انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں شوپیان ایک جھڑپ: محلہ خاکستر مکانوں، جل کر کوئلہ بنے مویشیوں کا ڈھیر بن گیا


شوپیان

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان ایک طویل تصادم کے بعد جنوبی کشمیر میں شوپیان ضلع کے راولپورہ گاؤں کا لون محلہ خاکستر مکانوں، ادھ جلے کپڑوں اور جل کر کوئلہ ہونے والے مویشیوں کا ڈھیر معلوم ہوتا ہے۔

اسی بستی میں مقامی عسکریت پسند ولایت لون عرف سجاد افغانی اپنے ساتھی جہانگیر احمد کے ہمراہ فورسز کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی خون ریز جھڑپ کے بعد ہلاک ہو گئے۔ جھڑپ کے دوران کئی رہائشی مکان، گاؤ خانے اور دوسری املاک خاکستر ہوگئیں۔

پولیس کے اعلیٰ افسر وجے کمار نے ولایت کی ہلاکت کو فورسز کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ دو مسلح عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن تین روز تک جاری رہا جس کے دوران پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں نے وسیع علاقے کو محاصرے میں رکھا۔

پولیس کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ولایت لون کی اپنے آبائی مکان میں موجودگی کے بارے میں خفیہ اطلاع ملنے کے بعد محاصرہ کیا گیا تھا۔

انسپکٹر جنرل وجے کمار نے دعویٰ کیا کہ محاصرے کے فوراً بعد کئی مرتبہ محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی گئی تاہم انھوں نے فورسز پر فائرنگ کی جس کے بعد شدید تصادم شروع ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت: ’دلی نے کشمیر کو برائے فروخت رکھ دیا‘

کشمیر انتخابات: ’میں ہندوستانی ہوں نہ پاکستانی، آخر میرا قصور کیا ہے؟‘

1947 کے وہ چار دن جن میں مسئلہ کشمیر پہلے پیچیدہ ہوا، پھر ناقابل حل

مقامی لوگوں کے مطابق تصادم کے دوران شدید فائرنگ کی گئی اور مارٹرگولوں کا استعمال کیا گیا۔ جھڑپ اس قدر شدید تھی کہ لون محلے کے رہائشی ابھی تک خوف اور صدمے میں مبتلا ہیں۔ پولیس کے مطابق منگل کی دوپہر کو یہ آپریشن ختم ہو گیا۔

غلام محمد کا مکان بھی اُن پانچ مکانات میں شامل ہے جو فوجی کارروائی میں تباہ ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں: ‘جان بچاتے ہوئے ہمارے گھر کے سب ہی 13 لوگ کچن میں دبک کر رہ گئے اور رات بھر گولیوں اور مارٹرگولوں کی آواز سے ہمارے کان پھٹ گئے۔ جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو فوج اور پولیس نے دوسری صبح ہمیں نکال کر دوسرے مکان میں شفٹ کردیا۔’

غلام محمد کا کہنا ہے کہ کم از کم نصف درجن مکان مکمل طور پر خاکستر ہو گئے ہیں اور ان میں ولایت لون کا مکان بھی ہے۔ پولیس کے مطابق ولایت لون گزشتہ تین برس سے مسلح طور پر سرگرم تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ولایت پہلے جیش محمد اور بعد میں لشکر طیبہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے۔ پولیس افسر وجے کمار کے مطابق ولایت فورسز کے لیے نہایت مطلوب عسکریت پسند تھا۔

غلام محمد کا کہنا ہے کہ اُن کا دو منزلہ مکان اور گاؤ خانہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے جبکہ مارٹرگولوں سے لگنے والی آگ میں چار بھیڑیں اور ایک گائے بھی جھُلس گئی۔

والدین، بیوی، تین بچوں اور گھر کے دیگر افراد کے ہمراہ رات بھر فائرنگ کے دوران ایک ہی کمرے میں پھنسے رہنےو الے غلام محمد کہتے ہیں: ‘ہم کو ایک وقت لگا ہم سب جل کر مر جائیں گے۔ پھر ہم نے ڈی سی صاحب اور ایس پی صاحب کو فون کیا، شکر ہے اُنھوں نے فون اُٹھایا اور فوج اور پولیس کی مدد سے ہمیں جھڑپ کے دوران ہی مکان سے نکلوایا۔’

شوپیان

اس جھڑپ کے بعد مقامی لوگوں نے حکومت مخالف مظاہرے کیے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آہنی چھروں اور اشک آور گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجہ میں کئی افراد زخمی ہوگئے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تیس برس کے دوران مسلح عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان ہونے والے تصادم میں سینکڑوں مکان تباہ ہو گئے۔ شوپیان کے رہنے والے ایک تاجر تاج الدین نے بتایا کہ اکثر اوقات ایسی جھڑپوں میں عام لوگوں کی جائیداد کو پہنچنے والے نقصان کا حکومت کوئی معاوضہ نہیں دیتی۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں پارلیمان میں انڈین وزارت داخلہ کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح تشدد کی سطح میں گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے، تاہم جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ اب بھی کشمیر میں کم از کم 200 مسلح عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ پولیس نے اس دوران سرینگر میں سرگرم کئی عسکریت پسندوں کو اشتہاری مجرم قرار دے کر ان کے سر پر نقد انعامات کا بھی اعلان کیا ہے۔

حالانکہ گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستانی افواج نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کو سختی نافذ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ کئی سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ تین ہفتوں سے کنٹرول لائن پر کسی طرح کے تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

لیکن فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسران نے کئی بار یہ کہا ہے کہ سیز فائر کا تعلق اندرونی سلامتی صورتحال کے ساتھ نہیں ہے۔ ان اعلانات سے مبصرین نے یہ اخذ کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدوں پر تناؤ میں اس سال کمی تو آئے گی لیکن اندرونی صورتحال ابھی بھی مخدوش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp