سیاسی گرمی میں مذاکرات کی دعوت؟


حکومت نے سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے بعد اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ یہ دعوت وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فو ادچودھری اور وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس کانفرنس میں دی ۔
فواد چودھری کا کہنا تھااگر اپوزیشن حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرے تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے مقدمات پر بات نہیں ہوسکتی، اپوزیشن لانگ مارچ منسوخ کر دے کیونکہ یہ میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے مشروط طور پر مذاکرات کی دعوت قبول کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا اگلے انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے اصلاحات ضروری ہیں جس کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی تو اپوزیشن ضرور اس پر غور کرے گی ۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی کے ماحول میں عملی طور پر یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی انتخابی اصلاحات کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے لیکن تاحال حکومت کے مجموعی رویئے کی بنا پر ایسا ہوتانظر نہیں آتا کیونکہ وہ بالخصو ص مسلم لیگ (ن) پر کچھ زیادہ ہی ’’مہربان ‘‘ ہے۔
نیب نے مریم نواز کی لاہورہائیکورٹ میں نومبر 2019میں ہونے والی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست دے دی ہے جسے قبول کر کے عدالت عالیہ نے 7اپر یل کو باقاعد ہ سماعت کی تاریخ مقرر کر دی ہے ۔ یہ سوال جائز طور پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ عدلیہ کی طرف سے پوچھا گیا کہ اس کی ٹا ئمنگ اب کیوں؟ اپوزیشن کے اس الزام کہ یہ محض مریم نواز کی شعلہ نوائی اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کا شاخسانہ ہے ،میں کا فی حد تک صداقت نظر آتی ہے ۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو مسلم لیگ (ن) کی پالیسی لائن پر عملی طور پر ویٹو کااختیار رکھتے ہیں اور اسے استعمال بھی کرتے ہیں،نے لندن سے تازہ ویڈیو بیان میں اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ’’ سینیٹ الیکشن میں حکومتی امیدوار کی شکست کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے میں جس طرح سلیکٹڈ کی مدد کی گئی وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے؟،ڈسکہ کا الیکشن عام انتخابات کا ری پلے تھا جس میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے گئے، پھر کہا جاتا ہے کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔
انہوں نے مزید کہا پاکستان کے سیاسی نظام اور اخلاقیات کو روندتے ہوئے پہلے کراچی میں چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا اور مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا، اب انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر وہ باز نہ آئیں تو انہیں smashکر دیا جائے گا۔نواز شریف نے کہا وہ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں اگر کسی نے کوئی مذموم حرکت کی تو انہیں بہت جلد حساب دینا پڑے گا‘‘۔
اس تناظرمیں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان با مقصد مذاکرات کے امکانات معدوم ہی نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان استعفوں کے معاملے پر اختلافات سامنے آ گئے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کی فرمائش پر پی ڈی ایم استعفوں کی تائید کرچکی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے تحفظات ہیں ۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں 7۔ ووٹوں کا اِدھر اُد ھر ہونا جس کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی شکست کھا گئے ،کے بارے میں بھی پیپلزپارٹی کے کچھ حلقوں میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ یہ کارستا نی ن لیگ کی تھی ۔
تاہم بلاول بھٹو نے اس الزام کی پر زور تردید کی ہے لیکن پس پردہ اختلافات ہونے کا اندازہ طلال چودھری کے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے بلا ول بھٹو پر طنز کی کہ ’’بلاول صاحب’’ نیوٹرل‘‘ کا مزہ آیا ، جس پر بلاول بھٹو نے کرارا جواب دیا کہ یہ کوئی تنظیم سازی نہیں تھی۔ گویا کہ پی ڈی ایم جس نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرواکر سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا اس نے درست اندازہ لگا یا تھاکہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ ٹیکنوکریٹ ہونے کے ناتے کمزور امیدوار ثابت ہونگے ۔
استعفوں اورلانگ مارچ کا اگلا مرحلہ جسے 26مارچ تک موخر کیا گیا ایک مشکل مرحلہ ہو گا ،سینیٹ کا حلقہ انتخاب محدود ہونے کا دونوں سیاسی قوتوں نے اپنے تئیں فائدہ اٹھایا لیکن ایک ایسی حکومت جس کی تمام تر کوتا ہیوں کے باوجود کاٹھی اس لحا ظ سے مضبوط ہوکہ تیسراامپا ئر اس کے خلا ف انگلی اٹھانے کو تیار نہ ہوا سے ایجی ٹیشن کے ذ ریعے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا ۔ حکومتی ترجمان ڈاکٹر شہباز گل جو اپوزیشن کے خلاف عامیانہ طرز کے جملے کسنے میں خاصے مشہور ہیں ان پر لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں انڈے برسانے اور سیاہی پھینکنے کا واقعہ افسوسناک ہے۔
یقینا یہ پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کی مسلم لیگ کے رہنماؤں احسن اقبال اور مصدق ملک کے ساتھ ہاتھا پائی اور سابق وزیر اطلا عا ت مریم اورنگزیب کے سا تھ بدتمیزی کا جوابی حملہ لگتا ہے ۔ اس قسم کے واقعات انتہائی خطرناک ہیں، اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ حکومت کے خلاف جدوجہد کو پُرامن رکھے اور تحریک انصاف کی طرف سے بدتمیزی کی جائے تو اسے درگزر کیا جائے نہ کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے ۔
جہاں تک انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کا تعلق ہے ، مریم نواز نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنی پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مذاکرات کے امکان کو رد کرتے ہوئے لانگ مارچ اور استعفوں کے آپشنز کا اعادہ کیا، اس کے باوجود اگرحکومت مذاکرات کے حوالے سے واقعی سنجیدہ آفر کر رہی ہے تو اپوزیشن کواس پر ازسر نو غور کرلینا چاہیے ۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments