انڈیا: نئے قانون کے بعد شادی کے خواہش مند مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑے شدید مشکل میں


A civil right activist holds a placard during a demonstration condemning the decision of various Bharatiya Janata Party (BJP) led state governments in the country for the proposed passing of laws against

انڈیا میں جب سے تبدیلی مذہب کا ایک متنازع قانون متعارف کرایا گیا ہے ایسے جوڑوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے جن میں ایک فرد ہندو ہو اور دوسرا مسلمان۔ اس قانون کے تحت مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان محبت کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ بین المذاہب جوڑوں کو اب نہ صرف اپنے خاندانوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ریاست کا بھی۔

آہنی دروازہ اتنا ہی کھلا تھا جس میں سے لڑکی بمشکل جھانک کے باہر دیکھ سکتی تھی۔ وہ خوفزدہ دکھائی دے رہی تھی۔

عائشہ اور ان کے بوائے فرینڈ سنتوش (دونوں کے نام فرضی ہیں) ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ رہے ہیں۔ عائشہ کہتی ہیں کہ ’میرے والدین میری تلاش میں یہاں پہنچ چکے ہیں، یہ لوگ کہیں قریب میں ہی موجود ہیں۔ ہمیں ڈر لگ دہا ہے۔ ہم دونوں کو کہا گیا ہے کہ ہم مکان کے اندر ہی چھپے رہیں۔‘

عائشہ اور ستیش دونوں 29 برس کے ہیں اور یہ لوگ انڈیا کی مغربی ریاست گجرات سے فرار ہو کر آئے ہیں۔ فی الحال یہ دونوں دہلی میں ایک محفوظ مقام پر رہ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ملک کی شمالی ریاست اترپردیش سے آیا ہوا ایک اور جوڑا بھی رہ رہا ہے۔

مزید پڑھیے:

ہادیہ کا اسلام ’لو جہاد‘ کی مثال؟

‘مودی’ لو جہاد کے چکر میں

’لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے واقعات عشق نہیں ’لو جہاد‘ ہے‘

اترپریش انڈیا کی وہ پہلی ریاست ہے جہاں نومبر 2020 میں ’ غیرقانونی تبدیلی مذہب کے انسداد کا آرڈینینس (پروہیبشن آف ان لافُل رلیجس کنورژن آرڈینینس) منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ٰکسی شخص کو دھوکہ دے کر یا اس سے شادی کر کے ’غیرقانونی‘ طور پر زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

یہ قانون دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے اس الزام کے جواب میں متعارف کیا گیا تھا کہ مسلمان لڑکے محبت کی آڑ میں ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر مسلمان بنا رہے ہیں۔ اس کے لیے ہندو تنظیمیں ’لوّ جہاد‘ کی اسلام مخالف اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک بے بنیاد سازشی مفروضہ ہے جس میں الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو محبت کا جھانسا دیتے ہیں اور اس کا واحد مقصد ان خواتین کا مذہب تبدیل کروا کے انہیں مسلمان بنانا ہوتا ہے۔

Santosh and Ayesha have dated secretly for 13 years

اس متنازع قانون کی منظوری کے نتیجے میں اتر پردیش میں، جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، کئی افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور کئی گرفتاریاں کی گئیں۔ بی جے پی کی حکومت والی اور اور ریاست مدھیہ پردیش میں بھی اسی قسم منظور کیا جا چکا ہے جبکہ گجرات سمیت کئی دیگر ریاستیں بھی اس پر غور کر رہی ہیں۔ اسی لیے اب لڑکیاں اور لڑکے ان ریاستوں کو چھوڑ کر دہلی جیسے شہروں میں جا کر شادی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ ان مقامات کو ’قدرے محفوظ‘ سمجھتے ہیں۔

انڈیا میں مختلف مذاہب کے افراد کی شادیوں کا اندراج سپیشل میرج ایکٹ کے تحت کیا جاتا ہے جس میں تیس دن کا نوٹس دینا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ان تیس دنوں میں شادی کے ِخواہشمند جوڑے اسی خوف میں رہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ان کی شادی کی راہ میں روڑے اٹکا دے گا۔ نئے قانون کے آنے کے بعد اس کے امکانات اور زیادہ ہو گئےہیں۔

عائشہ اور سنتوش کے 13 سالہ رشتے میں بھی اس نئے قانون نے ایک اور رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔

ان دونوں کی ملاقات 2009 میں گجرات کے ایک کالج میں ہوئی تھی جہاں سنتوش گجراتی زبان کے طالبعلم تھے جبکہ عائشہ اکنامکس پڑھ رہی تھیں۔

دونوں کے درمیان دوستی ہو گئی اور وہ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ اور پھر دو برس بعد عائشہ نے آخر کار سنتوش سے پوچھ لیا کہ آیا وہ ان سے محبت کرتا ہے یا نہیں، اور اگر وہ محبت کرتا ہے تو اس کا اعتراف کیوں نہیں کرتا۔

سنتوش کو بھی عائشہ سے محبت تھی لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے اگر وہ دونوں گجرات میں ہی رہتے ہیں تو آگے کا راستہ مشکل ہو جائے گا کیونکہ اس ریاست میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ ہے۔

The couple met in college

دونوں کا تعلق انڈیا کے متوسط طبقے سے ہے۔ گجرات میں عائشہ کے والد کاروبار کرتے تھے جبکہ عائشہ خود سکول میں پڑھاتی تھیں۔ سنتوش کے والد یونیورسٹی میں کلرک تھے جہاں وہ ڈیٹا اِنٹری کا کام کرتے تھے۔ اس کل وقتی ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ فوٹوگرافر کا کام بھی کرتے تھے۔

لیکن عائشہ مسلمان ہیں اور سنتوش دلّت ہیں، یوں ان کا تعلق اس برادری سے ہے جو ہندو ذات پات کے سخت نظام میں سب سے نیچے آتی ہے۔

ہمارے ساتھ گفتگو میں دونوں نے 2002 کی بات کی جب ایک ریل گاڑی میں آگ لگنے سے 60 ہندو یاتریوں کے ہلاک ہو جانے کے بعد فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مسلمانوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ ریل گاڑی میں آگ انہوں نے شروع کی تھی۔ گجرات کے فسادات کا شمار انڈیا کے بدترین مذہبی فسادات میں ہوتا ہے۔

ان فسادات کے سائے میں پلنے والے عائشہ اور سنتوش کو پوری طرح معلوم تھا کے گجرات میں ایک ایسی محبت کا انجام کیا ہو گا جو شجر ممنوعہ ہو چکی تھی۔

سنتوش بتاتے ہیں کہ ’گجرات میں مختلف مذہبوں کے افراد کے درمیان رشتہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نہ تو آپ ایک دوسرے سے مِل سکتے ہیں، نہ بات کر سکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘

لیکن ان دونوں نے ہار نہیں مانی۔ سنتوش نے عائشہ سے کہا کہ ایک دفعہ انھوں نے یہ تعلق قائم کر لیا تو وہ اسے آخر تک نبھائیں گے۔

سنہ 2012 میں کالج سے فارغ ہونے کے بعد دونوں آپس میں بہت کم ملتے تھے، لیکن وہ جب بھی ملتے تو انہیں اس کے لیے بہت منصوبہ بندی کرنا پڑتی تھی۔ یہ دونوں کسی عوامی مقام پر ملتے تھے تاکہ کسی کو شک نہیں ہو اور دونوں اپنی ملاقات کو مختصر ہی رکھتے تھے۔

سنتوش کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے چہروں پر کوئی کپڑا لپیٹ کر ملتے تھے۔‘

زیادہ تر ان دونوں کا رابطہ فون پر ہی رہتا تھا۔

سنتوش کے بقول ’ہم دونوں ایک دوسرے کے فون نمبر کسی نقلی نام سے محفوظ کر لیتے تھے یا کسی دوسرے نمبر سے ایک دوسرے کو کال کرتے تھے۔ چونکہ عائشہ کے گھر والے ان پر نظر رکھتے تھے اس لیے سنتوش اکثر فون پر عورت کی آواز میں بات کرتے تھے۔

جب سنتوش کے والدین کو عائشہ کے ساتھ ان کے رشتے کا علم ہوا تو انہوں نے سنتوش کی کسی دوسری لڑکی کے ساتھ شادی کا فیصلہ لیا۔ حتیٰ کہ انھوں نے گذشتہ نوبمر میں زبردستی سنتوش کی منگنی بھی کر دی۔

’میں کئی دن تک سخت پریشان رہا۔ میں عائشہ سے بات بھی نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ اس وقت تک عائشہ کے گھر والوں کو بھی ہمارے رشتے کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا۔‘

دوسری جانب عائشہ کے والد اور ان کے بھائی بھی عائشہ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ جلد از جلد کسی دوسرے لڑکے سے شادی کر لے۔

چنانچہ سنتوش اور عائشہ نے گجرات میں ہی شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور مقامی دفتر میں سپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کے اندارج کی قانونی درخواست (پٹیشن) جمع کرا دی۔ لیکن جب کلرک نے کاغذت میں عائشہ کا نام دیکھا تو اس نے عائشہ کے والد کو خبردار کر دیا کہ ان کی بیٹی ایک ہندو لڑکے سے شادی کر رہی ہے۔

The couple fled to Delhi to get married

سنتوش نے اپنی شادی رجسٹر کروانے کے لیے ایک وکیل کو 25 ہزار روپے بھی دیے، لیکن وہ وکیل بھی پیچھے ہٹ گیا۔.

سنتوش کہتے ہیں کہ کوئی بھی سرکاری اہلکار ان کی مدد کے لیے رضامند نہ ہوا اور نہ کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار ہوا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ بین المذاہب شادی کا معاملہ ہے اور یہ بات ان کے لیے بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔ بلکہ وہ لوگ ہمیں کہتے کہ ایسا نہ کریں۔ ’ہو سکتا کہ یہ لوگ (دائیں بازو کی تنظیموں) کے کارکن ہی ہوں جو عدالتوں کچہریوں میں گھومتے رہتے ہیں۔‘

وقت تیزی سے گزر رہا تھا، چنانچہ دونوں نے گجرات سے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ’میں عائشہ کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا‘

اور پھر 22 جنوری کو دونوں اس امید پر دہلی پہنچ گئے کہ یہاں آخر کار ان کی شادی ہو جائے گی۔

دونوں کا کہنا تھا کہ دہلی کی پرواز میں انہوں نے جتنے گھنٹے ایک دوسرے کے ساتھ گزارے اتنا وقت انہوں نے اپنے تیرہ سالہ رشتے میں کبھی نہیں گزارا تھا۔

جب یہ دونوں دہلی پہنچے تو انہوں نے دھنک نامی تنظیم کے دفاتر کا پتہ لگانا شروع کر دیا۔ دونوں نے اپنے اپنے والدین اور گجرات کے متعلقہ تھانوں کو بتا دیا ہے کہ اب وہ دہلی میں ہیں۔ دھنک کے زیر انتظام چلنے والے اس محفوظ مقام پر یہ دونوں 29 جنوری کو پہنچے ہیں۔

دھنک ایسے افراد کی شادی میں مدد کرتی ہے جن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہوتا ہے۔ تنظیم کے بانی، آصف اقبال کہتے ہیں کہ جب سے اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون منظور کیا گیا ہے، ان کے دفاتر میں ایسے بہت سے جوڑوں کی کالیں موصول ہو رہی ہیں جو آپس میں شادی کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

آصف اقبال نے بتایا کہ ’جب سنتوش نے انہیں فون کیا تو سنتوش رو رہے تھے۔‘

جب یہ لڑکے لڑکیاں کسی خفیہ مقام پر رہ رہے ہوتے ہیں تو اکثر ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سنتوش اور عائشہ بھی آج کل نوکری کی تلاش میں ہیں۔ دونوں پریشان اور خوفزدہ ہیں لیکن دونوں کہتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے پر بھروسہ ہے جس سے انہیں حوصلہ ملتا ہے۔

عائشہ کے بقول ’محبت قربانی مانگتی ہے۔‘

فی الحال دونوں اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے پاس ایک ٹھکانہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

سنتوش نے کہا ’ لوگ کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے، لیکن (دیکھا جائے تو) نفرت اندھی ہوتی ہے۔‘

تصویری خاکے بشکریہ گوپال سونیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp