زرداری سب سے زیادہ کس پر بھاری


پی ڈی ایم کے اجلاس میں زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی نے حسب روایت استعفوں کے معاملے پر پیٹھ دکھائی اور کسی کے پیٹھ تھتھپانے پر پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں اس پی پی نے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق تماشا لگانے کی کوشش کی جس نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سب سے زیادہ فوائد اور ثمرات تھے۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس، سانحۂ کارساز اور بینظیر شہید کے یوم کی تمام تقریبات پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے منائی گئیں۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کروایا گیا۔ پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کسی اور کی نہیں پی پی کی اپنی غفلت اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے وہ چیئرمین بنتے بنتے رہ گئے۔

پی ڈی ایم کے بننے سے پہلے ایک پیج والی ہائیبرڈ حکومت نے ساری اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا تھا۔ فاشزم کا دور دورہ تھا۔ نون لیگ اور پی پی کی مرکزی قیادت پابند سلاسل تھی یا مختلف مقدمات کا سامنا کر رہی تھی۔ میڈیا پر کسی اپوزیشن رہنما کا بیان چلانے اور تصویر دکھانے پر پابندی تھی۔ تمام میڈیا کسی کے حکم پر ”مثبت رپورٹنگ“ پر مجبور تھا۔ ان دیکھا مارشل لا نافذ تھا۔ خوف و ہراس کی فضاء مسلط تھی۔ بادشاہ گروں نے جادو کی چھڑی گھماتے ہوئے یہ نادری حکم جاری کر دیا تھا کہ نہ صرف یہ پانچ سال بلکہ اگلے پانچ سال بھی کپتان کے ہیں۔ کسی نے چوں چرا کی تو اس کی خیر نہیں۔ تمام ادارے ہاتھ دھو کر اپوزیشن کے پیچھے پڑے تھے۔

پھر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی کاوشوں سے پی ڈی ایم کی شکل میں ایک توانا اپوزیشن اتحاد قائم ہوا۔ ہر طرح کے خطرات کو مول لے کر جلسے جلوسوں اور احتجاجی دھرنوں کا انعقاد کیا گیا۔ رہنماؤں نے اپنی جاندار تقریروں سے عوامی بیداری کی لہر پیدا کر لی۔ خاص طور پر نواز شریف، مولانا اور مریم نواز نے اپوزیشن کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی۔ پی ڈی ایم کے فعال اور متحرک کردار کی وجہ سے نہ صرف سیاسی ماحول میں شدت اور حدت پیدا ہوئی بلکہ اپوزیشن اتحاد نے ضمنی الیکشن میں تقریباً تمام سیٹوں پر حکومت وقت کو عبرت ناک شکست دی۔

پی پی نہ صرف پی ڈی ایم اتحاد کی مرکزی پارٹی تھی بلکہ تینوں بڑی پارٹیوں کی مرکزی قیادت ہمہ وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہتی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ طے شدہ تھا بلکہ بلاول بھٹو نے استعفوں کو ایٹم بم سے بھی تعبیر کیا تھا۔ اگرچہ بینظیر کی شہادت کے بعد سے پی پی نے مزاحمتی کے بجائے مفاہمتی سیاست کا آغاز کر کے اسٹیبشلنٹ کی حمایت کا ڈھول گلے میں ڈال دیا تھا۔ کسی حد تک سب کو اندازہ تھا کہ پی پی پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے مگر زرداری اور بلاول نے کبھی نواز شریف یا مولانا سے اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ ماضی قریب میں پی پی کو اس بری طرح نون لیگ کے خلاف استعمال کیا گیا تھا کہ سب نے عمران زرداری بھائی بھائی کے نعرے لگانا شروع کر دیے تھے۔ اس کے باوجود نواز شریف نے دونوں جماعتوں کے ماضی کو دفن کر کے جمہوریت و آئین کی بالادستی کے لیے آگ بڑھنے کا اصولی فیصلہ کیا تھا۔

مگر جو رویہ پی ڈی ایم کے آخری اجلاس میں زرداری صاحب کی طرف سے اپنایا گیا اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ زرداری صاحب پر اگر کہیں سے کوئی دباؤ تھا تو وہ اجلاس میں تماشا لگانے کے بجائے مولانا یا نواز شریف کو آگاہ کر سکتے تھے۔ چپکے سے اپنی مجبوری بتا سکتے تھے۔ وہ جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے لیے اگر واقعی نواز شریف کی وطن واپسی کو ضروری سمجھتے تھے تو نواز شریف سے کتنی ہی بار گفتگو کے دوران انہیں بتا سکتے تھے۔ پی ڈی ایم کے اہم ترین اجلاس کے آغاز ہی میں استعفوں کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کرنا اور پھر اجلاس کی خبریں لیک کروا کر میڈیا میں ان کی تشہیر کرنے کے ناٹک کی کیا ضرورت تھی؟ انہیں نواز شریف سے کوئی شکوہ تھا بھی تو وہ براہ راست ان سے یا مریم نواز یا ن کی قیادت کو بتا سکتے تھے۔ بقول شاعر

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

میرا تو خیال ہے کہ ڈھنگ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے تماشا لگانے اور سارے معاملے کا تماشا بنانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ پی پی نے مستقبل میں پی ڈی ایم کا حصہ رہنے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ پی پی کی پارلیمانی طاقت اپنی جگہ مگر لانگ مارچ اور دھرنے کی کامیابی کے لیے پی پی کی شرکت قطعی ضروری نہیں۔ اول تو وہ پہلے ہی دھرنے کے خلاف تھی اور دوسرا اس کی شرکت محدود اور علامتی ہوتی۔ مولانا کا لانگ مارچ کے تعطل کا فیصلہ بھی نہایت جذباتی اور عجلت میں کیا گیا فیصلہ ہے۔ وکلاء تحریک اگر پی پی کی شرکت کے بغیر کامیاب ہو سکتا ہے تو نو جماعتیں مل کر یہ والا لانگ مارچ اور دھرنا کیوں کامیاب نہیں کر سکتیں۔

ن لیگ، مولانا اورپی ڈی ایم اور تمام قیادت کو اب سر جوڑ کے سوچنا ہو گا کہ کیا انہیں اس شخص کے وعدوں پر اعتبار کرنا چاہیے ، جس نے کچھ سال پہلے کہہ مکرنیوں کا نیا ریکارڈ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے جنہیں پورا کیا جانا ضروری ہو؟ اور جب جنرل کیانی کا حکم آیا تو اسی زرداری نے ججز بحالی کے حوالے سے کسی سیاسی جماعت سے رسمی مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔

اللہ اللہ! یقین نہیں آتا کہ یہ وہی جیالی پیپلز پارٹی ہے جو چند سال قبل سب سے بڑی اور مؤثر مزاحمتی پارٹی سمجھی جاتی تھی مگر آج اس کی یوں کایا پلٹی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ ابرو کی منتظر رہتی ہے۔ جس پارٹی کو بڑے بڑے جنرل کمزور نہیں کر سکے،  آج زرداری صاحب نے اپنی ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے اسے ایک صوبے تک محدود کر دیا ہے۔ زرداری کسی اور پر بھاری ہوں نہ ہوں پیپلز پارٹی پر ضرور بھاری پڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments