جھوٹی امید دلانا جرم کیوں ہے؟


یہ تحریر کچھ دن پہلے لکھی تھی۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو جھوٹی امیدیں دلانا کوئی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہی اس تحریر کا مرکزی نکتہ ہے لیکن اس میں مرد کی مظلومیت کا بھی ذکر ہے۔ عورت مارچ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ خواتین کے حقوق کے متعلق آگہی اور شعور پیدا کرنا ضروری ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیوں میں غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ استعداد میری کچھ خاص نہیں تھی، بس تھوڑی بہت انگریزی سمجھ بول لیتا تھا اور زلزلے کی تباہ کاریوں کے متعلق تھوڑا بہت تبصرہ کر لیتا تھا۔ غم زدہ ماحول میں غیر ملکیوں کی امید افزاء باتیں اور ہمارے دکھ درد کو محسوس کر کے کچھ دوا کرنے کی ان کی ادا، دل کو بھلی لگتی تھی۔ یہ لوگ غور سے بات سننے والے تھے، بندے کو محسوس ہوتا کہ لفظ بے معنی نہیں ہوتے، سنے جاتے ہیں اور ان سے فرق پڑتا ہے۔

ایک سیمینار میں درجنوں این جی اوز کے نمائندے موجود تھے۔ منتظمین نے لوگوں کو اکٹھا کیا تھا کہ خواتین اور بچوں پر اس آفت کے نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیا جائے اور ان کی مدد واسطے منصوبہ بندی ہو۔ شرکاء محفل خواتین اور بچوں پر زلزلے کے نفسیاتی اثرات پر بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے۔ مائیک میرے ہاتھ لگا تو میں نے عرض کیا کہ اس بات سے انکار کی قطعاً گنجائش نہیں کہ خواتین اور بچے بہت متاثر ہوئے ہیں لیکن نفسیاتی امداد کی ضرورت مردوں کو کہیں زیادہ ہے۔

زلزلے میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بنے، لاکھوں معذور ہوئے، لوگ کے گھر بار نہ رہے۔ خاندان کے بچ جانے والے مردوں کی ذمہ داری تھی کہ مرنے والوں کی تدفین کریں، زندہ بچ جانے والے افراد کے علاج معالجے، چھت، چاردیواری کا بندوبست کریں، ان کا تحفظ یقینی بنائیں، خوراک فراہم کریں اور یہ سب کرتے ہوئے آنکھوں سے آنسو بھی نہ بہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ غم کے بوجھ تلے دبے مردوں کو زندگی کی گاڑی بھی آگے بڑھانی ہے اور رونا بھی نہیں کہ گھر کے دیگر افراد بالخصوص خواتین اور بچوں کے حوصلے مزید پست نہ ہوں۔ بچوں اور خواتین کو رونے دھونے کی مکمل آزادی ہے جس سے ان کا دکھ وقتی طور پر ہی سہی لیکن تھوڑا کم ضرور ہو جاتا ہے لیکن مردوں کو اپنے اندر کے غم کو باہر لانے کی اجازت نہیں کہ مرد آخر مرد ہوتا ہے۔

یہ گفتگو کر کے مجھے محسوس ہوا کہ شرکاء محفل کو پہلی مرتبہ مردوں سے بھی ہمدردی پیدا ہوئی ہے۔ اگلے روز ایک امریکی سے اپنے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ وہ ہمارے مشن کے انچارج، جن کا تعلق سوئیزرلینڈ سے تھا، سے ملنے آئے تھے۔ مجھے دیکھا تو گرمجوشی سے ملے اور ساتھ چائے پینے کی دعوت دی۔ ہمارے انچارج سے میرے متعلق چند توصیفی کلمات کہے۔ دوران گفتگو میں نے پوچھا کہ اس طرح کی آفات میں کام کرتے ہوئے کس چیز کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے؟

وہ بولا کہ ہمیشہ لوگوں کی توقعات بڑھانے سے گریز کرو۔ آپ جب ان لوگوں کے پاس جاتے ہو تو یہ آپ کو اپنا مسیحا سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کرو لیکن کبھی خود سے ان کی توقعات وابستہ مت کرو۔ بولو کم اور کام زیادہ کرو کیونکہ کسی کو جھوٹی امید دلانا یا ان کی توقعات بڑھانا جرم ہے۔

اس نے مثال دی کہ اگر ایک بچہ پانی میں ڈوب رہا ہے اور آپ کنارے پر کھڑے اپنی دنیا میں مگن اس کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے تو آپ برا کرتے ہیں لیکن قانون کے مطابق آپ جرم نہیں کرتے، اس صورتحال میں آپ ایک برے انسان ضرور ہو لیکن مجرم نہیں لیکن جونہی آپ نے ڈوبتے بچے کی جانب ایک قدم بڑھایا یا کوئی ایسا اشارہ دیا جس سے بچے کو لگا کہ آپ اسے بچا رہے ہیں تو آپ پر اس کی مدد قانونی طور پر فرض ہو گئی ہے۔ اب اگر آپ پیچھے ہٹتے ہیں تو آپ جرم کرتے ہیں جس کی آپ کو سزا ملے گی۔

میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو ہر روز ہم لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں، ان کو جان بوجھ کر ان چیزوں کی امید دلاتے ہیں جو ہم کر نہیں سکتے۔ مجھے امریکی کی بات اچھی لگی تھی۔ مجھے نہیں پتہ کہ ڈوبتے بچے کو بچانے کا اشارہ دے کر پیچھے ہٹنا قانون کی نظروں میں جرم ہے یا نہیں لیکن یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جب آپ لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے تو ان کو جھوٹی امید دلانے سے گریز کرنا چاہیے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments