مولانا صاحب کے حواس بے قابو کیوں ہو رہے ہیں؟



سنتے آئے تھے کہ سیاست میں جذبات نہیں ہوتے لیکن اس کا عملی مظاہرہ تب دیکھا جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان میثاقِ جمہوریت ہوا۔ ویسے تو پی پی پی لیڈر شپ عقل کے حوالے سے خود کو ہمیشہ برتر سمجھتی آئی ہے اور دیکھا جائے تو اس حوالے سے پیپلز پارٹی کو برتری حاصل رہی بھی ہے لیکن سیاست میں موقع پرستی دونوں جماعتوں نے دکھائی ہے۔

بینظیر بھٹو جب میاں صاحب سے ملی تھیں تو انہوں نے میاں صاحب کو چھوٹا بھائی قرار دیا تھا حالانکہ میاں صاحب ان سے عمر میں بڑے ہی تھے ، یعنی اس طرح کہہ کر انہوں نے میاں نواز شریف کو کم عقل ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ زرداری کے حالیہ بیان میں ایک کہانی پوشیدہ ہے کہ جمہوریت پر ہمیشہ شب خون مارے جاتے رہے ہیں لیکن ہم نے میدان نہیں چھوڑا۔ یقیناً ان کا اشارہ خود ن لیگ کی طرف تھا کہ آپ بھی تو امپائر کی تعلق دار رہے ہیں اور دیکھا جائے تو اس میں حقیقت بھی کافی حد تک موجود ہے۔

میاں صاحب کے آخری دورِ حکومت میں ہی سندھ میں احتساب کے نام پر پیپلز پارٹی کو خوب رگڑا ملا اور میاں صاحب کو یاد دلایا جاتا رہا کہ آپ کی حکومت ہے لیکن ن لیگ کا خیال تھا کہ ہم محفوظ رہیں گے مگر جب بات ان تک پہنچی تو سمجھ آنا شروع ہوئی کہ پھنس گئے ، لیکن تب پیپلز پارٹی نے بھی وقت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا تھا ، بلکہ پیپلز پارٹی خود بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔ وقت اتنی تیزی سے بدلا کہ میاں صاحب کو یہ تک پتہ نہیں چل سکا کہ انہیں کیوں نکالا گیا حالانکہ انہوں نے اتنے سمجھوتے کر لیے تھے کہ اب ان کے پاس حکومت برائے نام ہی تھی۔

موجودہ حکومت کی نااہلی نے اپوزیشن کو ایک ہونے کا موقع دیا تو ن لیگ کی لیڈر شپ سخت مشکلات میں تھی اور بقاء کی خاطر دیگر جماعتوں سے زیادہ طاقت رکھنے کے باوجود فیصلہ کن طاقت پیپلز پارٹی اور مولانا صاحب کی جھولی میں ڈال دی۔

ن لیگ نے اپنی طرف سے پورا اختیار جے یو آئی کے حوالے کیا اور یہی اس کی سیاسی بقاء کے لئے بہتر تھا کیونکہ جے یو آئی، ن لیگ کے ووٹر پر یا سیاسی طاقت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی ، البتہ جس وقت مولانا صاحب لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ڈھیل حاصل کر کے مولانا کو اکیلا چھوڑ دیا تھا اور مولانا صاحب کو چوہدری برادران کا سہارا  لے کر جان خلاصی کرنا پڑی۔ کھیل کے اصل کھلاڑیوں نے اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کیا اور حالات ان کے لیے بدستور مشکل بنائے جاتے رہے اور وہ دونوں پارٹیاں مولانا صاحب کی خدمات ہی لینے پر مجبور ہوئیں۔

خود مولانا صاحب کی سیاسی مجبوری یہی ہے کہ وہ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں کے بغیر ملکی سیاست میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر پاتے کیونکہ اس وقت ملکی پارلیمان میں مولانا صاحب کے پاس کوئی طاقت موجود نہیں ہے اور ان کی واحد طاقت ان کے ڈنڈا بردار کارکن ہیں جن کے خدمات پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بھی نظر ہیں۔ انہی کی  طاقت کے ذریعے ملک کے بڑے بڑے جمہوریت پسند صحافی بھی طاقتوروں کو ڈراتے رہے ہیں اور خبردار کرتے آئے ہیں کہ دوسری صورت میں کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

پی ڈی ایم کے موجودہ حالات کے بارے میں پیش گوئیاں ہوتی رہی تھیں کہ اندرونی کشمکش میں کافی چیزیں درست نہیں ہیں لیکن پی ڈی ایم میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہی قدم اٹھانے تھے۔ یہ سچ ہے کہ ن لیگ عددی لحاظ سے پیپلز پارٹی سے زیادہ اراکین اسمبلی رکھتی ہے لیکن اس کی حکومت کسی صوبے میں نہیں ہے اور پیپلز پارٹی اگر مولانا صاحب یا ن لیگ کی خواہش کے مطابق استعفوں کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے سیاسی طور پر بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑتا یا پڑے گا۔

 ن لیگ کو تو یہ یقین ہے کہ اگر شفاف الیکشن ہوتے ہیں تو ان کی حکومت لازمی آنی ہے، پنجاب میں حقیقی طاقت انہی کے پاس ہے اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب سے ہی اتیے نشستیں مل جاتی ہیں کہ آسانی کے ساتھ حکومت بنائی جائے۔ دوبارہ الیکشنز کی صورت میں جے یو آئی بھی تھوڑا بہت حصہ پا سکتی ہے اور ن لیگ کے ساتھ مولانا صاحب حکومت سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی مزید سکڑ سکتی ہے جیسے کہ زرداری صاحب نے منگل کے روز پی ڈی ایم کے اجلاس میں کہا کہ صوبوں کی خودمختاری اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی وجہ سے ان کو کافی سزا مل چکی ہے۔

اب آتے ہیں لانگ مارچ کی منسوخی اور مولانا صاحب کے غصے کی طرف تو سب سے پہلے یہ بات دیکھنے کی ہے کہ وہ کون سی جماعت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل نہیں کرنا چاہتی تھی؟ میرا خیال ہے کہ سب اس کے لیے راضی تھے اور پردے کے پیچھے ہونی والی باتیں مکمل طور پر سامنے آ چکی ہیں،ہاں بڑے میاں صاحب کا موقف سخت رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ان کو بھی سر تسلیم خم کرنا پڑا مگر اصل معاملہ ڈھیل دینے والوں کی بے وفائی نے خراب کر دیا۔

شاید وہ لوگ اس منصوبے کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں جو دس سال پر محیط ہے اور جب پی ڈی ایم کی لیڈرشپ کو اپنے ساتھ ہونے والا ہاتھ دِکھ گیا تو پھر سے زباں و بیاں بدل گئے۔ ن لیگ کو پتا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی صورت استعفے دینے پر تیار نہیں ہو گی ، اس لئے میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے استعفے مولانا صاحب کے پاس جمع کرانے کا اعلان کر دیا۔ وجہ وہی مولانا صاحب کی طاقت ہے کہ شاید پیپلز پارٹی قیادت بھی خود کو اکیلا کرنے کے بجائے استعفوں کی طرف آنے پر مجبور ہو جائے لیکن پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں زرداری صاحب نے میاں صاحب کے سامنے ایسا مطالبہ رکھ دیا کہ اس کو پورا کرنا مسلم لیگ ن کی سیاسی موت کے مترادف ہو گا کیونکہ میاں نواز شریف کے لندن جانے کے بعد ہی ن لیگ کی اصل طاقت سامنے آئی جب انہوں نے پس پردہ کرداروں کے نام لے کر للکارنا شروع کر دیا۔

جو للکار میاں صاحب کی ہے ، اس کا ردعمل لندن میں بیٹھ کر ہی برداشت کیا جا سکتا ہے۔خود ن لیگ کی پاکستان میں موجود قیادت کے حوالے سے پس پردہ باتیں سامنے آتی رہی ہیں کہ ’مشکلات کا سامنا ہمیں یہاں کرنا پڑے گا۔‘ میاں صاحب کی طاقت بھی مریم نواز ہے ۔ اگر وہ باہر چلی جاتی ہیں جس کے حوالے سے بھی کہا جاتا رہا ہے تو مسلم لیگ ن کی طاقت نہ ہونے کے برابر بچتی ہے۔

اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ ہزیمت مولانا صاحب کو اٹھانا پڑی ہے کہ انہوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ، نتیجہ اس کے برعکس سامنے آیا ہے جو کہ مولانا صاحب کو سیاسی طور پر کافی بیک فٹ پر لے جانے کا سبب بن سکتا ہے ، لیکن حالیہ عرصے میں ایک اہم بات نوٹ کی کہ مولانا صاحب کئی بار اپنی برداشت کھو جاتے ہیں اور غصے میں آ جاتے ہیں،  ورنہ مولانا کا سیاسی کرئیر اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔

کہیں مولانا صاحب پر بڑھتی ہوئی عمر یا خراب صحت کے اثرات تو نہیں پڑ رہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام کے ذریعے ہی اقوام ترقی کرتی ہیں لیکن پی ڈی ایم بننے کے بعد کے حالات و واقعات سے اس بات کو تقویت نہ مل سکی کہ پی ڈی ایم کی جدوجہد حقیقی جمہوریت کے لیے ہی ہے۔ میری نظر میں فی الحال اس میدان کے اصل کھلاڑی ہی جیت کی طرف گامزن ہیں اور جمہوریت کے داعیوں کی مجبوریاں ان کو بنیادی حقائق سے دور رکھنے کا سبب بنتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments