عورت عورت کی دوست ہے، دشمن تو نظام ہے


میں اس بات پر معذرت خواہ بھی ہوں اور رنجیدہ بھی کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو وہ سب نہیں ملا جو ان کا بنیادی حق تھا۔ عورتوں کی بڑی تعداد میں سے صرف چند عورتوں کو کچھ حقوق نصیب ہوتے ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کرتی ہیں، زندگی میں آگے بڑھتی ہیں اور اپنے شعبوں میں کامیاب بھی ہوتی ہیں۔

میں نے بہت پہلے سے محسوس کر لیا تھا کہ ہماری خواتین جو زندگی کے ان امور میں پیچھے رہ گئیں، جن کی زندگی گھر داری اور اس سے منسلک سماجی تشدد میں گھری رہی، ان خواتین سے دل میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہیں جو زندگی کے ایسے امور میں آگے بڑھ گئیں جن کے خواب تمام عورتیں دیکھتی ہیں۔

ایک بچی یا بچہ جب اسکول جاتے ہیں تو ان کی آنکھیں خوابوں سے لبریز ہوتی ہیں۔ ہمارے روبرو سینکڑوں ہستیاں اور شخصیات ہمیں متاثر کرتی ہیں۔ ایک بچی فاطمہ جناح بننا چاہتی ہے تو دوسری بے نظیر کی طرح وزیراعظم۔ ہم مارچ میں فوجیوں کی چمکتی دمکتی باوقار وردیوں کو دیکھ کر ایک دن ان جیسا بننا چاہتی ہیں۔ کوئی خاکی ساڑھی پہنے کسی آسمانی آفت کے متاثرین کی مدد کرنے کے خواب سجاتی ہے تو کوئی سفید لیب کوٹ پہنے کسی لیب میں میری کیوری بننے کی جستجو کرتی ہے۔

کسی لڑکی کو مڈل پاس کرنے کے بعد گمان ہوتا ہے کہ چند سالوں بعد وہ کالا کوٹ پہن کر انسانوں کو انصاف دلایا کرے گی تو کوئی زیتون رنگی وردی میں پرواز کرے گی۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ آرزوئیں ہاتھ سے پھسل کر ٹوٹ جانے والے نازک آئینے کی مانند ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ وہ سب ادھورا رہ جاتا ہے اور زندگی تھم جاتی ہے۔

پاکستان میں ہر برس تقریباً پچس ہزار بچیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ اعداد بیس سے چالیس سال پرانے نہیں، جو پہلے وقتوں میں میں تباہ کن حد تک زیادہ تھے۔ اسکول اور کالج میں داخلے کی عمر کی لڑکیاں جب اپنے خوابوں کے حصول کی بجائے جنسی تشدد سہنے، بچے پالنے اور سسرال کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں تو ان کا اندر بھی کہیں دب جاتا ہے۔

اس میں بہت بڑا حصہ ان سماجی اور اخلاقی بے ضابطگیوں کا ہے جن کی موجودگی میں عورت پنپ اور پھول نہیں سکتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کام کرنے والی عورتوں کے حوالے سے کس قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص شادی شدہ گھر سے باہر کام کرنے والی عورتیں جن کے بچے بھی ہوں، کو خاص بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان میں ان خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے جن کو سوچے سمجھے منصوبوں سے گھرداری تک محدود کیا گیا بلکہ بہت کم عمری میں تعلیم سے دور اور شادی کے ڈربے میں تب مقید کیا گیا جب وہ زندگی میں کچھ بننے کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ شادی یقیناً اچھا رشتہ ہو گا مگر یہ قید و بند تب بنتا ہے جب دونوں افراد میں سے کسی ایک کے خوابوں کی جیتی جاگتی مورتی کو توڑ کر یہ رشتہ بنایا گیا ہو۔

میں نے اپنے ایسے سب دوستوں کو ناامید اور ناخوش دیکھا ہے جن کی رضا کے بغیر وقت سے پہلے ادھوری تعلیم کے ساتھ شادی کی گئی ۔ میرے دوست ہی نہیں، میں نے اپنے اطراف ان خواتین کو بھی ناخوش، بیمار اور متنفر دیکھا ہے جو وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر بننے کی بجائے کم عمری میں مائیں، بیویاں اور بہوئیں بنیں۔ جس عمر میں ان کی سہیلیاں کالج اور اسکول جاتی تھیں، اس عمر میں وہ سسرال کی دعوتوں کا اہتمام کرتی تھیں، ایسی خواتین کیسے خوش اور مطمئن زندگی گزار سکتی ہیں؟

ہمارے یہاں اگر گھر کی ”بہو“ کی تعریف کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ وہ ساری برادری کی خدمت کرتی ہے۔ وہ اس قدر سگھڑ ہے کہ برادری کا کھانا ایک وقت میں بنا لیتی ہے۔ میں نے ایک وقت میں عورتوں کو پوری شادی اور ختم کا کھانا بناتے دیکھا ہے، موسم اور جسمانی صحت کی کوئی قید دیکھی نہ یہ کہ عورت کیا چاہتی ہے ۔ وہ بہو ٹھہری تو پوری دیگ اس کے ذمہ ہے جو اس کو ہر طور پر پکانی ہے۔

ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہماری مائیں جن کی کم عمری میں سارے خواب مسمار ہوئے، میکے والوں نے چھینے اور سسرال والوں نے پیروں تلے اپنی اونچی سرزنش کرتی آوازوں سے کچلے۔

یہ رجحان بھی بہت عام ہے کہ خواتین کو جسمانی، جنسی، جذباتی اور سماجی لحاظ سے دبوچ کر ان کی ایسی تربیت کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی کلمۂ بغاوت بلند کرنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ خواتین کو ان تمام خواتین سے نفرت کرنا بتلایا گیا جن کے خواب کسی پتنگ کی طرح لوٹنے میں سماج اور نظام ناکام رہا۔ نوکری پیشہ خواتین سے نفرت اور اس رجحان کو تلف کرنے کی کوشش تو بہت پہلے سے شروع ہوئی جس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ ہم اسکول میں خاتون استاد سے پڑھتے ہیں مگر اپنی ماں کو استاد نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس ملک کے محترم ادباء نے اپنا یہ کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی کہ وہ ماں ماں نہ کہلائے جو گھر سے باہر کام کرتی ہو اور اپنا کماتی ہو۔

مختصراً عورت عورت کی جو دوست ہونا تھی، اس کو عورت کی دشمن بنانے میں سب کامیاب رہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ سڑک پر مرد مرد کو مار رہا ہو تو ایک مرد کو اس سے زیادہ لطف کسی چیز میں نہ آئے گا۔ کوئی مجھے کہے کہ میں کسی عورت کو جا کر زدوکوب کرنا شروع کر دوں، ناممکن سی بات ہے۔ ہاں کوئی مرد کسی مرد کو بیچ چوراہے کے ایسا کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے گا۔ عورت کو عورت کی کامیابی کا دشمن بنانے میں اس نظام کا ہاتھ ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی کو داؤ پر لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ کاروبار چلتا بھی ایسے ہی ہے۔

گزشتہ روز میں نے اپنی خالہ کو عورت مارچ کے نعروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے سنا، کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کو اپنے شوہر اور سسرال کی انہی باتوں پر اشکبار پایا جن کی نفی عورت مارچ کے نعروں میں درج تھی۔ چند مردوں کو خوش کرنے اور مشہور نکتے پر بول کر شہرت پانے کے حصول میں عورت کسی دوسری عورت کی دشمن نہیں بلکہ اپنی ذات سے بے زاری ظاہر کرتی ہے۔ میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو جھلستے اور پستے دیکھا ہے سماج کی ان ہی بے ضابطگیوں، تشدد اور توہین کی وجہ سے جن کے حق میں عورتیں پدرسری کو کندھا دیتی ہیں۔

یہ بات میرے لئے تکلیف دہ ہے کہ ہر عورت نے تشدد اور استحصال سہا ہے ، خواہ وہ جنسی ہو یا نفسیاتی، سماجی ہو یا معاشی مگر بہت کم ہیں جو سامنے آ کر ظالم اور مکروہ نظام اور افراد کو للکارتی ہیں۔ حقوق نسواں کا سب سے پہلا مقصد ان خواتین کو ان کے حقوق کی آگہی دینا ہے ، جن کے نزدیک ان پر ہونے والا صدیوں پرانا تشدد محبت اور تربیت کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ جن کے نزدیک ان کا انسان ہونا بے معنی ہے، جو یہ سمجھ رکھتی ہیں کہ تھپڑ کھانا، قتل ہونے سے بہتر یا گھر میں کسی مرد کے ہاتھوں ہراساں ہونا کسی اجنبی کے ہاتھوں ریپ ہونے سے بہتر ہے۔ جن کے خیال میں ان کا زندہ ہونا کسی مرد کی عنایت ہے۔

افسوس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی یوم خواتین کو عورتوں پر تشدد کرنے والوں نے نظریاتی عناد کی بلی چڑھایا ہوا ہے۔ حیا مارچ جیسی مچان اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نظام کو کتنی شدت سے حقوق نسواں کی تحاریک کی ضرورت ہے۔ میں بخوبی جانتی ہوں کہ حیا مارچ کی شرکا بھی اس تشدد کی متاثرین ہیں جس کا اظہار عورت مارچ کے پلے کارڈز پر درج ہوتا ہے۔

ہم اگر ظلم کی بات کریں اور وہ خواتین ہم کو برے ناموں سے پکاریں، ان اعمال کو ہم سے منسوب کریں جو ہم نے زندگی میں کیے بھی نہ ہوں، یہ حیاء والوں اور دین والوں کو زیب دیتا ہے اور نہ سچے ماننے والے کسی پر بہتان درازی کرتے ہیں۔

حیا مارچ کی شرکا عورت مارچ کی شرکا پر بدترین الزام لگانے سے پہلے اگر اللہ کے درد دینے والے عذاب سے خوف کھاتیں تو یقیناً پدرشاہی کی ریل پکڑ کر عورتوں پر کیچڑ نہ اچھالتی۔ مگر خدا کا اتنا شکر ہے کہ فیمنزم کی وجہ سے پدرشاہی میں بھی ایک ویمن ڈیپارٹمنٹ وجود رکھتا ہے۔ یہ اگر عورت مارچ اور فیمنزم کی جیت نہیں تو کس کی ہے؟

میں اپنے اس بھائی کے لئے ضرور خلوص سے کھانا بناؤں گی جو مجھ سے محبت اور شفقت سے پیش آتا ہے مگر میں اس مرد کے لئے ہرگز کھانا نہیں بنا سکتی جو مجھ سے بدتمیزی اور تشدد کا رویہ روا رکھتا ہے خواہ وہ کتنا بڑا مجازی خدا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کو کھانے میں دیر پر سرزنش، گالی اور ایک آدھ تھپڑ کھانے کو نہیں ملتا تو یہ بہت اطمینان کی بات ہے مگر ان عورتوں کی تکلیف کو خود غرضی سے رد نہ کریں جن کی زندگیاں حرام ہو چکی ہیں اور یہ وہ عورتیں بھی جانتی ہیں جو پبلک پر آ کر آزادی نہیں چاہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments