شاہ جمال کا مجاور


بہت دن ہوئے وہ مجھے افغان حملہ آور احمد شاہ ابدالی کے نام سے موسوم سڑک پر سر راہ اس جگہ ملا جہاں خواتین کا ہسپتال ہے۔ ہم دونوں ہی کسی سرکاری نوکری کے لئے تحریری امتحان دے کر نکلے تھے۔ حیرت ہے کہ یونیورسٹی میں ایک ہی سیشن اور ایک سے ”مشاغل“ ہونے کے باوصف ہم کبھی اک دوجے سے نہ ملے تھے۔ اس اتفاقی ملاقات کے بعد یہ تعلق انتہا سے بڑھی ہوئی بے تکلف دوستی میں بدل گیا۔ رؤف کلاسرا کے ساتھ یہ دوستی دو ہزار آٹھ تک رہی۔

پھر کسی وجہ سے ایک طویل وقفہ در آیا۔ صلبی رشتے ہوں یا سماجی جب ان میں خلیج آ جاتی ہے تو پھر کیسا ہی اس کو پاٹنے کی کوشش کی جائے، پہلے جیسی بات نہیں بن پاتی۔ سو اب رؤف کلاسرا کے ساتھ میرا تعلق تکلف بھرا ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ ملاقات ہوتے ہی یا اک دوجے کا فون اٹھاتے ہی پیار بھری گالی سے گفت گو کا آغاز ہوتا اور اب یہ عالم کہ

”میں آپ، وہ جناب سے آگے نہیں بڑھا“

وہ ملتان آتا ہے تو کبھی اس نے مجھے بتانے کی زحمت نہیں کی، میں اسلام آباد جاؤں تو اسے مطلع نہیں کرتا۔ اس کے پاس تو ملتان میں بہت ٹھکانے تھے مگر اس خلیج سے پہلے میں جب بھی اسلام آباد جاتا، میریٹ ہوٹل کے پیچھے گلشن جناح میں اس کے گھر ہی ٹھہرا کرتا۔ یا پھر اپنے بچپن کے کلاس فیلو امجد کے ہاں، جو دوسری شادی فرمانے کے بعد اب بوجھ تو دو الگ الگ گھروں کا اٹھائے ہوئے ہے مگر درحقیقت نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ مختصر یہ کہ رؤف کلاسرا سے بس فیس بک پر کمنٹس کا تعلق باقی ہے یا کبھی کبھار کی فون کال کا۔

یہ باتیں نہ اس نے کبھی لکھیں نہ میں نے۔ آج بھی جو لکھی جا رہی ہیں تو وجہ ”شاہ جمال کا مجاور“ ہے۔ دوپہر کو گھر آیا تو سامنے بک کارنر جہلم کی طرف سے ایک پیکٹ آیا رکھا تھا۔ پرسوں ہی رؤف نے میسج کر کے مجھ سے گھر کا پتہ لیا تھا۔ کتاب کا پیکٹ دیکھ کر میری بھی وہی کیفیت ہوتی ہے جو رؤف کئی دفعہ لکھ چکا ہے۔ پیکٹ کھول کے کتاب برآمد کی اور پہلا طویل مضمون ”شاہ جمال کا مجاور“ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا۔ چاندنی رات میں اک شخص ہے جو اکیلا ٹہلتا ہے۔ گزرے وقت اور اس کے غبار میں کھو چکے چہرے تلاشتا ہے۔ گم شدہ مناظر یاد کرتے ہوئے خود بھی اداس ہوتا ہے اور پڑھنے والے کو بھی ناسٹیلجیا میں غوطے دیتا ہے۔

پھر فہرست دیکھی تو ایک جگہ ”ماضی کے مزار“ کا عنوان سامنے آ گیا۔ یہ دیکھ کر سبط حسن یاد آئے اور اسے پڑھ ڈالا۔ یہ ڈان اسلام آباد کے بیورو آفس کا ناسٹیلجیا ہے۔ ایک ایک کردار کا ذکر اور اس سے وابستہ یادیں۔ ماموں شاہ نواز کا بنا بتائے ہر ماہ کمیٹی اکٹھا کرنا اور اس کمیٹی سے رؤف کا پہلی گاڑی لینا۔ پھر کتاب یونہی کھولی تو ”آزادی یا محبت“ سامنے آیا۔ یہ بھی نرا ناسٹیلجیا۔ اماں کے رشیئن کتوں کی جوڑی جو مالکن کے ہجر میں جاں سے گزر گئے اور مہد کا کتا کزکو جو آزادی کے شوق میں گھر چھوڑ گیا۔ اس سب نے مجھے بھی ناسٹیلجک کر دیا۔ یہ زیر نظر تحریر کے پہلے پیرا گراف کی شان نزول ہے۔

رؤف کے گھر کا اب بھی وہی عالم ہو گا لیکن یادش بخیر! جب وہ ملتان میں اکیلا رہا کرتا تھا یا جب تک اسلام آباد کے گلشن جناح کا باسی تھا تو اس کے گھر میں دیگر تمام روزمرہ اشیاء کی مجموعی تعداد سے زیادہ کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ اتنی زیادہ کہ ہم جیسے ایک دو اٹھا لیتے تو رؤف کو تب تک پتہ نہ چلتا جب تک اس چوری ہو چکی کتاب کی ضرورت اسے پیش نہ آتی۔ وہ کتابوں میں خوش رہتا تھا اور اب خود بھی کتابیں لکھنے لگا ہے۔ اس کے فرزند ہوش مند نے بجا مشورہ دیا ہے کہ کتابیں لکھا کریں، یہی آپ کو زندہ رکھیں گی۔

گریجویشن اور اس کے بعد ماسٹرز میں انگریزی ادب پڑھ کر مدتوں انگریزی صحافت کرنے والے رؤف کی جب میں اردو نثر پڑھتا ہوں تو مجھے اس سے جیلسی ہونے لگتی ہے۔ چالیس صفحات پر مشتمل ٹائٹل مضمون ”شاہ جمال کا مجاور“ پر اثر اور رواں نثر کا شاہ کار ہے۔ پھر کس مشاقی کے ساتھ رؤف نے ماضی اور حال کے تار و پود سے یہ مضمون بنا ہے۔ حال میں ٹہلتے ٹہلتے وہ غیر محسوس انداز میں قاری کو ماضی کی سیر دکھانے لگتا ہے، پھر جب پڑھنے والا پوری طرح ناسٹیلجیا میں گم ہوتا ہے تو حال میں لا کر ایک دم اسے چونکا دیتا ہے کہ میاں! واپس آؤ تم تو میرے ساتھ چاندنی رات میں ٹہل رہے تھے۔

کرنٹ افئیرز میں الجھے دو لوگوں بارے میرا خیال ہے کہ اگر وہ فکشن لکھیں تو اردو ادب کے لئے خوش گوار اضافہ ثابت ہوں گے۔ وجاہت مسعود اور رؤف کلاسرا۔ وجاہت مسعود تو خیر پر شکوہ اور دیومالائی نثر لکھتے ہیں۔ ان کی اردو کا مقابلہ شمس الرحمن فاروقی کریں تو کریں اور کسی کا بس نہیں۔ رؤف کی نثر رواں اور شستہ ہے۔ کہانی بننے کے فن سے مکمل آگاہ ہے۔ اس کے کالموں کی منظر نگاری اور بنت اس کے اندر چھپے فکشن نگار کی خبر دیتے ہیں۔

تاہم فکشن لکھتے ہوئے رؤف کو اپنے اندر تھوڑا تحمل پیدا کرنا ہو گا۔ اس کی بنیادی تربیت چونکہ صحافی کے طور پر ہوئی ہے سو وہ قلم برداشتہ لکھنے کا عادی ہے۔ اس کے مضامین پڑھ کے لگتا ہے کہ کسی خاص تردد کے بغیر لکھے گئے ہیں۔ لکھتے ہویے سامنے جو دستیاب لفظ نظر آئے اور سوچ کی پہلی جھلک پر جو جملہ ابھرا وہ لکھ دیا گیا۔ اس کے باوجود رؤف اتنی اچھی نثر لکھتا ہے۔ اگر وہ تھوڑا ٹھہر ٹھہر کے، تھوڑا سوچ کے لفظوں کا انتخاب کرے اور جملہ بنائے تو کیا عالم ہو۔

بہرحال، ماضی کی سیر دیکھنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے ”شاہ جمال کا مجاور“ کسی تحفے سے کم نہیں۔ ٹائٹل پر بجا لکھا گیا ہے، یہ واقعی وہ تحریریں ہیں جو پرانی نہیں ہوتیں۔ خوب صورت نثر میں خوب صورت یادیں قلم بند کی گئی ہیں اور بک کارنر جہلم کے گگن شاہد اور امر شاہد نے شان دار گیٹ اپ میں اسے شائع کیا ہے۔ رؤف کو اس کی آٹھویں کتاب پر مبارک باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments