وائرل سہیلیاں دردانہ علی ملک اور خالدہ امیر: خوبصورتی کے روایتی معیار کو چیلنج کرنے والے غیر روایتی فوٹو شوٹ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟


فیشن

پاکستان میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا گروپس اور پیجز پر کپڑوں کی دو معروف برینڈز کے فوٹو شوٹ پر کافی بات کی گئی ہے۔

فوٹو شوٹ وائرل اس لیے ہوئے کہ ان میں ملبوسات کسی روایتی نو عمر، دُبلی پتلی ماڈل نے نہیں پہنے بلکہ ان میں ایسی خواتین نظر آئیں جیسی ہمیں اپنے آس پاس نظر آتی ہیں، گھروں میں، احباب میں، پڑوس میں، دفاتر میں، لیکن جن کے متعلق لگتا ہے کہ برانڈز یا تو ان کے لیے کپڑے بناتے ہی نہیں یا اپنے کپڑوں کی ماڈلنگ کے لیے ان کا انتخاب نہیں کرتے۔

ان تصاویر میں کھاڈی برانڈ کے ملبوسات زیب تن کرنے والی آرٹسٹ بے مثال شامل ہیں جو خود کو باڈی امیج ایڈووکیٹ بھی کہتی ہیں۔

’بے مثال‘ فیشن کی دنیا میں خوبصورتی کے طے کردہ معیار سے ایک دو سائز زیادہ ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہمیں انھی طے شدہ معیاروں سے بالاتر ہونا ہے۔

دوسری طرف وائرل ہونے والی گل احمد برانڈ کے لیے ماڈلنگ کرنے والی دو سہیلیاں دردانہ علی ملک اور خالدہ امیر ہیں، جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔ یعنی عمر کا وہی حصہ جہاں مارکیٹنگ کی دنیا آپ کو بلڈ پریشر اور شوگر چیک کرنے کے آلات یا جوڑوں کے درد کے جادوئی حل بتانے کے علاوہ مکمل طور پر فراموش کر چکی ہوتی ہے۔

https://www.instagram.com/p/CMFHIv1otxJ/?igshid=1edwmkfjmh6m7

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کا ریڈی میڈ انقلاب

کراچی ایکسپو: پاکستانی کپڑے سے بنے ملبوسات کی نمائش

پاکستان میں بھنگ سے بنی یہ جینز کیا کپڑے کی صنعت کا مستقبل ہے؟

طارق جمیل کا نیا فیشن برانڈ ایم ٹی جے: ’یہ کام کاروباری نیت سے نہیں کیا‘

لاہور میں واقع دردانہ کے پرانی طرز کے خوبصورت مکان میں ان دو سمدھنوں اور سہیلیوں سے ملاقات قہقہوں سے اس قدر بھرپور تھی کہ حیرت ہوئی کہ کس طرح برانڈ امیجنگ کی دنیا میں ایسی زندہ دل خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا جن کے بال تو سفید ہو چکے ہیں لیکن جن کا دل ہرا بھرا سرسبزو شاداب ہے۔

لائف سٹائل

دردانہ بھی یہی کہتی ہیں۔ یہ کہ ہم بچوں کو ب سے بُڑھیا پڑھاتے ہیں جن میں بوڑھی عورت چادر میں لپٹی، جھکی گردن، کمر میں خم کے ساتھ عینک ٹکائے نظر آتی ہے۔ اور یہی تصور معمر خواتین کے لیے راسخ کیا جاتا ہے۔ اس ‘سٹیریو ٹائپنگ’ کو ختم کرنا ہوگا۔

فوٹو شوٹ کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ انھیں برینڈ کی جانب سے ماڈلنگ کی آفر کے بعد اسے قبول کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہوئی۔ وہ یہی بتانا چاہتی ہیں کہ وہ عمر کے اس حصے میں کسی نوجوان سے زیادہ پُر اعتماد اور سرگرم زندگی گزار رہی ہیں۔

فوٹو شوٹ

ان کا کہنا ہے کہ ان کی تصاویر وائرل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قدرتی سفید بالوں میں کوئی ماڈل نظر نہیں آتی جبکہ انھیں اپنے سفید بالوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے جہاں کہیں بڑی عمر کی خواتین کو بطور ماڈل لیا گیا تو یہ پیغام دیا گیا کہ دیکھیں یہ اپنی عمر سے کتنی کم نظر آتی ہیں جبکہ ہمیں ایسا کوئی خبط نہیں ہے۔

خالدہ اور دردانہ فوٹو شوٹ کے بعد آنے والے رد عمل سے بھی خوش ہیں۔ انھیں زیادہ تر اچھے پیغامات ہی ملے۔

لیکن کیا پاکستان میں سلے سلائے کپڑوں کے مقامی برانڈز سے خریداری تمام عمر اور قد و قامت کی خواتین کے لیے آسان بنائی گئی ہے؟

https://www.instagram.com/p/CLoyWZQJ7kP/?igshid=1hygyyn0hs214

‘پاکستان کی ایک معروف دکان سے کپڑے لینے کے دوران میں نے سیلز گرل سے کہا آپ اس سے بڑا سائزکیوں نہیں بناتے تو مجھے جواب ملا کہ آپ اپنا سائز کم کر لیں۔ بس تب ہی میں نے خود ایسے ملبوسات متعارف کروانے کا سوچا جو میری طرح کی قد و قامت کی خواتین کے کام آئے۔ اور پھر جونو کے نام سے کپڑے بنانے کا کام کیا۔’

یہ کہانی معروف صحافی قطرینہ حسین کی ہے جنھوں نے صحافتی کیرئیر میں سے وقت نکال کر کپڑے بنانے کا بالکل مختلف تجربہ کیا تا کہ ان جیسی کئی عورتوں کی مشکل آسان ہو سکے۔ مشکل لیکن بدستور قائم ہے۔

سلے سلائے کپڑے بنانے کی معروف مقامی برینڈز لارج سائز تک کپڑے بناتی ضرور ہیں لیکن یہ آخری سائز بھی نسبتاً زیادہ دراز قد یا زیادہ وزن کی خواتین کی ضرورت پوری نہیں کرتا۔ یعنی ڈبل ایکسل یا تھری ایکسل کپڑے نہیں ملتے۔ ان برینڈز کی ویب سائیٹس پر شائع کی گئی تصاویر کم عمر اور دبلی پتلی ماڈلز کی ہی ہیں۔ اور انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تقریباً تمام آبادی نوجوان اور سمال سائز خواتین کی ہے اور یہاں ملبوسات انھی کے لیے بنتے ہیں۔

fashion

قطرینہ حسین کا کہنا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ آن لائن یا سٹور پر خریداری کے لیے جائیں تو لارج سائز عموماً بک چکا ہوتا ہے۔ یعنی اس سائز کے خریدار موجود ہیں لیکن برینڈز اس سائز کی خواتین کو اپنا’ چہرہ’ نہیں بنانا چاہتیں۔ اور اس کے پیچھے وہی معاشرے میں رچی بسی’ باڈی شیمنگ ‘ہے۔

یہاں جنریشن نامی برینڈ کا ذکر بر محل ہے جنھوں نے تواتر سے ہر عمر اور قد کاٹھ کی خواتین کے ذریعے اپنے ملبوسات کی نمائش کی ہے۔

ان کے حالیہ کلیکشنز میں ماڈلنگ کے لیے ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنھیں جسمانی معذور کہا یا سمجھا جاتا ہے۔ بے مثال کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ بات قبول کرنا ہو گی کہ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے، اب وہ وقت نہیں رہا کہ کسی کے خلاف تعصب رکھا جائے۔

خوبصورتی کسی ایک شکل یا سائز تک محدود نہیں ہے، ماڈل کی کوئی ایک قسم نہیں ہو سکتی۔ جتنا جلد اس بات کو مان لیا جائے اچھا ہے۔

‘بل بورڈ پر دکھائی جانے والی ماڈلز کے پیچھے جو لوگ کام کرتے ہیں وہ بھی ایسے دکھائی نہیں دیتے یہاں تک کہ خود ماڈلز بھی ایسی نہیں دکھائی دیتیں۔ ان کی تصاویر کو ایڈٹ کیا جاتا ہے’۔ اپنی تصاویر وائرل ہونے کے متعلق بے مثال کا کہنا ہے کہ چند ایک کے علاوہ انھیں بھی اچھا رد عمل ملا۔ اور کھاڈی کے بعد بہت سی دوسری برانڈز نے بھی انھیں اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی۔

کھاڈی برانڈ کی کارپوریٹ کمیونیکیشن کے لیے ڈائرکٹر انجم ندا رحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ عورت ہر روپ میں خوبصورت ہے۔

ہم نے کوئی انوکھی چیز نہیں کی لیکن جب ایک بڑا نام ایسا کوئی کام کرتا ہے تو وہ ایک ‘سٹیٹمنٹ’ بن جاتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں یہ بیداری اس قدر سستی اور دیر سے کیوں آئی تو ان کا کہنا تھا کہ فیشن انڈسٹری کے لوگ ‘محفوظ’ کھیلنا پسند کرتے ہیں اس لیے آگے بڑھ کر کوئی موقف یا پوزیشن لینے سے گریز کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہی کرتے رہیں جسے قبول عام حاصل ہے۔

اپنی گفتگو میں بے مثال نے کئی ایک کمپنیز کا نام لیا جو اب پلس سائز یا فربہ خواتین کے لیے ملبوسات تیار کر رہی ہیں۔

کئی بین الاقوامی مصنوعات کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ اب مقامی سطح پرریڈی میڈ کپڑے ہر عمر اور ڈیل ڈول کی عورت کے لیے دستیاب ہونے لگیں گے۔ اور ملبوسات کی تیاری میں یہ تبدیلی اسی وقت ممکن ہو گی جب ذہن بھی تبدیل ہوں، جب خوبصورتی کسی ایک معیار پر نہ پرکھی جائے اورجب عورت کو مخصوص زاویہ سے دیکھنا ترک کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp