امریکہ چین تعلقات: کیا امریکہ اور چین کے درمیان صورتحال ’سرد جنگ‘ سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے؟


چین اور امریکہ کے صدر

چینی صدر شی جن پنگ کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سینیئر اہلکاروں کی بالمشافہ ملاقات دنیا کی دو سپر پاورز کے مابین اتار چڑھاؤ سے بھرپور رشتے میں بہت اہم سمجھی جا رہی ہے۔

جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان امریکی ریاست الاسکا میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور سینیئر سفارتکار یانگ جیچی سے ملاقات کر رہے ہیں۔

تاہم اس ملاقات سے پہلے بائیڈن کی ٹیم کے لیے صورتحال بڑی واضح ہے۔ اس ملاقات سے قبل انٹونی بلنکن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ کوئی سٹریٹجک مذاکرات نہیں ہیں اور اس وقت ماضی میں ہونے والے معاملات پر بات چیت کا بھی ارادہ نہیں۔

تاہم انھوں نے کہا ہے کہ اس سمت میں بات چیت کا دور اسی وقت شروع ہو گا جب امریکی خدشات پر چین کی جانب سے ٹھوس پیشرفت اور ٹھوس نتائج سامنے آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین اور امریکہ کبھی دوست بھی تھے؟

کورونا: ’امریکی قیادت کو سیاسی وائرس لگ گیا ہے‘

امریکہ چین تعلقات: امریکی کمپنیوں کو ہوائی کے ساتھ کام کرنے اجازت

پچھلے کچھ برسوں سے امریکہ اور چین کے مابین تعلقات میں مسلسل کشیدگی آئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماضی میں اتنے برے تعلقات کبھی نہیں تھے اور ممکن ہے کہ ان میں مزید خرابی ہو۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر تقرری سے قبل، سلیوان نے بائیڈن کے اعلی ایشیائی مشیر کرٹ کیمبل کے ساتھ، امور خارجہ کے میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے کہا کہ اب چین کے ساتھ مذاکرات کا دور ’اب مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔‘

اور اب صورتحال کچھ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو نئی ’سرد جنگ‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو کہ نصف صدی قبل امریکہ اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے ہے اور جس نے بیسویں صدی کی آخری پانچ دہاہیوں میں عالمی تعلقات میں ایک بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔

جھنڈے

واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے، پوچھے گئے سوالات اور ان کے دیے گئے جوابات پر بڑی حد تک منحصر ہے۔

یہ پالیسی کے اختیارات کا معیار طے کرتا ہے، کچھ راستوں کو محدود اور کچھ راستے بند کردیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اختیارات پر تبادلہ خیال کرنے، سیاق و سباق کو سمجھنے اور صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کئی بار تاریخی حوالہ جات مددگار ثابت ہوتے ہیں، لیکن دوسرے یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

متعدد بار تاریخ خود کو دہرا نہیں دیتی اور اختلافات باہمی مساوات سے بڑھ سکتے ہیں۔

اگر سرد جنگ دو طاقتور ممالک، دو مختلف سیاسی نظاموں کے مابین تنازع کی نمائندگی کرتی ہے، تو پھر امریکہ اور چین کے مابین ’دشمنی‘ میں امریکہ اور سوویت یونین کے تصادم کی گونج سنائی دیتی ہے۔

چین ایک ممکنہ حریف ہے

بائیڈن انتظامیہ نے رواں ماہ میں عبوری خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کے نئے نوٹ بنائے تھے جس کے مطابق چین ‘معاشی ، سفارتی ، فوجی اور تکنیکی نقطہ نظر سے ایک ممکنہ حریف ہے جو مستحکم اور کھلی بین الاقوامی آرڈر کے مستقل چیلنج پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

بائیڈن انتظامیہ کا کلیدی نقطہ یہ ہے کہ اگر ضرورت ہو تو چین کو چیلنج کرنا اور جہاں بھی ممکن ہو تعاون کرنا۔

دوسری طرف چین اسی طرح کا نقطہ نظر اپنا رہا ہے۔ ایک طرف وہ تعمیری تعلقات کے لیے تیار ہے تو دوسری طرف وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت گیر اقدامات پر عمل کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، چاہے وہ ہانگ کانگ میں جمہوری مظاہروں پر قدغنیں لگانا ہو یا پھر چین میں مسلم اویغر برادری پر ظلم و ستم ہو۔ (یاد رہے کہ بلنکن نے اویغر برادری کے ساتھ چین کے سلوک کو نسل کشی قرار دیا۔)

بیجنگ انتظامیہ امریکی نظام کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی ہے۔ چاہے ڈونلڈ ٹرمپ کا کووڈ 19 وبا کے انفیکشن کو روکنے کا غلط طریقہ تھا یا اس سال جنوری میں کیپیٹل ہل پر ہونے والے پرتشدد ہنگامے، چین نے خود کو ایک سماجی اور معاشی ماڈل ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے ان سبھی کا استعمال کیا۔

اگرچہ سطحی طور پر امریکہ اور چین کے مابین تعلقات کو سرد جنگ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، لیکن کیا واقعتاً ایسا ہی ہے؟

چین امریکہ

سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کو عالمی معیشت سے منقطع کردیا گیا تھا اور برآمدات پر پابندی عائد تھی۔ دوسری طرف چین عالمی معیشت کا محور بنی ہوئی ہے اور اس کی اپنی معیشت بڑی حد تک امریکی معیشت سے منسلک ہے۔

امریکی اور سوویت یونین کی سرد جنگ کا تکنیکی پہلو بہت اہم تھا۔ پہلے ہتھیاروں کا مقابلہ تھا اور بعد میں خلا میں داخل ہونے کی دوڑ تھی۔

اس بار امریکہ اور چین کی نئی سرد جنگ میں ٹیکنالوجی کا پہلو اہم ہے لیکن مقابلہ مصنوعی ذہانت اور فائیو جی ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔

سرد جنگ کا ماڈل خطرناک ہے

لیکن اب عالمی منظرنامہ بھی بدل گیا ہے۔ سرد جنگ کے وقت، دنیا دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ حالانکہ کچھ اہم ممالک میں ایک غیر جانبدار گروہ بھی تھا (مغربی دنیا میں وہ سوویت نواز کے حامی سمجھے جاتے تھے) لیکن اس وقت عالمی حالات ویسے نہیں ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں لبرل نظامِ حکومت بہت دشواری سے گزر رہا ہے اور یہ صورتحال چین کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے نظامِ حکومت کے ماڈل کو دنیا بھر میں پھیلائیں اور اثر و رسوخ حاصل کریں۔

سرد جنگ کا ماڈل اصلی معنوں میں بہت مؤثر ہے۔ سرد جنگ ایک سیاسی جدوجہد تھی جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے قانونی جواز کو مسترد کردیا تھا۔

اگرچہ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے مابین کوئی حقیقی تصادم نہیں ہوا تھا ، لیکن بالواسطہ تنازع میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

حتمی تجزیے میں سوویت یونین کے نظام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اب یہ نظام تاریخ میں درج کرلیا گیا ہے۔

اس وجہ سے بہت سارے خدشات ہیں کہ امریکہ اور چین کے مابین تنازع کے دوران جنونی نظریہ کے بارے میں دونوں اطراف میں غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے اور چین کسی ممکنہ شکست کے خطرے سے بچنے کے لیے کسی حد تک جاسکتا ہے۔

تاہم ، چین سوویت یونین سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ سوویت یونین اپنے دور عہد میں ہی امریکی جی ڈی پی کے 40٪ تک پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔ اسی کے ساتھ ہی چین نے جی ڈی پی کو اتنی ترقی دے دی ہے ہے جتنی چند دہائیوں میں امریکہ نے کی۔ چین ان حریفوں میں سب سے زیادہ طاقت ور ہے جن کا مقابلہ امریکہ نے انیسویں صدی میں کیا ہے۔ آنے والی دہائیوں میں ، یہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ایک ہی پوزیشن پر رہیں گے۔

ہواوے

سرد جنگ سے زیادہ خطرناک صورتحال

ویسے یہ ہمارے دور کی لازمی دشمنی ہے۔ پرانے محاورے اور جھوٹے تاریخی حوالوں کو ایک طرف رکھنا چاہیے۔ حقیقت میں ، یہ سرد جنگ -2 کی صورتحال نہیں ہے، یہ اس سے زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ چین کئی میدانوں میں امریکہ کا سب سے بڑا حریف ہے اور اب تک چین عالمی سپر پاور نہیں بن سکا، وہ ان علاقوں میں امریکہ کے لیے ایک بہت بڑی حد تک فوجی حریف ہے جو اس کی اپنی سلامتی کے لیے بھی اہم ہیں۔

چین امریکی صدر بائیڈن کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ان کی اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف چین کے ساتھ تنازعات کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چین ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں موسمیاتی تبدیلی اور استحکام کے لیے تعاون کی توقع کیسے کرسکتا ہے جبکہ چین پر بہتر کاروباری پالیسی، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ ایک طرح سے اسٹریٹجک مقابلہ کو منظم کرنے کے تبدیل ہونے والا ہے۔

دونوں ممالک کے مابین مقابلے کو نہ تو کم سمجھا جانا چاہیے اور نہ ہی اسے مبالغہ آمیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تصور بھی کیا جارہا ہے – چین ابھر رہا ہے اور امریکہ پیچھے ہے لیکن یہ ایک کمزور جملہ ہے جس میں حقیقت کا عنصر موجود ہے لیکن یہ پوری تصویر نہیں ہے۔

کیا چین ٹرمپ عہد کے آثار سے نکل کر اپنی جمہوریت کو بحال کر سکے گا؟ کیا وہ اپنے اتحادیوں کو یہ اعتماد دلائے گا کہ امریکہ مستقل ، قابل اعتماد شراکت دار کی حیثیت سے بین الاقوامی میدان پر کھڑا رہے گا؟ اور کیا امریکہ اپنے تعلیمی اور تکنیکی اڈے کا دائرہ تیزی سے بڑھا سکے گا؟

بیجنگ انتظامیہ نے واشنگٹن انتظامیہ پر متعدد طریقوں سے برتری حاصل کی ہے، لیکن کیا اس کے آمرانہ انداز نے اس کی معاشی پیشرفت کو متاثر کیا ہے؟ کیا چین معیشت میں سستی اور بڑھتی بوڑھوں کی آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کے قابل ہو جائے گا؟ اور کیا چین کی کمیونسٹ پارٹی طویل عرصے تک چین کے عوام کی حمایت اور اعتماد حاصل کرتی رہے گی؟

چین کے بہت سے مضبوط رخ اور بہت سی کمزوریاں ہیں۔ امریکہ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں، لیکن ایک بہت بڑا متحرک معاشرہ ہے جو اپنے آپ کو نئے سرے سے تلاش کرنے کے قابل ہے لیکن کووڈ 19 کی وبا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چین میں جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف چین ہی میں نہیں ہوتا۔ چین ایک عالمی طاقت ہے اور وہاں کا معاملہ پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے۔

اس تناظر میں، دنیا کو تیار رہنا چاہیے، امریکہ اور چین تعلقات تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا راستہ ہے اور ابھی ابھی اس کا آغاز ہوا ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp