جب پروفیسر متین الرحمان مرتضیٰ نےانوکھی بات ممکن بنا دی



میں نے جب اپنی گزارشات پروفیسر متین الرحمان مرتضیٰ کے سامنے پیش کیں تو پہلے ان کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات ابھرے، پھر اس کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی اور آخر میں، وہ نہایت نرمی سے گویا ہوئے ”چلو دیکھتے ہیں“۔

میں خود بھی حیران تھا کہ میں نے اتنی بڑی بات اور ایسی عجیب خواہش، کیسے ان کے گوش گزار کر دی اور یہ کیوں کر سوچا، کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

کلاس میں طلبہ و طالبات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور ان سب کے نشستوں پر بیٹھنے کے بعد ، اب امتحان کا طے شدہ وقت شروع ہو چکا ہے۔ پروفیسر صاحب کی طرف سے سوال نامے اور ان کے حل کے لئے کاپیوں کی تقسیم بھی مکمل ہو چکی ہے۔ تقریباً ”سارے ہی کلاس فیلوز اپنی تیاری اور دلچسپی کے حساب سے امتحانی پیپر کے جوابات کے لئے قلم متحرک کر چکے ہیں۔ کسی کو بھی فی الوقت ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت نہیں ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت! طالبات کی روایتی تیزی ہمیشہ کی طرح رواں ہے کہ کب (اور کس طرح) جوابات کی کاپی مکمل ہو اور نئی کاپی کے لئے صدا بلند کی جائے۔

امتحان کا مقررہ وقت آہستگی سے گزرتا جا رہا ہے، مگر میں سرکتے وقت سے بے خبر، تاحال اس سوچ میں ہوں کہ سوالات کے جواب کس قالب میں ڈھالے جائیں کہ وہ منطقی محسوس ہوں، قائل کرنے کی اہلیت اور دلائل رکھتے ہوں، کسی قسم کی پیچیدگی یا ابہام سے دور ہوں، ان میں جو بیان کیا جا رہا ہے وہ متاثر کن لگے اور ان سب باتوں سے بڑھ کر، یہ کہ دیا جانے والا جواب جیسا بھی ہو مگر مختلف ہو کہ صحافت کی دنیا کے ایک دانا نے کبھی تاکید کی تھی کہ لکھنے والے کے لئے اچھی یا بری تحریر کوئی معنی نہیں رکھتی، اس کے لئے اہم بات یہ ہے کہ وہ جو تخلیق کرے، وہ مختلف ہو۔

مختلف کے لئے پھر طرز کار بھی مختلف درکار ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یکسانیت کی راہ اختیار کر کے، رنگا رنگی اور تنوع کی خواہش کی جائے۔ اسی لئے ہٹ کر سوچنے اور ہٹ کر لکھنے کے لئے، ایسا محسوس ہوتا ہے، معمول سے روگردانی اور ڈگر سے علیحدگی، شاید ضروری نہیں تو اہم ضرور ہو جاتی ہے۔

اب بھی امتحانی منظر ویسا ہی ہے اور میرے تخیل کی سست روی بھی ویسی۔ ادھر جواب دہندگان میں وقت گزرنے کا احساس تیز تر ہے اور ادھر سوال اور اس کے ممکنہ جواب کے گرفت میں آنے کی رفتار اتنی ہی مدھم۔ اس تضاد کا کیا کیجیے کہ گھڑی کی اپنی رفتار اور تصورات کی اپنی روانی۔ جب تک یہ کشمکش ختم نہ ہو، امتحانی کاپی پر لفظ، جملے اور خیال کے منتقل کرنے کا سلسلہ کیسے شروع ہو۔

اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، شاید یہ بتانا مناسب ہو گا کہ یہ بات غالباً 80 کی دہائی کی ہے اور یہ تذکرہ جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کا ہے، جب ماس کمیونیکیشن کی شناخت اختیار کرنے سے قبل اس شعبے کو جرنلزم کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب طلبہ کی سیاست بھی اپنے زوروں پر ہوتی تھی۔ عمر اور شعور کے اس مرحلے پر اختلاف رائے کا ہونا شاید اس قدر حیرت کی بات نہیں، جتنا کہ اس ( اختلاف رائے ) کا نہ ہونا تعجب خیز سمجھا جانا چاہیے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ فطری طور پر خواب کو تعبیر دینے کی ایک شکل کہی جا سکتی ہے۔ مختلف مزاج کے ساتھ، ہر استاد اپنے شاگرد کو خود سے آگے دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔

پروفیسر متین الرحمان مرتضیٰ

پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ کی پہلی پہچان ان کی شفیق آواز اور دھیما لہجہ تھا۔ طلبہ امور کے انچارج ہونے کے وسیلے سے طلبہ اور طالبات کو ان سے باآسانی رابطہ میسر تھا۔ کسی بھی تعلیمی معاملے اور تدریسی مسئلے پر رہنمائی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ اس کے لئے کسی خاص وقت کی بندش بھی نہیں تھی۔ مسلسل عملی صحافت سے متعلق ہونے کی وجہ سے نصابی اور میدان عمل کی حقیقی صورت حال کے مطابق کارآمد ہدایات ان کا خاصہ کہی جا سکتی ہیں۔

اگر کوئی مسئلہ  آ موجود ہو تو اس کے لیے جونیئرز سے رائے لینے میں بھی قباحت محسوس نہ کرتے۔ فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کے لئے بھی ان کا تعلق اسی جذبے سے برقرار رہتا۔

روزنامہ زمانہ کوئٹہ سے وابستگی اختیار کرنے کے بعد، ان کے تحریر کردہ خط کا یہ اقتباس، ایک طالب علم کے لئے ان کے جذبات کا آئینہ دار ہے اور شاید یہ ہدایات صحافت کے طالب علموں کے کیے آج بھی اتنی ہی مفید ہوں:

”پیشہ صحافت میں اپنی جڑیں گہری کرنے اور اپنی خدمات کو ناگزیر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپ بہ طور سب ایڈیٹر اپنی اہلیت کا خوش گوار تأثر قائم کریں۔ آج کل اخبارات کو رپورٹر آسانی سے مل بھی جاتے ہیں اور خود اخبارات رپورٹر تیار بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن سب ایڈیٹرز کی دستیابی پچھلے کئی برسوں سے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ موقعہ ملے تو پہلے سب ایڈیٹر کے منصب پر ریاضت کیجیے۔ یہ معرکہ سر کر لینے کے بعد ، آپ بعد میں اپنے لئے اخبار میں جو بھی شعبے پسند کریں، انتخاب کر سکتے ہیں۔“

یہ امتحانی منظر بھی درحقیقت پروفیسر متین الرحمان مرتضیٰ کے ایک غیر معمولی فیصلے کی تصویر ہے۔ میں نے ایک دن حوصلہ پا کر ان سے گزارش کی کہ سر! آپ سے مجھے ایک رعایت درکار ہے۔ ( مجھے خود معلوم تھا کہ میں ایک انوکھی بات کرنے جا رہا ہوں) مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا، جیسے پوچھ رہے ہوں، وہ کیا؟ میں نے ان کے پڑھائے جانے والے مضمون کے حوالے سے گوش گزار کیا کہ ایسے موضوعات کے لئے رٹ کر نہیں آیا جاتا، یہیں سوال دیکھ کر ذہن بنانا ہوتا ہے، اس لئے اس تین گھنٹے کی پابندی سے آزاد کر دیں تاکہ سوچنے کا پورا موقع میسر آئے۔

مجھے معلوم تھا کہ ایسی کھلی چھٹی اور اتنی بڑی آزادی کون دیتا ہے۔ اور خصوصاً وہ اساتذہ جنہیں عام طور پر روایتی تصور کیا جاتا ہے، وہاں ایسا ہونا اور مشکل ہے۔ میں اپنے سوال کے ممکنہ جواب کے بارے میں یقین کے درجے پر تھا اور ذہنی طور پر تین گھنٹے کی قید کے لئے تیار، لیکن ہوا کچھ اور۔ انکار کی توقع رکھتے ہوئے، اقرار سامنے آ جائے تو انسان پر کیا ردعمل ہو سکتا ہے ، سو اس صورت حال سے اس وقت میں بھی دوچار تھا۔ یقین پھر بھی تب تک نہ آیا، جب تک کئی کئی گھنٹوں کلاس میں بیٹھ کر، ذہنی اور فکری آزادی کے ساتھ، پیپر نہ دے دیا ( اور ایک بار نہیں، بار بار ایسا ہوا) اس عمل میں کبھی کلاس روم خالی ملا اور کبھی شام ڈھلنے کا احساس، جواب کے اختتام سے ہوا۔

اس ( کمال کے فراخدلانہ اور ہمدردانہ ) فیصلے کی گہرائی، وسعت اور ندرت، دوران طالب علمی بھی شاید اس شدت سے محسوس نہ ہوئی جتنا کہ اب اتنے برس ہا برس کے بعد ، کسی کو، اسے سنا کر اور پھر اس کی حیرت دیکھ کر ہوتی ہے ( جبکہ زمانہ پہلے سے کہیں زیادہ جدید، دوستانہ اور آزادی کا قائل ہو چکا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments