عورت مارچ کرنے والی خواتین کیا چاہتی ہیں؟



سوشل میڈیا پر دو ایسی وڈیوز گردش کر رہی ہیں۔ جس میں جوان جوڑے سرعام آپس میں بغلگیر ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ ان کا مقصد ایک دوسرے کو شادی کے لئے پرپوز کرنا تھا۔ ایک اور وڈیو میں ایک نوجوان لڑکی بڑی بے باکی کے ساتھ ہم جنس پرستی کی حمایت میں دلائل دے رہی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی کے نام پر اس طرح کی حرکتیں جائز قرار دی جا سکتی ہیں۔ بلاشبہ ان کو بے شرمی اور بے راہ روی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اسلامی اور مشرقی رسم ورواج میں اس قسم کی خرافات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہاں تک ہم جنس پرستی کا تعلق ہے۔ مغربی دنیا میں بھی اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے سوائے چند ممالک کے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس برائی کی حمایت کرنے والوں کی ذہنی سطح پر افسوس کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں خواتین کا سڑکوں پر نکل کر آزادی مانگنا کسی اچنبھے سے کم نہیں ہے۔ درحقیقت صنف نازک کا بازاروں میں احتجاج کرنا اس وقت نامناسب اور غیر شرعی فعل سمجھا جاتا ہے جب ان کے پاس اس قسم کے پلے کارڈ ہوتے ہیں۔ جن کی تحریر شائستگی کے زمرے میں نہیں آتی۔

قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اور اس میں ہر مرد و زن کے حقوق بڑے جامع انداز کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ خاندان، سوسائٹی اور معاشرے پر منحصر ہے کہ وہ اپنے حقوق و فرائض پر عمل کرنے کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ خاندان افراد سے اور معاشرہ مختلف خاندانوں سے تشکیل پاتا ہے اور افراد کی فکری تعلیم و تربیت خاندان کے سربراہ کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب والدین یعنی خاندان کا سربراہ اپنی اولاد کی تربیت بہتر انداز میں نہیں کرتے۔ یا ان کی پرورش میں اپنی ذمہ داری سے غفلت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ سوچنے کی بات مگر یہ ہے کہ خواتین سربازار کس سے آزادی کی طلب گار ہوتی ہیں؟ ریاست سے یا اپنے والدین سے؟ اور کیا انہیں واقعی کسی سنگین مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔ یا ان کا مطمح نظر صرف رونق میلہ لگانا اور سڑکوں پر ہلہ گلہ یا رقص کرنا ہوتا ہے؟ خواتین کو بڑی گہرائی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ کہیں وہ ایسا کر کے اپنے والدین، بھائی اور خاندان پر عدم اعتماد کا اظہار تو نہیں کر رہیں؟ اور ان کے لئے بدنامی کا باعث تو نہیں بن رہیں؟ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کر کے گناہ گار تو نہیں ہو رہیں؟

بطور مسلم معاشرہ ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ کہیں کوئی نادیدہ ہاتھ پاکستانی فیملی سسٹم کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر کام تو نہیں کر رہا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو بحیثیت اسلامی ریاست ہمیں چوکنا ہو کر ان عناصر کے مذموم مقاصد کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ ورنہ آنے والے سالوں میں اس کے بڑے سنگین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف لڑکیوں کے ریپ، تیزاب گردی، اغوا، چھوٹی عمر کی شادی، ہراسمنٹ، اور اس طرح کے دیگر مظالم قابل افسوس بھی ہیں اور قابل مذمت بھی۔ مگر ان کو میرا جسم میری مرضی کے نعرے سے ہرگز جوڑا نہیں جا سکتا۔ بلکہ ان مسائل کے تدارک کے لئے مناسب فورم موجود ہیں۔ بجائے اس کے خواتین اپنے آپ کو بازاروں میں تماشا بنائیں، انہیں دادرسی کے لئے ان اداروں سے رجوع کرنا چاہیے۔ جہاں تک چھوٹی عمر کی شادیوں کا تعلق ہے، اس فعل میں بچیوں کے والدین اور فیملی کا مالی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ وہ پیسوں کے لالچ میں آ کر اپنی کمسن بیٹیاں بڑی عمر کے مردوں کو بیاہ دیتے ہیں۔

اس سارے قصے کا المناک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین جب سڑکوں پر نکل کر مختلف نعرے لگاتی ہیں یا پلے کارڈ بلند کرتی ہیں۔ تب چند انتہا پسند عناصر ان نعروں اور پلے کارڈ پر لکھی ہوئی تحریر کو اپنے انداز میں بگاڑ کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ اس حرکت سے نہ صرف خواتین کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ وہ معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔

عورت مارچ میں زیادہ تر بڑے گھرانوں کی ماڈرن خواتین شامل ہوتی ہیں جو ایک دن کے لئے باہر نکلتی ہیں اور پھر بات ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مجبور اور مسائل کا شکار لڑکیوں اور دیگر خواتین کو ریسکیو کرنا ان کا مقصد ہوتا تو وہ بجائے سڑکوں پر نکلنے کے کوئی فلاحی تنظیم بنا کر بھی ان کی مدد کر سکتی ہیں۔ وہ خواتین میں شعور اور آگہی بھی پیدا کر سکتی ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ان کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ تفریح اور ہلڑ بازی کرنا ہے۔

دوسری طرف ہمارے ملک میں حکومت نام کی چیز تو موجود ہے لیکن اس کی ترجیحات میں عام لوگوں کے لئے کوئی مثبت پروگرام شامل نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سول سے لے کر اوپر تک عدالتیں بھی موجود ہیں مگر نچلے طبقے کے لئے سستے اور تیز ترین انصاف کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اگر آپ کے پاس دولت کی ریل پیل ہے تو تگڑا وکیل کر کے انصاف خرید سکتے ہیں۔ ورنہ عدالتوں میں خجل خوار ہونا آپ کا مقدر ہے۔

اسی لئے اغواء کار، ریپ، تشدد کرنے والے اور تیزاب پھینکنے والے درندہ صفت لوگوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔ اور وہ بناء کسی جھجک کے واردات کر گزرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ متاثرہ فیملی تھانوں کچہریوں کے چکر لگانے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ بعض اوقات پولیس میں چند کالی بھیڑیں بھی جرائم پیشہ عناصر سے ملی ہوتی ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی ہمارا ملک سیاسی، جمہوری، معاشی اور معاشرتی میدانوں میں ترقی کی منزل طے نہیں کر سکا۔ اسی لئے نہ صرف خواتین بلکہ نچلے طبقے کے ہر مرد و زن کو مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ درحقیقت ہمارے ارباب اختیار قیام پاکستان کے بعد سے ہی ذاتی مفاد اور خواہشات کے اسیر بنے رہے۔ ان کا مقصد یا مطمح نظر ملک کی تعمیر اور معاشرے کی بھلائی کبھی بھی نہیں رہا بلکہ وہ صرف تجوریاں بھرنا ہی اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔

سب سے اہم اور ضروری بات سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ موت برحق ہے اور ہر کسی نے اس دارفانی سے کوچ کرنا ہے۔ قبر میں ہمارا جسم ہماری نہیں بلکہ کسی اور کی مرضی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یہی حق اور سچ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments