کیا جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان کے صدر تھے؟


یہ بظاہر ایک نہایت ہی آسان اور سادہ سوال لگتا ہے۔ ایک بچے سے بھی پوچھا جائے تو وہ بھی اس کا جواب فوراً ہاں ”میں دے گا۔ کسی بھی بچے کی جنرل نالج کا امتحان مقصود ہو تو اس سے اس طرح کے سوال پوچھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص کون تھا، کہاں پیدا ہوا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے کوئی مجھ سے یہ سوال کرے تو میرا جواب ہو گا:

” جی نہیں پرویز مشرف قابض ضرور ہوئے تھے لیکن وہ اس ملک کے صدر ہرگز نہیں تھے۔“

پڑھنے والے شاید حیران ہو جائیں کہ یہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ تمام سرکاری دستاویزات میں مشرف کو سابق صدر مانا گیا ہے۔ کوئی دو بندے بھی اس میں شک نہیں کرتے تو میں اتنا بڑا دعویٰ کیسے کر سکتا ہوں؟ تو پہلی بات یہ ہے کہ سرکاری دستاویزات میں رد وبدل کوئی بڑا مسئلہ نہیں اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر کی گی میری تحقیق ہے۔ جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے کیونکہ تحقیق کے میدان میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی ۔کل کلاں نہ جانے کون سی دستاویز بے نقاب ہو جائے اور انسان اپنی تحقیق کے نتائج سے رجوع پر مجبور ہو جائے۔

اب آتے ہیں اصل مسئلہ پر۔

قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف بہ مطابق قومی اسمبلی ریکارڈ دو بار صدر پاکستان بنے:

1۔ 20 / 06 / 2001۔ 15 / 10 / 2007
2۔ 29 / 11 / 2007۔ 18 / 08 / 2008
لیکن کیا صرف قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں ذکر آ جانا کافی ہے؟ اسے ذرا باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

12 اکتوبر 1999 کو اس ملک میں جو کچھ ہوا وہ کسی فلمی سین سے کم نہیں۔ اگر اس پورے واقعے پر ایک فلم بنائی جائے تو یقیناً ’’آسکر ایوارڈ ” ضرور جیتے گی۔ فلم کا ڈراپ سین تب ہوا جب پرویز مشرف اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں ایک طرف پرویز مشرف کا یہ عمل قابل مذمت ہے وہیں پر دوسری طرف میاں نواز شریف کا ان کے جہاز کو پاکستان میں اترنے سے روکنا اور کئی لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈالنا بھی قابل مذمت ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے تو بڑوں کی لڑائی میں عام لوگ پسے جاتے ہیں۔ نہ جانے کب ختم ہو گا یہ سلسلہ۔

خیر مشرف نے اقتدار میں آتے ہی خود کو“ چیف ایگزیکٹو ”قرار دے دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ میرے والد صاحب کہا کرتے ہیں کہ“ اس سے پہلے ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ چیف ایگزیٹو بھی کوئی عہدہ ہوتا ہے۔ ”

14 اکتوبر 1999 کو مشرف نے ”ہنگامی حالت کے اعلان“ (Proclamation of Emergency ) کے نام سے حکم نامہ جاری کیا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ پچھلے فوجی حکمرانوں کے برعکس اسمبلیوں کو توڑا نہیں گیا بلکہ انہیں صرف معطل کیا گیا تھا یعنی بحالی کا امکان موجود تھا۔ اس حکم نامہ کی دوسری شق میں لکھا تھا:

The President of Pakistan shall continue in office

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس وقت صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ تھے جنہیں صدر بنے ابھی صرف ایک سال ہوا تھا۔ اب آئین کی دفعہ 41 صدر پاکستان کے انتخاب کو واضح کرتی ہے۔ جس کے تحت صدر کا انتخاب ملک پاکستان کا پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں کرتی ہیں۔ چونکہ مشرف نے آئین کو منسوخ نہیں کیا تھا اس لیے آئین اپنی جگہ موجود تھا۔ اپنے قبضے کو مزید قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے مشرف نے ”عارضی دستور فرمان“ (Provisional Constitution Order {PCO}) جاری کیا۔ اس کی تیسری شق میں لکھا تھا:

”The President shall act on، and in accordance with the advice of the Chief Executive“

اس سے پتہ چلتا ہے کہ رفیق تارڑ ابھی تک بحیثیت صدر پاکستان کام کر رہے تھے ، یہی نہیں تمام اسمبلیاں بھی نہیں توڑی گئی تھیں۔ آئین معطل تھا۔ جب مشرف کے قبضے کے حق میں اس وقت کی سپریم کورٹ نے بھی اپنا فیصلہ دے دیا تو اس کے بعد انہوں نے اپنا آخری کام سر انجام دیا۔ انہوں نے 2001 میں 15 اکتوبر 1999 کو اپنے جاری کردہ فرمان میں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے تحت تمام اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور شق نمبر 2 کو اس طرح لکھ دیا:

The person holding the office of the President of the Islamic Republic of Pakistan immediately before the commencement of the Proclamation of Emergency (Amendment) Order 2001, shall cease to hold the office with immediate effect

اس کے بعد مشرف نے ایک اور فرمان جاری کیا جس کا نام تھا ”The President ’s Succession Order“ اس میں انہوں نے لکھا کہ ”پروکلیمیشن آف ایمرجنسی“ اور ”پی سی او“ کے تحت انہیں جو اختیارات حاصل ہیں انہیں استعمال کرتے ہوئے وہ یہ اعلان کرتے ہیں :

3۔ ( 1 ) Upon the office of the President becoming vacant for any reason whatsoever، the Chief Executive of the Islamic Republic of Pakistan shall be the President of the Islamic Republic of Pakistan and shall perform all function assigned to the President by or under the Constitution or by or under any law۔

( 2 ) The Chief Executive shall hold office as President until his successor enters upon his office۔

یہ تھی مشرف کے صدر بننے کی مختصر روئیداد۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشرف اقتدار میں ایسے آئے جیسے قبضہ مافیا کسی کی زمین پر قبضہ کرتا ہے۔ اس میں صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ رفیق تارڑ مستعفی نہیں ہوئے تھے اور ان کی مدت کو 2004 میں ختم ہونا تھا لیکن انہیں جبراً ہٹایا گیا نہ کہ مستعفی کیا گیا۔ چونکہ مشرف جمہوری اصولوں کے تحت نہیں آئے تھے اس لیے انہیں طرح طرح کے ڈھونگ رچانے پڑے ، خود کو جمہوری دکھانے کے لیے پہلے اپریل 2002 میں ایک ریفرنڈم کروایا، اس کے بعد اگست 2002 میں ”قانونی ڈھانچہ فرمان“ (Legal Framework Order {LFO}) کے تحت آئین سے کھلواڑ کی کوشش کی لیکن اس دفعہ سپریم کورٹ نے ساتھ نہیں دیا۔ سپریم کورٹ نے انہیں پارلیمنٹ کے ذریعے کھلواڑ کرنے کا کہا۔

2002 کے الیکشن کے بعد مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ترمیم کے نام پر آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ دسمبر 2003 میں آئین میں سترہویں ترمیم کی گی۔ اس ترمیم میں آئین کی دفعہ 41 میں کچھ شقوں کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں یہ قرار پایا کہ پرویز مشرف کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑھے گا 30 دن کے اندر اندر۔ لہٰذا انہوں نے اعتماد کا ووٹ لیا اور دنیا کو تأثر دیا کہ وہ ایک جمہوری صدر ہیں باوجود اس کے کہ ابھی تک وہ ”محافظوں“ کے سربراہ تھے۔ یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ آئین بحال کردینے کے باوجود مشرف نے صدارتی انتخاب نہیں لڑا بلکہ ایک اعتماد کے ووٹ سے خود کو ”منتخب“ کر لیا۔

لہذا اوپر کی تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مشرف کی صدارت کی عمارت صرف تین ستونوں پر کھڑی ہے:

1۔ پروکلیمیشن آف ایمرجنسی: جس کے تحت انہیں اقتدار ملا اور جس کی مدد سے انہوں نے صدر کو رخصت کیا۔
2۔ پی سی او: جس کے تحت ان کے اقدامات عدالتی کاراوائیوں سے محفوظ ہو گئے۔
3۔ سترہویں آئینی ترمیم: جس کی مدد سے وہ ”آئینی“ طور پر خود کو محفوظ کر پائے۔

یعنی اگر یہ تین ستون ہٹ جائیں تو مشرف کی صدارت کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں ان تین ستونوں کے ساتھ ہوا کیا؟

جہاں تک پہلے دو ستونوں کا تعلق ہے تو ”اٹھارہویں ترمیم“ میں آئین کی دفعہ ”270 اے اے“ کے تحت پہلے دو ستونوں کے متعلق لکھا گیا:

”بلا لحاظ کسی بھی عدالتی فیصلے کے بشمول عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ کے، بذریعہ ہذا اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی قانونی اختیار کے وضع کیے گئے تھے اور ان کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے۔“

ان الفاظ سے پہلے دو ستون ایک دم ہوا میں اڑ جاتے ہیں اور ”بلا لحاظ“ کے الفاظ بتا رہے کہ ان ستونوں کے حق میں جو عدالتی فیصلے کیے گے ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اب بچ جاتا ہے تیسرا ستون تو اسی اٹھارہویں ترمیم کے شروع میں لکھا ہے:

“And the Constitution (Seventeenth Amendment) Act, 2003 (Act No. III of 2003 ) be repealed”

یہاں لفظ ”repeal“ استعمال ہوا ہے کیونکہ یہ مسئلہ قانون کا ہے تو لغت بھی قانون کی استعمال ہو گی۔ ”Black Law Dictionary“ جو کہ قانون کی انتہائی معتبر لغت مانی جاتی ہے اس میں لفظ ”repeal“ کا مطلب لکھا ہے :

”The abrogation or annulling of a previously existing law by the enactment of a subsequent statue“

یعنی قانون کی زبان میں ”repeal“ کا مطلب ہوتا ہے ”نئے قانون کی مدد سے پرانا قانون ختم کر دینا۔“ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے سترہویں ترمیم کو منسوخ کر دیا گیا۔ اب یہاں میرے دو سوال ہیں:

1۔ جن تین بیساکھیوں کی بنیاد پر مشرف صدر بنے ، ان بیساکھیوں کے ٹوٹ جانے کے بعد انہیں کس بنیاد پر سابق صدر مانا جائے؟

2۔ اگر کوئی قانون منسوخ ہو جائے تو اس کے تحت ہونے والے فیصلے قانونی رہیں گے؟ اگر نہیں تو مشرف کو سابق صدر کہنا کیسے قانونی ہوا؟

ان سوالوں کے جواب اگر ”سب سے پہلے پاکستان“ والی مخلوق دے تو کرم نوازی ہو گی تاکہ ان کے جواب کو بطور دلیل استعمال کر سکوں ۔  اگر” ووٹ کو عزت دو“ والی مخلوق بھی جواب دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔

نوٹ:تنگ دامنی کے سبب اصل تحقیق کا خلاصہ پیش کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments