فلوریڈ 82، ڈین ہیگ اور میڈیوروڈیم کی سیر


ہم ہیتھرو ایئرپورٹ کے بریفنگ ہال میں فلائٹ بورڈنگ کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔ جونہی مائیک آن ہونے کی آواز سنائی دی بچے خوشی سے کھڑے ہو گئے اور ہم متعلقہ گیٹ کی طرف بڑھنے لگے۔ اس سفر میں پانچ بچے بھی ہمارے ہمسفر تھے۔ حامد علی خان صاحب کی چھوٹی بیٹی سعدیہ ہماری بیٹی تقدیس کی ہم عمر تھی اور تین اس سے بڑی تھیں۔

ایئر فرانس کی ایمسٹرڈم کے لئے گھنٹہ بھر کے دورانیے کی پرواز کے لئے ایک چھوٹا جہاز تھا جس میں بمشکل تیس بتیس مسافر بیٹھ سکتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا اور فلائٹ کا دورانیہ کم ،اس لئے جہاز میں سوار ہوتے وقت جہاز کے عملے نے مسافروں کو لنچ باکس پیش کر کے ایئر لائن کی میزبانی اجاگر کرتے ہوئے وقت کو بھی مات دے دی۔

دوران پرواز جہاز کی بلندی اتنی کم تھی کہ زمین پر خوبصورت مناظر دیکھے جا سکتے تھے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ کوئی تفریحی پرواز ہے۔ مسافر پرواز کا بھرپور لطف اٹھا رہے تھے۔ کم بلندی کی پرواز سے بلند و بالا عمارات، شہر کی گزرگاہیں اور ان پر رینگتی گاڑیاں اچھا منظر پیش کر رہی تھیں مگر اس سے ہٹ کر کھیت کھلیانوں کا نظارہ کہیں زیادہ دلآویز تھا۔ خاص ترتیب میں بٹے ہوئے کھیت اور ایک سیدھ میں اگی فصلیں جنہیں رنگوں کا شیڈ ایک دوسرے سے جدا کر رہا تھا۔ کچھ جگہوں پر رنگ برنگے پھول منظر کو مزید دلکش بنا رہے تھے کہ وہاں موسم بھی بہار کا تھا۔ زمینی مناظر ختم ہوئے تو کچھ دیر کے لئے انگلش چینل کا نظارہ کیا۔ اس کے بعد ہوائی چکیاں نظر آنے لگیں جو نیدر لینڈ کی پہچان ہیں۔

ہم ایمسٹرڈیم پھولوں کی نمائش دیکھنے جا رہے تھے۔ بہت عرصے سے بین الاقوامی جرائد نیوزویک اور ٹائمز وغیرہ میں فلوریڈ 82 کا شہرہ تھا۔ یہ ایک پھولوں کی نمائش تھی جو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ہارٹیکلچر پروڈیوسرز کے تحت دس سال بعد ایمسٹرڈیم میں منعقد ہو رہی تھی۔

ہم جلد ہی ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر اتر گئے۔ ایئرپورٹ سے ریلوے سٹیشن پہنچے۔ یورپ میں ایئرپورٹس اور ریلوے سٹیشنز پر مسافروں کی سہولت کے لئے مختلف سائز کے لاکرز دستیاب ہیں جن میں بیگیج رکھ کر مسافر آسانی سے گھومنے نکل سکتے ہیں اور جب بھی اپنی اشیاء نکالنا چاہیں ، یومیہ کرایہ کے حساب سے اتنی مدت کا کرایہ لاکر میں ڈالیں تو لاکر کھل جاتا ہے۔

ایمسٹرڈیم ریلوے سٹیشن پر لاکرز نہ پا کر ہم مایوس ہوئے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ہم امانت خانہ میں اپنا سامان رکھوا سکتے ہیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ امانت خانہ لاہور ریلوے سٹیشن کے امانت خانے کی طرح تھا جہاں میں نے کئی دفعہ ملتان جاتے سفر منقطع کرتے ہوئے بیگیج رکھوایا تھا یعنی کہ سادہ طریقہ سے سامان پر ٹوکن رکھا جاتا ہے اور اسی نمبر کا ٹوکن آپ کو تھما دیا جاتا ہے۔ بہرحال ہمیں بیگیج رکھوانا تھا نہ کہ پیڑ گننے تھے۔

اس کے بعد ہم میٹرو میں سوار ہوئے اور گاسپر پلاس جھیل تک پہنچے۔ دس کلومیٹر کی مسافت پر یہ نمائش کا مقام تھا۔ جھیل کی اطراف میں ایک وسیع رقبہ پر رنگا رنگ برگ و گل پر مشتمل ایک خوبصورت اور دلآویز دنیا آباد تھی۔ بے شمار اقسام کے پھول اور ہر پھول کی ہر طرح کی ورائٹی حسین و جمیل رنگوں میں، مختلف ترتیب میں، زمین پر پھیلاؤ والے ڈیزائن میں اور جمگٹھوں کی شکل میں اس نمائش کی زینت کو بڑھا رہے تھے۔

گل و گلزار یقیناً دنیا کی کشش کو دوبالا کرتے ہیں۔ انسان اور قدرتی حسن کا ایک دائمی رشتہ ہے۔ گلستانوں میں لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ پھول نہ بھی ہوں تو سبزہ زار کی اپنی کشش ہوتی ہے چہ جائیکہ ایسی نمائش جہاں مختلف باغات میں پائی جانے والی قدرت کی حسین تخلیقات کو یکجا کیا گیا ہو جس کی وسعت ایکڑوں میں ہو اور جس کی زیبائش اور پیشکش برسوں کی محنت کی رہین منت ہو۔ اسی مناسبت سے دنیا بھر سے شائقین زمین پر بکھری اس قوس قزح سے لطف اندوز ہونے کے لئے امڈے پڑے تھے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 3.5 ملین لوگوں نے اس نمائش کو دیکھا۔اس نمائش کو گارڈن فیسٹیول بھی کہا جاتا ہے۔

میں واضح کر دوں کہ یہ بنیادی طور پر کوئی پارک یا نمائش منعقد کرنے کی جگہ نہیں تھی۔ 160 ایکڑ پانی والی نشیبی زمین پر محنت کر کے اسے بازیافت کیا گیا اور اس پر خوبصورت و خوش رنگ سبزہ اور پھولوں کو اس انداز میں اگایا کہ اس جگہ نے دل موہ لینے والی پھولوں کی نمائش کا روپ دھار لیا کہ لوگ اش اش کر اٹھے۔ پھولوں کے پودوں کے اندر ہی اندر آبیاری کا نہایت اعلیٰ انتظام تھا۔ پانی کی ہلکی پھوار نظر آتی تھی جو پودے کے اندر جذب ہو جاتی اور پانی کے پائپ وغیرہ نظروں سے اوجھل تھے، غالباً زیر زمین تھے۔

نمائش کے اندر 250 فٹ اونچا ایک آبزرویشن ٹاور بنا ہوا تھا جو شائقین کے لئے دلچسپی کا باعث تھا۔ اس ٹاور کی بناوٹ کچھ یوں تھی کہ لوہے کے اونچے ستون کے گرد ایک گول پلیٹ فارم بنا ہوا تھا جس پر گولائی میں تین قطاروں میں سیٹ بیلٹ والی سیٹس تین سٹیپس میں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ نمائش کا فضائی نظارہ کرنے کے لئے اس میں بیٹھتے اور پلیٹ فارم ستون کے گرد گھومتا ہوا اوپر اٹھ جاتا۔ انتہائی بلندی پر پہنچ کر کچھ توقف کے بعد الٹی سمت میں گھومتا واپس زمین تک پہنچتا۔ اسے آپ جھولے کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ہم بھی اس میں سوار ہوئے جو کہ خوشگوار تجربہ تھا۔

نمائش کا طائرانہ نظارہ انتہائی دلآویز تھا۔ ترتیب میں لگے پھول خوبصورت قالین کی مانند دکھائی دیے۔ دور تک سبزہ بچھا ہوا تھا جس پر ڈھیروں پھول ذہن میں انمٹ نقوش کندہ کر رہے تھے۔ پلیٹ فارم کی اوپر نیچے کی حرکت اور گولائی میں گھومنے سے منظر کی تبدیلی سے تتلیوں کے ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف اڑان کا تأثر ملتا تھا۔

پھولوں کی دس سالہ عظیم نمائش تواتر کے ساتھ نیوزی لینڈ میں ہو رہی ہے۔ آج کل فلوریڈ 22 کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جو اگلے سال شہر المیر میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔

گاسپر پارک سے فارغ ہو کر ہم ایمسٹرڈیم ریلوے سٹیشن پہنچے اور ہیگ جانے والی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گھنٹے بھر میں ہم ہیگ ریلوے سٹیشن پہنچے۔ ہیگ نیدرلینڈ کا انتظامی دارالحکومت ہے۔ یہ شہر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور کریمینل کورٹس کے لئے مشہور ہے۔ ایمسٹرڈیم کی گہما گہمی کے بعد ہیگ بہت پرسکون لگا۔ دن ڈھلنے لگا تھا اور فضاء میں خاموشی کے علاوہ ایک سکون آور ٹھہراؤ تھا۔ سٹیشن کے سامنے ہی ٹرام میسر تھی۔ ہم ٹرام میں سوار ہو کر شہر میں ہوٹل تک پہنچے۔ ہوٹل پہنچنے تک سورج غروب ہو چکا تھا۔ چیک اِن کرنے کے بعد خان صاحب اور میں باہر نکلے کہ کھانے کا انتظام کر لیں۔ ہم حیران ہوئے کہ دکانیں بند پڑی تھیں۔ کچھ دور پہنچ کر ایک ہوٹل نما دکان کھلی نظر آئی۔ بھاگم بھاگ دکان میں داخل ہوئے۔ دکاندار کہنے لگا کہ دکان بند کرنے کا وقت ہے۔ ہمارے اصرار پر اس نے بمشکل چار پانچ افراد کا کھانا ہمیں دیا کیونکہ کھانا بھی ختم ہو چکا تھا۔

صبح ناشتے کے بعد ہم میڈیوروڈیم دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے جو زیادہ دور نہیں تھا۔ ٹیکسی کا پانچ منٹ کا راستہ تھا۔ یہ ایک قصیر شہر بنایا گیا ہے جس میں مختلف عمارتیں، سڑکیں، گرجا گھر، ایئرپورٹ، بندرگاہ وغیرہ بنائی ہوئی ہیں۔ ہر چیز کا سائز اصل سے کئی گنا چھوٹا ہے۔ دیکھنے میں پورا شہر آباد نظر آتا ہے۔ ایئرپورٹ پر مختلف ایئر لائنز کے جہاز ٹیکسی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں پی آئی اے کا جہاز دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ میڈیوروڈیم بچوں اور بڑوں کے لئے ایک جیسی کشش رکھتا ہے۔ ہم سب یہاں بہت محظوظ ہوئے۔

واپس ہوٹل پہنچ کر چیک آؤٹ کیا اور ہم ایمسٹرڈیم کے لئے روانہ ہوئے۔ گزشتہ روز ایمسٹرڈیم میں صرف نمائش دیکھ سکے تھے۔ اس لئے اب وقت تھا شہر میں گھوما جائے۔ یہ ایک بارونق شہر ہے۔ یہاں سائیکل کی سواری بہت عام ہے۔ نہروں کی موجودگی نے شہر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ نہر میں ہم نے موٹر بوٹ پر ایک ٹور لیا تھا جو انتہائی پر لطف رہا۔ ٹور کے آخر میں بوٹ سٹیشن پر ایک بورڈ پر بہت سی تصویریں لگی تھیں۔ دیکھا تو ہماری تصاویر بھی تھیں۔ ہمارے لئے حیرانی کا باعث تھا ہمیں معلوم نہ ہوا کہ کب ہماری تصاویر اتاری گئیں۔ ہم نے فوٹو گرافر سے اپنی تصویریں خرید لیں۔ موٹر بوٹ کی سیر کے بعد ہم ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ امانت خانہ سے اپنا سامان لیا اور واپسی کے لئے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments