مغز نہاری سے مونگ پھلی تک


(ہمارے کچھ احباب نے گلہ کیا کہ ہم جدید دور میں مستعمل روز مرہ زباں میں کیوں نہیں لکھتے تو حاضر ہے اردو انگریزی ملغوبہ میں یہ مضمون۔

بورڈ آفس کا برج اترتے ہی دائیں جانب بہت سی کھڑکیوں والی چار منزلہ عمارت ایک اسپتال کی ہے۔ گراؤنڈ فلور پر افس، او پی ڈی اور کیفے ٹیریا ہے۔ فرسٹ فلور پر لیبر روم اور پرائیویٹ وارڈ اور سیکنڈ فلور پر آئی سی یو اور جنرل وارڈ ہے۔ تھرڈ فلور کے بارے میں ہم آگے چل کر بتائیں گے۔ رومانہ نے ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب مکمل کیا ہی تھا کہ اسے اس اسپتال میں جاب مل گئی۔ اس نے اپنی چوائس پر الٹرنیٹ نائٹ ڈیوٹی لی تھی تاکہ دن میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز جاکر پوسٹ گریجویشن کی پڑھائی کرسکے۔

نائٹ ڈیوٹی میں شور شرابا اور کھچ کھچ نہیں ہوتی۔ سر پر کنسلٹینٹ کا ہوا اور ہاسپٹل اونر کا ڈنڈا بھی نہیں ہوتا۔ تمام اسٹاف ایک فیملی کی طرح جڑا ہوتا ہے۔ یہ بات دن کی ڈیوٹی میں نہیں ہوتی۔ رومانہ فرسٹ فلور اور لیبر روم سنبھالتی۔ ڈاکٹر افتخار سیکنڈ فلور اور ایمرجنسی دیکھتے اور ڈاکٹر سہیل آئی سی یو کے انچارج تھے۔ سیکنڈ فلور کے بعد اوپر جاتی سیڑھیاں ایک گرل پر ختم ہوتیں۔ اس گرل میں زنجیروں سے بندھا ایک بڑا سا تالا پڑا ہوتا جس کی چابی اس فلور پر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔

بلکہ فرسٹ فلور کے نرسنگ کاؤنٹر پر ہوتی۔ اس فلور پر سیریس psychiatric patients رکھے جاتے تھے جو اسپتال سے منسلک تین سائکاٹرسٹ کنسلٹنٹ کے انڈر کیئر ہوتے تھے۔ تھرڈ فلور پر چابی نہ رکھنے کی مصلحت یہ تھی کہ aggressive patient چابی جھپٹ کر تالا کھول سکتے تھے یا اسٹاف کو اس پر مجبور کر سکتے تھے۔ ان مریضوں کا escape خطرناک ہو سکتا تھا۔ اس رات لیبر روم خالی تھا۔ ڈاکٹر رومانہ نے جلدی سے راؤنڈ مکمل کیا اور اپنے کمرے میں آ کر کیفے ٹیریا کا نمبر گھمایا۔ دوسری طرف سے حسب معمول شاکر انکل کی شفیق آواز سنائی دی۔

”انکل کھانے میں کیا ہے“
آلو قیمہ بنا ہے ”
”کیسا بنا ہے“
”بالکل گھر جیسا“
گھر جیسا! پھر رہنے دیں۔ اسے حاجرہ کا بنایا ہوا پھیکا سیٹھا قیمہ یاد اگیا۔
”میرا مطلب ہے میرے گھر جیسا، تمھارے گھر جیسا نہیں“ انکل نے حاضر جوابی سے کہا۔

”اچھا چلیں دیکھتے ہیں آپ کے گھر کا قیمہ کیسا ہوتا ہے۔ چائے کھانے کے پندرہ منٹ بعد بھجوائیے گا۔“ اس نے فون کریڈل پر رکھا ہی تھا کہ بج اٹھا۔ اپریٹر نے بتایا شہزاد لائن پر ہے۔ شہزاد اس کا منگیتر تھا لائٹ ڈیوٹی کا سن کر بڑاخوش ہوا

”یعنی کہ لمبی بات ہو سکے گی“ اس نے چہک کر کہا

”جی نہیں، ایمرجنسی آتے دیر نہیں لگتی“ رومانہ نے ہوا میں ٹھینگا گھمایا تب ہی دودھیا شیشے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اسے اندازہ تھا اسٹاف الزبتھ ہوگی۔ الزبتھ شہزاد کے حوالے سے اسے بہت چھیڑتی تھی اس نے جلدی سے ریسیور کمبل میں چھپالیا لیکن الزبتھ کی جہاں دیدہ نگاہوں نے تاڑ لیا کہ ریسیور کریڈل پر نہیں ہے بلکہ رومانہ کے گھنگریالے بالوں کی لٹ کی طرح کا تار کمبل کے نیچے غائب ہو رہا ہے۔ ”ہوں! تو شہزاد صاحب لائن پر ہیں“ وہ شرارت سے مسکرائی لیکن آج چھیڑنے کا ٹائم نہیں تھا۔ وارڈ فل تھا اور بہت کام باقی تھا۔

” میں یہ کہنے آئی تھی کہ کھانا ہمارے ساتھ کھائیے گا۔ عالی جاہ ملا نہاری سے مغز نہاری لایا ہے ساتھ میں چلغوزے بھی۔“

تمام ہسپتالوں کی طرح یہاں بھی نائٹ شفٹ کا نرشنگ اسٹاف گیارہ بارہ بجے مل کر کھانا کھاتا۔ عالی جاہ جونیر میل نرس تھا۔ ڈیوٹی پر آتے ہوئے کبھی ملا نہاری، کبھی گولڈن گیٹ اور کبھی فائیو سٹار سے لذیذ اور اشتہا انگیز کھانے لیتا آتا۔

ابھی سب کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ کاؤنٹر پر لگے ہوئے کمرہ نمبر 116 کا بلب بلنک کرنے لگا۔ کمرہ نمبر 116 میں مسٹر مکرم کافی عرصے سے ایڈمٹ تھے۔ وہ جگر کے کینسر کی آخری اسٹیج پر تھے اور palliative and nursing care کے لئے داخل تھے۔ موت کی الٹی گنتی گننا کس قدر کربناک ہوتا ہے یہ وہی جان سکتا ہے جس کا کوئی عزیز اس کٹھنائی سے گزرا ہو۔ مسٹر مکرم ایک زندہ دل آدمی تھے موت کے خوف کا پائتھون بظاہر انہیں جکڑ نہیں سکا تھا۔

وزیٹنگ آورز میں ان کے کمرے میں جھمگھٹا لگا ہوتا۔ بچوں کے بچے ان کے سامنے اپنے وہ مسائل رکھتے جو وہ اپنے ماں باپ سے نہیں کہہ پاتے۔ اور مسٹر مکرم انہیں چٹکی بجاتے حل کردیتے۔ رومانہ نے کئی رشتے اسپتال کے اس کمرے میں طے ہوتے دیکھے۔ رات کو عموماً ملازم ان کے ساتھ ہوتا مگر ویک اینڈ پر ان کا بیٹا ہوتا۔ اج بھی سٹرڈے نائٹ تھی۔ ڈاکٹر رومانہ ایڈ نرس ٹریسا کو لے کر کمرہ نمبر 116 کی طرف روانہ ہوئی۔ ایڈ نرس باقاعدہ نرسنگ اسکول سے ڈگری یافتہ نہیں ہوتی بلکہ کسی ہسپتال میں سینئر اسٹاف کی سپروژن میں پریکٹیکل کام سیکھ لیتی ہے۔ پرائیویٹ اسپتال کے مالک انہیں کم تنخواہ پر ہائر کرتے ہیں۔ ٹریسا کو اس اسپتال میں دو سال ہوچکے تھے اور اسٹاف الزبتھ کے ساتھ وہ کافی کام سیکھ چکی تھی۔

روم نمبر 116 کے اٹینڈنٹ نے بتایا کہ مسٹر مکرم کو ہچکی پریشان کر رہی ہے اور وہ سو نہیں پارہے۔ ہچکی ڈایافرام (پردہ شکم ) کے involuntary spasm کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب ڈایافرام اچانک سکڑتا ہے تو ووکل کارڈ پھٹ سے بند ہو جاتے ہیں۔ اس snap shut سے ہچکی کی مخصوص آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مگر مسٹر مکرم کے کیس میں سرطان گزیدہ جگر (terminal stage liver cancer) ڈایا فرام کو irritate کر رہا تھا۔

بدقسمتی سے اس کا کوئی مستقل حل نہیں تھا بس وقتی علاج ٹرائے کیا جاسکتا تھا جو کامیاب یا ناکام ہو سکتا تھا۔ ڈاکٹر رومانہ نے ان کا معائنہ کیا اور ایک انجکشن پریسکرایب کیا۔ ٹریسا نے انجکشن لگا دیا۔ رومانہ اپنے کمرے میں چلی ائی۔ رات کا ایک بج گیا تھا۔ وہ اپنی کتابیں نکال کر پڑھنے لگی ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ کمرہ نمبر 116 سے پھر کال آئی۔ مسٹر مکرم کی ہچکی نہیں رکی تھی رومانہ نے تجویز کیا کہ وہ پلاسٹک بیگ کے اندر ناک اور منہ ڈال کر سانس لیں۔

اس طریقے میں مریض اپنی خارج کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ دوبارہ انہیل کرتا ہے ڈایافرام کی فرینک نرو سکون میں آتی ہے اور ہچکی رک جاتی ہے بدقسمتی سے یہ تدبیر بھی کارگر نہیں ہوئی تب اس نے مکرم صاحب کے گلے کی دیوار کو اسٹک سے رب کیا یوں vagus nerve stimulation بھی ہچکی روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے مگر افسوس یہ اسٹریٹجی بھی ناکام ہو گئی۔ اس نے آئی سی یو کے ڈاکٹر سہیل کو کال کیا لیکن وہ بہت بزی تھے۔ مشہور ٹی وی آرٹسٹ سنگھار کے والد کو ایک میڈیسن سے anaphylactic reaction ہوا تھا اور وہ تشویشناک حالت میں لائے گئے تھے ڈاکٹر سہیل انہیں intubate کر رہے تھے تاکہ وینٹیلیٹر پر ڈال سکیں۔ رات کے چار بج رہے تھے کنسلٹنٹ فزیشن کو اس وقت اس لیے کال کرنا کہ مریض کی ہچکی کنٹرول نہیں ہو رہی، صلو بھائی کے غیض و غضب کو دعوت دے سکتا تھا۔

ٹھہریے صاحب! روانی میں صلو بھائی نکل گیا اصل میں ان کا نام ڈاکٹر صلاح الدین تھا۔ سارا اسٹاف ان کی پیٹھ پیچھے انہیں صلو بھائی پکارتا۔ اوروں کا تو نہیں پتہ مگر رومانہ کا انہیں صلو بھائی پکارنا بنتا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے سے پندرہ سال چھوٹی رومانہ کی کلاس فیلو صائمہ سے شادی کی تھی۔ ہاں تو صاحب رومانہ کی۔ existing medical expertise تمام ہو گئی اور مسٹر مکرم کی ہچکی نہ تھمی۔ اب مریض ہلکان، اٹینڈنٹ پریشان اور جونیر ڈاکٹر روہانسی۔ اچانک اس نے مکرم صاحب کے بیٹے سے سرگوشی میں کہا

”ان کے کوئی قریبی عزیز دور ہیں کیا“ ،
”جی میرے دو بھائی اسلام آباد میں ہوتے ہیں“
”آپ انہیں بلوا لیجیے“ رومانہ نے سنجیدگی سے کہا۔ یہ سن کر تو اٹینڈنٹ حواس باختہ ہو گیا
”خیریت ہے نا ڈاکٹر صاحب“

”ہاں خیریت ہے۔ دراصل آپ کے بھائی انہیں یاد کر رہے ہوں گے نا اس لئے ان کی ہچکی نہیں تھم رہی۔ وہ آ کر مل لیں گے تو شاید۔

ٹریسا اتنی تیزی سے دروازہ کھول کر کاریڈور میں دوڑی گویا اسے قے آ گئی ہو۔ وہ ایک لمحہ اور رکتی تو قہقہہ روکنا ممکن نہ رہتا۔ کاؤنٹر پر پہنچ کر الزبتھ کے سامنے دوہری ہو کر وہ ہنستی چلی گئی۔ الزبتھ نے آواز لگائی ”عالی جاہ تھرڈ فلور کی چابی لانا ٹریسا کو ایڈمٹ کرنا ہے“ ،

”منظور ہے۔ لیکن میری فایل پر لکھا ہو انڈر کئر آف ڈاکٹر رومانہ“ ٹریسا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

اللہ اللہ کر کے ڈاکٹر سہیل فارغ ہوئے اور انہوں نے مسٹر مکرم کے لئے ایک اور انجکشن تجویز کیا جس کے بعد وہ سکون سے سو گئے۔ اگلی صبح ہاسپٹل اونر کے دربار میں رومانہ کی حاضری تھی اس نے ایکسکیوز کیا اور وعدہ کیا کہ آئندہ نان پروفیشنل ایٹیٹیود نہیں اپنائے گی۔

اگلی ڈیوٹی پر 116 نمبر کمرہ خالی تھا مسٹر مکرم کی ہچکیاں موت کی ہچکیاں ثابت ہوئیں۔ رومانہ کا دل بوجھل ہو گیا۔ نرسنگ کاؤنٹر پر ٹریسا کی آنکھیں بھی سرخ تھیں اس نے سوچا کہ مسٹر مکرم کی موت پر آبدیدہ ہے لیکن معلوم ہوا کہ ٹریسا کے آنسوؤں کی وجہ کچھ اور ہے۔ نام نہاد محبت کے جھانسے میں آ کر وہ اپنی عصمت گنوا بیٹھی تھی آنسوؤں کو بے دردی سے ہتھیلی سے پونچھتے ہوئے اس نے کہا ”عزت کی حفاظت کرنا کتنا مشکل ہے ناں ڈاکٹر رومانہ“ اور رومانہ اس سے کہہ نہ پائی کہ اگر بنیادی مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی اصولوں پر کاربند رہا جائے اور انہیں قید و بند نہ سمجھا جائے تو اتنا مشکل بھی نہیں۔

بس ٹریسا کو گلے لگائے ہولے سے اس کی پشت سہلاتی دہی۔ تب ہی اس کی پشت کے پیچھے سے عالی جاہ لداپھندا آتا دکھائی دیا۔ الزبتھ بولی ”عالی جاہ تمہیں کیسے پتہ چلا آج ڈاکٹر رومانہ کی سالگرہ ہے“ اور ٹریسا کو جیسے اپنا غم یاد ہی نہیں رہا جلدی سے سیدھی ہو کر بیٹھی اور کہنے لگی ”ہائے اللہ مجھے کیوں نہیں پتہ تھا کہ آج ڈاکٹر رومانہ کی سالگرہ ہے“ اس نے جلدی سے کیفے ٹیریا کا نمبر گھمایا ”انکل ایک اچھا سا کیک بھجوا دیں ڈاکٹر رومانہ کی سالگرہ ہے“ شاکر انکل نے کہا بھئی ڈاکٹر رومانہ کی سالگرہ ہے تو کیک ہماری طرف سے ہوگا۔ کتنے بجے بھیجوں

”وہی ساڑھے گیارہ تک“ ۔ ٹریسا نے کہا
”آج لیبر روم میں پیشنٹ ہے۔ رومانہ نے یاد دلایا۔
”فارغ ہوجائیں گے اس وقت تک۔ ٹریسا نے یقین سے کہا۔

وارڈ کا راؤنڈ ختم کر کے وہ لیبر روم چلی آئی مڈ وائف سعیدہ پیشنٹ کے ساتھ تھی مریضہ درد سے کراہ رہی تھی۔ ابسٹیٹرکس دنیا کا واحد شعبہ ہے جہاں درد نہ ہونے پر تشویش ہوتی ہے اور جہاں رونے کو سیلیبریٹ کیا جاتا ہے (ماں اور بچہ بالترتیب) تخلیق میں مرد وعورت دونوں شراکت دار ہوتے ہیں مگر درد صرف عورت کو سہنا پڑتا ہے۔ رومانہ نے labour analgesic آفر کیا لیکن مریضہ کی ساس نے منع کر دیا ”یہ درد تو ہر عورت سہتی ہے شہزادی ڈیانا نے بھی نارمل ڈیلیوری میں سہے ہوں گے ۔

ان کی رائے تھی کہ لیبر پین سہنے کے بدلے عورت کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بھی تشویش تھی کہ analgesic سے درد ختم ہو گیا تو ڈیلیوری کیسے ہوگی۔ حلانکہ یہ سب باتیں جہالت پر مبنی ہیں۔ گناہ بخشوانے کے اور طریقے بھی ہیں ورنہ مرد تو سیدھے جہنم میں ہی جاتے۔ درد دور کرنے کا انجکشن صرف درد کا احساس دور کرتا ہے اس کا درد کی موجودگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا نہ ہی ڈیلیوری کے پراسس میں رکاوٹ ڈالتا ہے شہزادی ڈیانا کے ملک میں epidural analgesia دے کر درد سے بے نیاز کر دیا جاتا ہے ہمارے ملک میں یہ عام نہیں اور اس کے متعلق بہت سے غیر ضروری تحفظات ہیں۔

خوش قسمتی سے مریضہ کا لیبر تیزی سے انجام کو پہنچا اور اس کی کلفت ننھے سے گلگلے بچے کو دیکھ کر راحت میں بدل گئی۔ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ٹریسا اسے لینے چلی ائی تھی۔ وہ اور مڈ وائف سعیدہ نرسز کے ٹی روم میں چلے آئے ڈاکٹر سہیل ڈاکٹر افتخار، شاکر انکل اور عالی جاہ پہلے سے موجود تھے۔ ایک چھوٹا سا کیک ٹیبل پر رکھا تھا الزبتھ موم بتیاں لئے کھڑی تھی

”کتنی لگاؤں“ اس نے شرارت سے پوچھا
”اتنے سارے مردوں کے بیچ میں عمر پوچھنا ڈیسنٹ نہیں ہے الزبتھ“
”اچھا چلو میں بس ایک لگا دیتی ہوں۔ بجھانے میں وقت نہیں لگے گا۔ لوگ بھوک سے بیتاب ہو رہے ہیں۔“

اور پھر کیک کٹنگ کے بعد کھانے کا دور چلا۔ کھا نے کے دوران ایک سوال مسلسل رومانہ کے دماغ میں کلبلاتا رہا۔ عالی جاہ کی تنخواہ اتنی نہیں پھر یہ روزانہ کے اللے تللے کیونکر ممکن ہیں۔ اخر جب سب لوگ چلے گئے تو سوال لبوں پر اہی آ گیا وہ کچھ دیر کو چپ رہا پھر کہنے لگا۔

” ڈاکٹر صاحب میری ماں نے میرا نام عالی جاہ اس لئے رکھا تھا کہ میں اونچی شان والا کہلاؤں، بڑا آدمی بنوں۔ ماؤں کو ایسے اونچے نام نہیں رکھنے چاہئیں مستقبل کے اندھے کنویں میں کیا ہے کس کو پتہ۔ میرے باپ نے میری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیا اس وقت مجھے ابا کہنا بھی نہیں آتا تھا میری ماں نے سلائی مشین چلا کر مجھے پالا پر بڑا آدمی نہ بنا سکی اونچی شان والا نہ بنا سکی۔“ ۔ رومانہ نے کہا ”تم اپنی ماں کا خواب پورا کر سکتے ہو۔ ائی سی یو اسپشلسٹ نرس کی ڈگری حاصل کرو یورپ میں بڑی ڈیمانڈ ہے اس کی۔ لیکن میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے تم یہ روزانہ کی فضول خرچی کیوں کرتے ہو اور کیسے افورڈ کرتے ہو۔“

”کیوں کرتا ہوں! اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت میں خود کو اونچا محسوس کرتا ہوں“ اور کیسے افورڈ کرتا ہوں۔ وہ رک گیا پھر اس نے ایک لمبی سانس لی جیسے لمبی دوڑ سے پہلے لمبا قدم اٹھایا جاتا ہے اور کہنے لگا

”I revere you Dr roomana .can not lie .

میں شراب اور چرس سپلائی کرتا ہوں موتن داس سے مال اٹھا کر گاہکوں کے گھر تک پہنچانا ہوتا ہے اس کے مجھے اچھے خاصے پیسے مل جاتے ہیں۔ ”

چھی۔ رومانہ ایسے پیچھے ہٹی جیسے shit پر اس کا پاؤں پڑ گیا ہو۔ ”آئندہ میں کبھی اس حرام کے لقمے میں شریک نہیں ہو سکتی“ اس نے سعیدہ کو آواز دی اور لیبر روم کی طرف بڑھتی چلی گئی۔

اگلے کچھ روز عالی جاہ ڈیوٹی پر نہیں آیا۔ پھر جس دن وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں کھانے کے بڑے بڑے لفافوں کی بجائے کاغذ کی چھوٹی سی تھیلی تھی۔ وہ سیدھا رومانہ کی طرف آیا اور کاغذ کی تھیلی اس کی طرف بڑھائی۔ رومانہ نے روکھے پن سے کہا

”میں حرام کا ایک دانہ بھی اپنے اوپر حرام سمجھتی ہوں“ عالی جاہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں وہ رندھی ہوئی آواز میں بولا

”پلیز منع مت کیجئے یہ مونگ پھلیاں میں حرام کے پیسوں سے نہیں لایا خالص حلال کمائی سے لایا ہوں۔ امی کی محنت کی کمائی سے۔ میں آئندہ وہ کام نہیں کروں گا میں آئی سی یو نرسنگ میں اسپیشلائز کروں گا یورپ جاؤں گا۔ اور پھر اچانک اپنی کہنی آنکھوں پر رکھ کر وہ بھوں بھوں رونے لگا۔ جانے کیوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments