جانور بھی جاندار ہیں


پانچ سال پیشتر نیوزی لینڈ میں جانوروں کے حقوق سے متعلق ایک ترمیمی بل منظور کیا گیا تھا اور یوں یہ دنیا کا پہلا ملک بنا جس نے تمام جانوروں کو Sentient تسلیم کر لیا جس کا مطلب ہے کہ تمام جانور ”حس کا ادراک“ رکھتے ہیں یعنی جانور تمام مثبت اور منفی احساسات کے حامل ہیں ، چنانچہ انہیں پالنے والوں پر لازم ہو گا کہ جانوروں کا چاہے ان کے گھریلو پالتو جانور ہوں یا فارم میں پالے جانے والے جانور، اسی طرح خیال رکھیں جس طرح انسانوں کا رکھا جاتا ہے۔

ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انہیں تعلیم بھی دلوائیں البتہ ان کی صحت کا خیال کریں، انہیں موسموں کی شدت سے بچانے کا اہتمام کریں، ان پر کسی صورت تشدد نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں کا خیال ہو گا کہ ایسا تو لوگ پہلے ہی کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ملکوں میں پالتو جانوروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے جیسے نادار انسانوں کے ساتھ بلکہ ان سے بھی بدتر۔ فارم میں پالے جانے والے جانوروں کو جانور ہی سمجھا جاتا ہے جن کے لیے لاٹھی کا استعمال اسی طرح جائز خیال کیا جاتا ہے جیسے ایسے ملکوں کی پولیس احتجاجی مظاہروں کے شرکاء کو بھگانے یا دھر لینے کی خاطر ڈنڈوں کا بے محابا استعمال کرتی ہے۔

چند سال پہلے کی بات ہے میں بقر عید کے موقع پر پاکستان گیا تھا۔ ہمارا صحن خاصا طویل ہے۔ میں سامنے کے ایک کمرے میں کسی سے موبائل فون پر بات کر رہا تھا۔ میں جانور ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتا مگر میری نظر پڑ گئی کہ قصائی کس طرح گائے کے سینگ مروڑ رہا تھا اور اسے اڑنگیاں ڈال رہا تھا۔ میں یہ منظر نہ دیکھنے کے لیے مڑ گیا تھا۔ بے دھیانی میں مڑا تو بیچاری گائے خرخرا رہی تھی اور خون کی ندی بہہ رہی تھی۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا تھا، ”ہائے انہوں نے گائے مار دی“ ۔

میرے بڑے بھائی یہ سن کر سیخ پا ہو گئے تھے اور کہا تھا، ”ہم نے اسے اللہ کی راہ میں قربان کیا ہے اور تم اسے مارنا کہہ رہے ہو“ میں برادر بزرگ سے کیا کہتا کہ گائے کو حیات نو عطا نہیں کی گئی، ظاہر ہے لفظ ذبح کا مطلب گردن کاٹنا یعنی جان لینا ہی ہے۔ بہرحال مذہبی معاملات تب کے ہیں جب نیوزی لینڈ میں لوگ نہیں بستے تھے، پارلیمنٹیں بھی نہیں تھیں، بل بھی منظور نہیں کیے جاتے تھے پھر جانوروں سے متعلق تو اس دور میں بھی بہت ہی کم قانون منظور کیے گئے ہیں۔

اس سے پہلے Sentient جاندار ہونے کا اطلاق چند جانوروں پر ہوتا تھا جیسے چمپنزی، مگر اب نیوزی لینڈ میں تمام جانوروں پر ”حامل احساس“ ہونے کا اطلاق ہو گا اور ان پر تجربات نہیں کیے جا سکیں گے، رہی بات کاٹنے کی اس سلسلے میں مغرب میں پہلے ہی ذبح کرنے سے پیشتر بے ہوش کیے جانے کا طریقہ کئی جگہ استعمال ہو رہا ہے۔

گزشتہ عید قربان سے پہلے والی عید قربان پر مجھے پہلی بار ماسکو میں قربانی کے لیے خود جانا پڑا تھا۔ اس سے پہلے مجھے پہلی قربانی حج کے موقع پر دینی پڑی تھی جو لامحالہ میں نے ہوتے ہوئے نہیں دیکھی تھی۔ خیر جہاں اپنے ایک دوست کے ہمراہ میں گیا ، وہاں بھیڑیں پکڑے جانے کے خوف سے ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں جیسے انہیں احساس ہو کہ ان کے ساتھ کچھ ناگہانی ہونے کو ہے۔ دسیوں بھیڑوں کی تین تین ٹانگیں باندھ کر انہیں ایک نالی کے ساتھ لٹایا ہوا تھا جس میں سے اس کمرے سے جہاں ”کھٹا کھٹ“ بھیڑوں کو ذبح کیا جا رہا تھا، خوں بہہ رہا تھا۔ بھیڑیں کبھی لمحے بھر کو آنکھیں کھول کر نالی میں بہتے خون کو دیکھتی تھیں اور پھر بند کر لیتی تھیں۔ میرے سے یہ منظر نہیں دیکھا گیا، دوست آواز دیتا رہا کہ اپنی ”قربانی“ تو ہوتے دیکھ لو لیکن میں مذبح سے دور چلا گیا تھا۔ جانور بول نہیں سکتے ہیں، اس لیے وہ مذبح کو مقتل نہیں کہہ سکتے۔

مجھے مذہبی معاملات کا زیادہ علم نہیں لیکن سنا یہی ہے کہ حلال کیے جانے والے جانور کا سارا خون بہہ جانا چاہیے کیونکہ خون حرام ہے۔ جانور کو مسکن انجکشن لگانے کے بعد بھی گلا کاٹنے سے خون سارا نکل جائے گا، ایسا کیوں نہیں کیا جاتا اس پر علمائے دین سوچیں لیکن سوچیں کیوں؟ نیوزی لینڈ تو بہت ہی زیادہ دور ہے۔ پھر دنیا میں جو قانون اچھے ملکوں میں منظور کیے جا چکے ہیں ، کیا وہ پاکستان سمیت مسلمانوں کے باقی ملکوں میں بھی منظور کر لیے گئے ہیں؟

جو منظور کیے بھی جا چکے ہیں کیا ان پر عمل درآمد ہوتا ہے؟ کچھ ہی عرصہ پہلے بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی تھیں۔ چند سال پہلے کراچی میں بوری بند لاشوں کے ملنے کا چلن تھا، کوئی بھی نہیں کہتا تھا کہ ہائے انسان مار دیا۔ یہاں تو عورتوں پر تشدد کے خلاف بل منظور کیے جانے پر مولوی فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے کی خاطر وزیراعظم ہاؤس میں انہیں مدعو کرنا پڑا ہے۔ ہوں نہ میں ”بھولا بادشاہ“ جانوروں کو جاندار کہہ رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بھی انہیں Sentient سمجھا جانے لگے گا۔

چند روز پہلے مجھے فیاض باقر نے کاروکاری پر بننے والی ایک دستاویزی فلم بھیجی تھی، جس میں سندھ کے کسی قصبے کا کوئی آدمی کہتا ہے، ”عورتوں کے بھلا کون سے حقوق ہوتے ہیں، عورتیں بس عورتیں ہوتی ہیں“ ۔ یوں ہی بس جانور تو سئیں جانور ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments