مذاق


وہ اس بس میں سوار ہونے والا پہلا مسافر نہیں تھا لیکن نہ جانے کیوں اس نے لمحوں میں سوکینہ کی ساری توجہ کھینچ لی تھی۔ اس کی آنکھوں پر لگا سیاہ چشمہ اور ہاتھ میں پکڑی سفید چھڑی اس کے نابینا ہونے کی کہانی بیان کر رہی تھی لیکن سوکینہ کو مسئلہ اس کے نابینا ہونے سے نہیں تھا۔ وہ تو اس کے چہرے پر رقم زمانوں کے دکھ پڑھ کر حیران تھی۔ دیکھنے میں وہ ایک حسین نوجوان تھا۔ اس کے چہرے کے نقوش کسی کی بھی دھڑکنوں کو بے چین کر سکتے تھے۔

اس کا لباس اگر بہت معمولی نہیں تو بہت زیادہ قیمتی بھی نہیں تھا۔ اس کے انداز میں ایک رکھ رکھاؤ اور شائستگی اس کے کسی اچھے گھرانے کے ہونے کی نوید دے رہی تھی۔ لیکن اس کی طبعیت میں ایک بے قراری تھی جو لمحہ لمحہ سوکینہ کو محسوس ہو رہی تھی۔ نوجوان بس میں موجود ایک خالی نشست پر بیٹھا اس بات سے بے خبر تھا کہ دو سنہری آنکھیں مسلسل اس کے چہرے کے طواف میں مصروف ہیں۔ بس اپنے مخصوص راستوں سے گزر رہی تھی ۔ ہنستے مسکراتے اور اداس راستے جن پر ہجر و فراق کے کتنے ہی نوحے تحریر تھے،جن کی خاموشی کتنے ہی چیختے ہوئے المیے بیان کر رہی تھی۔

سوکینہ گو کہ اپنے سٹاپ کے انتظار میں تھی لیکن اب اس کی دلچسپی کا محور صرف وہی نابینا نوجوان تھا جس کے وجود سے اٹھتی دلفریب مہک مشام جاں کو معطر کیے جا رہی تھی۔ سورج کی کرنیں ابھی مکمل طور پر بیدار نہیں ہوئی تھیں۔ سوکینہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ایک سرکاری ادارے میں کئی سال سے سٹینو کی جاب کر رہی تھی۔ اسے اکثر یوں لگتا تھا کہ ٹائپ کرتے کرتے اس کا اپنا وجود بھی کسی کی انگلیوں تلے کچلا گیا ہے۔

اس کا بس چلتا تو اپنی زندگی کی کتاب کا عنوان بدصورت رکھ دیتی۔ زندگی نے اسے دیا ہی کیا تھا۔ ماں بچپن میں ہی چل بسی تھی۔ باپ اور بھائی نشے کے باعث کسی کام کے نہیں رہے تھے۔ وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور گھر اسی کی تنخواہ کے پیسوں سے چلتا تھا۔ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے اسے کئی سال ہو چکے تھے۔ اس روز اس کے کندھوں سے لٹکے بیگ میں صرف ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں تھا بلکہ کچھ امانتیں بھی تھیں۔ اس نے اپنے آفس کے کچھ کولیگز کے ساتھ مل کر کمیٹی ڈالی تھی۔

اس بیگ میں اس کے ایک کولیگ کی کمیٹی کی رقم تھی جو ایک روز پہلے کسی وجہ سے آفس نہیں آ سکا تھا۔ سوکینہ نے اس روز وہی رقم اسے لوٹانی تھی۔ اس کے کولیگ نے وقت سے پہلے آنے کا کہا تھا تاکہ وہ رقم آفس میں رش ہونے سے پہلے ہی وصول کر لے۔ سوکینہ اسی لئے جلد از جلد آفس پہنچنا چاہ رہی تھی۔ اسے لگتا تھا۔ زندگی ریل گاڑی کے کسی ناکارہ انجن کی طرح ایک ہی اسٹیشن پر کئی سالوں سے کھڑی ہے۔ وہ بھاگتے بھاگتے تھک سی گئی تھی۔

نارسائی کے ان طویل لمحوں میں اس نے کبھی محبت کی خوشبو محسوس نہیں کی تھی بلکہ اس کے پاس تو محبت کے متعلق سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا لیکن اس لمحے بس میں بیٹھے اس نوجوان کو دیکھ کر نہ جانے کیوں اسے بارہا محبت کا خیال آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ محبت سے عشق کے مقام تک پہنچتی کہ اسے ایک جھٹکا لگا ، مطلب یہی تھا کہ سٹاپ آ گیا ہے۔ اتفاق سے نابینا نوجوان بھی اسی سٹاپ پر اترا۔ سوکینہ کا دفتر چند کوس کے فاصلے پر تھا۔ سوکینہ کے آگے ہی نوجوان آبادی سے دور نسبتاً ایک ویران راستے کی طرف جا رہا تھا۔

اپنی چھڑی سے مسافتوں کو ناپتا یہ ادھورا انسان سوکینہ کو بہت پراسرار لگا تھا۔ نوجوان ایک زیرتعمیر عمارت سے چند قدموں کے فاصلے پر موجود ایک اینٹوں کے ڈھیر کے پاس کھڑا ہو گیا۔ سوکینہ بیگ اپنے کندھوں سے لٹکائے ایک زیر تعمیر عمارت کی اوٹ میں کھڑی اس نوجوان کو دیکھنے لگی۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ ایک اور شخص اس ویرانے میں داخل ہوا اور نوجوان کے سامنے کھڑا ہو کر باآواز بلند کہنے لگا۔

”سرمد،پیسے لائے ہو یا پھر خالی ہاتھ ہی لوٹ آئے ہو،“
سرمد سر جھکائے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
”جانتے ہو کہ آج کی تاریخ میں قرض واپس نہ کرنے کی صورت میں تمہاری جان بھی جا سکتی ہے“
اس شخص نے چیختے ہوئے کہا۔
”جانتا ہوں اسی لئے جان دینے ہی آیا ہوں“
نابینا نوجوان انتہائی لاغر آواز میں بولا تھا۔

یہ تمام تر گفتگو باآسانی سوکینہ کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ سرمد کا آخری جملہ سن کر خوف سے اس کا پورا وجود کانپ گیا۔ ابھی وہ اپنا اگلا لائحہ عمل سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک سے فضاء میں زوردار فائر کی آواز آئی۔ آواز اتنی گونج دار تھی کہ چند لمحوں کے لئے سوکینہ کو یوں لگا اس کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ آواز سن کر وہ خوف کے مارے بے ہوش ہو گئی۔

وہ ایسی ہی تھی پٹاخے کی آواز سن کر اس کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو فضاء میں ایک عجیب سی ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ سوکینہ نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو اس کا کمیٹی والا بیگ وہاں موجود نہیں تھا۔

بدصورت زندگی نے ایک بار پھر اس کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments