بے بس ہڈیاں، بے شناخت کھوپڑیاں!


انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی بخشا گیا ’انسان کے اندر ایسی خوبیاں ہوں کہ وہ مخلوق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور بمطابق فلسفہ حیات ”کون اچھے عمل کر کے آتا ہے“ تو افضل ہے‘ بصورت دیگر حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔ انسان کی کتنی طاقت ہے وہ کیا کر سکتا ہے ؛ ایک نظر مردہ انسانوں کی ایسی سرنگیں جہاں مرے ہوئے انسانوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں ہوں۔ یا آپ اس کو انسانوں کا ایسا قبرستان کہہ سکتے ہیں جس میں زندہ انسان خود اتر کر ان ہڈیوں کو دیکھ یا چھو سکتا ہو۔

دنیا میں بہت سارے کیٹاکومب موجود ہیں لیکن پیرس کا کیٹاکومب کافی مشہور ہے۔ اس کیٹا کومب میں کم و بیش ستر لاکھ مردے موجود ہیں۔ اس سرنگ میں بہت سے غار نما گڑھے ہیں جن کے مجموعی لمبائی 200 کلومیٹر کے قریب ہے، ان غاروں کی دیواروں میں چنی ہوئی انسانی ہڈیاں اور سوختہ کھوپڑیاں ہیں۔ پیرس کا کیٹا کومب ایک زندہ قبرستان ہے جس کی دیواریں انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بنی ہوئی ہیں ’جہاں سیاح ہڈیوں کو چھو کر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ جس طرف دیکھیں ہڈیوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان پر موت کے لرزتے سائے دکھائی دیتے ہیں اور ان سایوں کے درمیان میلوں لمبے غار ہیں یہ دنیا کا دوسرا بڑا کیٹا کومب یعنی زیر زمین قبرستان ہے۔

کیٹا کومب کا تصور یہودیوں سے آیا اور یہودیوں نے یہ آرٹ مصری فرعونوں سے سیکھا۔ مصر کے قدیم باشندے مردوں کو دفن نہیں کرتے تھے، وہ زمین میں غار تلاش کرتے تھے اور اپنے مردوں کو ان غاروں میں چھوڑ آتے تھے۔ اہرام مصر بھی کیٹا کومب تھے۔ یہ شاہی مردہ خانے تھے ’بادشاہ عام لوگوں کے ساتھ دفن ہونا اپنی توہین سمجھتے تھے۔ یہ اپنے لئے الگ غار تلاش کرتے تھے اور اس غار پر اہرام تعمیر کرا دیتے تھے جبکہ عام لوگ عام غاروں میں دفن ہوتے تھے۔

عیسائی عقیدے کے مطابق عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی صلیب سے اتار کر ایک غار ہی میں چھوڑ دیا تھا اور ان کا جسم اطہر بعد ازاں اس غار سے غائب ہو گیا تھا۔ عیسائی زائرین آج بھی یوروشلم کے اس غار کی زیارت کے لئے جاتے ہیں‘ کیونکہ یوروشلم شہر کے نیچے آج بھی میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور اس زیر زمین قبرستان میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں پڑی ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا کیٹا کومب روم شہر کے نیچے ہے۔ یہ چھ ہزار سال پرانا ہے اور یہ 375 میل لمبا ہے اور یہاں 80 سے 90 لاکھ لوگوں کی باقیات رکھی ہیں ’جبکہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مشہور کیٹا کومب پیرس میں ہے۔ تیسرا بڑا کیٹا کومب مصر کے شہر سکندریہ کے نیچے ہے۔ یہ تین منزلہ ہے اور ان تین منزلوں میں درجوں کے مطابق مردے دفن ہیں۔ امیر اور بارسوخ لوگ پہلی منزل پر پڑے ہیں‘ دوسرے درجے میں ’دوسرے درجے کے مردے ہیں اور تیسرے درجے میں تیسرے درجے کے مردے حشر کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ کیٹا کومب 1900 ء میں اس وقت دریافت ہوا جب ایک گدھا گڑھے میں گر گیا‘ لوگ گدھے کو نکالنے کے لئے گڑھے میں اترے اور پھر اس شہر میں نکل گئے جس میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں ان کی منتظر تھیں۔ چوتھا سب سے بڑا کیٹا کومب گاڈ فادر کے سسلی کے شہر پولرمو میں ہے۔ یہ 16 ویں صدی میں دریافت ہوا اور اس میں بارہ ہزار لوگوں کی ہڈیاں پڑی ہیں۔ اسی طرح مالٹا میں چوتھی سے نویں صدی کا کیٹا کومب بھی موجود ہے۔ ویانا شہر کے سینٹ سٹیفن کیتھڈرل کے نیچے بھی میلوں لمبا کیٹا کومب ہے۔

اور چیک ری پبلک کے شہر برونو میں دنیا کا ساتواں بڑا کیٹا کومب ہے، اس میں 50 ہزار مردے اپنے حساب کا انتظار کر رہے ہیں۔ یوکرائن کے شہر اوڈیسا کے نیچے اڑھائی ہزار کلومیٹر لمبے غار ہیں اور ان غاروں میں بھی کئی کیٹا کومب موجود ہیں۔ پیرس اوڈیسا سے 2138 کلومیٹر دور ہے ’جبکہ اوڈیسا شہر کے نیچے 2500 کلو میٹر لمبا کیٹا کومب ہے۔ یوکرائن کی حکومت نے 1995 ء میں چند لوگ ان غاروں میں اتارے۔ یہ لوگ مسلسل 27 گھنٹے چلتے رہے اور انہوں نے صرف 40 کلومیٹر سفر طے کیا۔

2005 ء میں چند نوجوانوں نے اسی کیٹا کومب میں نیو ائر پارٹی کا بندوبست کیا۔ پارٹی کے دوران ماشا نام کی ایک لڑکی راستہ بھٹک گئی‘ اور ناجانے کہاں غائب ہو گئی۔ پولیس کو اس کی لاش تلاش کرنے کے لئے دو سال لگ گئے۔ یوکرائن کے کیٹا کومب کا درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے چنانچہ وہاں آج بھی سینکڑوں سال پرانی لاشیں اصل حالت میں موجود ہیں اور سائنس دان تحقیق کے لئے عموماً یہاں سے نمونے حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن پیرس کا کیٹا کومب ان تمام کیٹا کومبز کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔

پیرس شہر کے نیچے لائم سٹون کا وسیع ذخیرہ تھا ’یہ شہر پانی کے دور میں سمندر کے نیچے تھا‘ 64 ملین سال پہلے لائم سٹون کے اس ذخیرے میں غار بن گئے اور ان غاروں میں لوگوں نے رہنا شروع کر دیا۔ یہ غار لاکھوں سال تک انسانوں کی رہائش گاہ رہے۔ انسان پھر ان غاروں سے نکلا اور اس نے یہاں شہر آباد کرنا شروع کر دیا۔ عمارت سازی کے دور میں پیرس کے لوگوں نے ان غاروں سے لائم سٹون نکالنا شروع کر دیا۔ یہ پتھر عمارت سازی اور قلعہ سازی میں کام آنے لگا ’شہر بن گیا‘ لوگوں نے اس شہر میں رہنا شروع کر دیا۔

قدیم زمانے کے یہ شہری زیر زمین غاروں میں مردے دفن کرنے لگے۔ یہ غار حملہ آوروں کے حملوں کے دوران شہریوں کے لئے پناہ گاہ بن جاتے تھے ’یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 1763 ء آ گیا۔ شہر میں قبرستان بڑھ گئے‘ مردے دفن کرنے کی جگہ کم ہو گئی چ۔ حکومت نے ان غاروں کو مردہ خانہ بنانے کا فیصلہ کیا لیکن پادریوں نے مخالفت شروع کر دی۔ 1780 ء میں پیرس میں خوفناک بارشیں ہوئیں ’بارشوں نے قبرستان تباہ کر دیے اور مردوں کی ہڈیاں شہر میں تیرنے لگیں‘ اس سے وبائیں پھوٹنے لگیں۔

بادشاہ نے خصوصی اختیارات استعمال کیے اور یہ تمام ہڈیاں جمع کر کے غاروں میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔ یوں 1786 ء میں کیٹا کومب بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ 1859 ء تک جاری رہا۔ اس دوران انقلاب فرانس آیا ’اس انقلاب کے دوران لاکھوں لوگ قتل ہوئے، ان لوگوں کی لاشیں بھی کیٹا کومب میں دفن کی گئیں اور یوں کیٹا کومب کے خزانے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

بیسویں صدی کے شروع میں ان غاروں کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا۔ مقامی گائیڈ مشعلوں کی روشنی میں لوگوں کو غاروں میں لے کر جاتے تھے اور انہیں ہڈیوں کا ڈھیر دکھاتے تھے ’اس دوران بے شمار سیاح ان غاروں میں گم بھی ہو گئے اور ان پر بعد ازاں ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں بھی بنیں۔ ان گم شدہ لوگوں میں برطانیہ کے 25 سیاحوں کا ایک گروپ بھی شامل تھا۔ یہ لوگ غار میں اترے اور اس کے بعد سورج کی روشنی نہ دیکھ سکے‘ ان کے ساتھ کیا ہوا ’وہ کہاں چلے گئے‘ کوئی نہیں جانتا۔

یہ 1903 ء کا واقعہ ہے لیکن لوگ آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ غار 200 کلومیٹر طویل ہیں ’ان کا صرف ایک میل اور 200 میٹر لمبا حصہ سیاحوں کے لئے کھولا گیا ہے۔ 130 سیڑھیاں اتر کر غار میں اترتے ہیں اور چار فٹ چوڑے اور چھ فٹ اونچے غار میں تقریباً ایک کلومیٹر سفر کرتے ہیں اور پھر اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں تین اطراف ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے انبار لگے ہیں۔ اس جگہ غار کی دیواریں ہڈیوں سے بنی ہی‘ ہڈی کے اوپر ہڈی اور کھوپڑی کے اوپر کھوپڑی رکھی ہے اور انہیں دیکھ کر دل انسانی طاقت کا بخوبی اندازہ ہوتا ’بقول اقبال ؒخاک مٹھی میں لیے قبر کی یہ سوچتا ہوں‘ انسان جو مرتے ہیں تو غرور کہاں جاتا ہے ’یہ لوگ بھی کبھی زندہ ہوتے ہوں گے‘ یہ بھی ڈرتے ہوں گے ’یہ بھی زندگی اور زندگی کے تقاضوں کے لئے لڑتے ہوں گے اور انہیں حسد بھی محسوس ہوتا ہو گا اور رشک بھی‘ یہ لالچ میں بھی آتے ہوں گے اور انہیں انا بھی ڈنک مارتی ہو گی ’ان میں بدمعاش بھی ہوں گے‘ پہلوان بھی ’بزرگ بھی‘ بچے بھی ’عاشق بھی‘ معشوق بھی ’امیر بھی‘ غریب بھی ’کمزور بھی‘ طاقتور بھی ’ظالم بھی‘ مظلوم بھی ’اوپر والے ہاتھ کے مالک بھی اور پھیلے ہاتھوں کے بے بس لوگ بھی‘ ہماری طرح دندناتے بھی ’مغرور بھی‘ انسانوں کو ہیچ سمجھنے والے بھی ’یہ بے بس ہڈیاں اور بے شناخت کھوپڑیاں بن کر یہاں پڑے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments