ جان عزیز! ایسی لاحاصل خواہشات کو اپنے دل ناداں میں جگانے پر گویا ہم محض مسکرا ہی سکتے ہیں۔ ہم چاہتے تو اس رن بے تاب لفظی پر رسہ کشی کرتے ہوئے آپ کی عزیزہ ہمشیرگان اور آپ کی والدہ محترمہ کی شان عالی شان میں غیر شرعی اضافتیں کر سکتے تھے۔ مگر ہمارے والد بزرگوار نے ہمیں ہر دم اخلاقیات کا دامن قوی تر پکڑے رہنے کا حکم دیا ہے۔ ورنہ ایسے ناشائستہ اور نازیبا کلمات ادا کرنے پر ہمارے ایک ہی ہاتھ سے آپ کا رخسار مثل گلاب لال ہو جاتا مگر قربان جائیں ہماری بے مثال تربیت پر جو آڑے آتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی عدالت میں پیشی تھی۔ غالباً لاہور ہائی کورٹ میں ہی شہباز گِل کا بھی کوئی کیس تھا ۔ اس موقع پر مسلم لیگ کے کارکنان نے وزیراعظم کے مشیر شہباز گِل پر جوتے پھینکے مگر نشانہ خطا ہو گیا، اس کے علاوہ دو انڈے مارے گئے جب کہ ان پر سیاہی بھی پھینکی گئی جو ان کے ماتھے اور ہاتھ پر لگی۔ بعد ازاں موصوف نے گفتگو کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تو مجھے صرف اس بات پر حیرانی ہوئی جب انہوں نے فرمایا کہ پیشے کے لحاظ سے میں پروفیسر ہوں۔

بچپن میں جب ہم سکول پڑھتے تھے تو ہمارے گاؤں میں لڑکوں اورلڑکیوں کا الگ الگ پرائمری سکول ہوتا تھا۔ تقریباً سبھی اساتذہ سائیکل پر سکول آتے تھے۔ ماسٹر رحمت اللہ اس وقت سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے جن کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ سائیکل پر سکول پہنچتے تو لڑکے احتراماً ان کی سائیکل پکڑ کر سائیکل اسٹینڈ پر لے جا کر کھڑی کرتے تھے۔ اس وقت ہر لڑکے کی خواہش ہوتی کہ وہ ماسٹر صاحب کی سائیکل پکڑنے میں کامیاب ہو جائے۔

اس کے علاوہ گاؤں میں گھومتے ہوئے جب کبھی ماسٹر صاحب سے ٹاکرا ہو جاتا تو دور سے دیکھ کر گلی میں ماسٹر صاحب کے راستہ چھوڑ دیتے اور سلام کیا کرتے۔ یہ احترام صرف سکول کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ جب ہم کالج کے اسٹوڈنٹ بھی تھے تب بھی ایسے ہی احترام کیا کرتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں شاگردوں کی نظر میں استاد کا پیشہ اور احترام کیا ہے مگر محترم شہباز گِل کی گفتگو اور اس کے پیشے کا سن کر سخت مایوسی ہوئی کیونکہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اساتذہ کی تربیت کا شاگردوں پر بہت اثر ہوتا ہے جو شاید تمام عمر نہیں تبدیل ہوتا۔

جس انداز سے وہ اپنے خاندان اور پیشے کا تعارف کروا رہے تھے ، مجھے لگا کہ یقیناً کہیں ان کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے۔ انہوں نے جس انداز میں جواباً گفتگو فرمائی ہے اور تقریباً تمام ٹی وی چینلز نے اسے نشر کیا ہے وہ اساتذہ کے شعبے پر دھبہ ہے۔ اب اگر اساتذہ ایسے ہوں گے تو شاگردوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ویسے شہباز گل کو کیا کہیں جس رہنما کے جانثار ہونے کا وہ دعوٰی کر رہے تھے اس سے یہ کوئی بعید نہیں اور ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔

مجھے ان کے اس کے شعبے سے وابستگی ظاہر کرنے پر حیرانی ہوئی۔ پنجاب میں اگرچہ لکھنو کا ادب نہیں مگر پنجاب کی روایات اتنی بری نہیں۔ پنجاب کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ پنجاب کی روایات میں بڑوں کا احترام اور رشتوں کی تمیز موجود تھی مگر واہ رے سیاست، تجھے سلام جس نے سیاسی وابستگیوں اور اختلافات کی بنا پر یہ احترام ختم کر دیا۔ عمر کا لحاظ ہے اور نہ عہدے کا۔ بس انتقام کی آگ جل رہی ہے۔

کہیں نواز شریف پر جوتے پھینکے جاتے ہیں اور کہیں خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی جاتی ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے کارکنان نے احسن اقبال پر جوتا پھینکا اور مریم اورنگزیب کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بھی دراز دستی کی۔ جس پر میڈیا پر تکرار ہوتی رہی۔ بظاہر آج کی کارروائی گزشتہ دنوں میں ہونے والے واقعے پر انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے اور سوشل میڈیا پر ایسے ایسے ٹرینڈ بن رہے ہیں کہ خدا پناہ۔

پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر شاہ نے اس واقعے پر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جس سیاسی کلچر کو پروان چڑھایا آج اس کی جھلک سامنے آ گئی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ کالے کرتوت دوسروں پر سیاہی پھینکنے سے نہیں مٹیں گے، اس طرح کی حرکتوں سے تلخیاں بڑھیں گی۔ شفقت محمود نے کہا کہ نون لیگ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ سیاست کو کس طرف لے کر جا رہی ہے۔

واقعی سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے۔ ایک طرف مہنگاہی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور اگر سیاسی رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف انتقام کے لیے اکسانا شروع کر دیا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کہنا تو نہیں چاہیے البتہ حالات خانہ جنگی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments