’جل پریوں‘ کے ہاتھ کی بنی ڈھاکے کی ململ کہاں گئی؟


ڈھاکے کی ململ

تقریباً دو سو برس پہلے ڈھاکے کی ململ کا شمار دنیا کے سب سے مہنگے کپڑوں میں ہوتا تھا۔ پھر سب اسے بھول گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیا ہم اسے واپس لا سکتے ہیں؟

اٹھارہویں صدی کے اواخر کے یورپ میں ایک نئے فیشن نے ایک بین الاقوامی سکینڈل کو جنم دیا۔ در اصل ایک پورے سماجی طبقے کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ لوگوں کے سامنے برہنہ پھرتا ہے۔

سارا قصور ڈھاکے سے درآمد شدہ ململ کا تھا۔ یہ انتہائی بیش قیمت کپڑا تھا جو ڈھاکہ میں، جو اب بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے، تیار ہوتا تھا۔ یہ شہر اُن دنوں بنگال کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ململ آج کی طرح نہیں تھی۔ بلکہ یہ 16 مراحل میں ایک ایسے نایاب پودے سے تیار کی جاتی تھی جو صرف دریائے مہگنا کے کنارے اگتا تھا۔ یہ ململ اپنی دور میں نہایت بیش قیمت تصور کی جاتی تھی۔ اسے ہزاروں سال سے عالمی سرپرستی حاصل تھی۔ قدیم یونان میں اسی سے دیویوں کا پہناوا بنایا جاتا تھا۔ دور دراز ملکوں کے بادشاہ اور مغلیہ شاہی خاندان کی کئی نسلوں نے اسے زیب تن کیا۔

اس کی کئی اقسام تھیں مگر سب سے نفیس قسم کو ایک درباری شاعر نے ‘بافت ہوا’ یعنی بُنی ہوئی ہوا کا خطاب دیا تھا۔

ڈھاکے کی ململ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ہوا کی طرح ہلکی اور ملائم ہے۔ ایک سیاح کے بقول یہ اس قدر باریک اور نرم ہوتی تھی کہ 91 میٹر کا تھان انگوٹھی میں سے با آسانی گزر جاتا تھا۔ ایک دوسرے نے لکھا کہ 18 میٹر کا تھان بڑے آرام سے ماچس کی ڈبیہ میں سما سکتا تھا۔

ڈھاکہ کی ململ شفاف ہونے سے کچھ بڑھ کر تھی۔

روایتی طور پر یہ بیش قیمت کپڑا ساڑھیاں اور چوغے بنانے کے لیے استعمال ہوتا تھا، مگر برطانیہ میں اس نے اشرافیہ کا سٹائل بدل کر رکھ دیا اور جارجین دور کے رسمی اور پرُ تکلف ملبوسات کے فیشن کو چلتا کیا۔

اس نئے کپڑے پر طنز کرتے ہوئے آئزک کروِکشانک نے ایک فکاہیہ تصویر میں ایک عورت کو ململ کا لباس پہنے دکھایا ہے جس میں اس کے نسوانی خد و خال نمایاں ہیں۔ نیچے تحریر ہے: ‘پیرس کی بیگمات سنہ 1800 کے سرمی لباس میں’۔ اسی طرح ایک میگزین میں ایک درزی ایک عورت سے کہہ رہا ہے کہ وہ تمام لباس اتار دے تو وہ خود بخود نیا فیشن ہو جائے گا۔

اس کے باجود صاحبِ استطاعت لوگوں میں ڈھاکے کی ململ مقبول رہی۔ ملِکۂ فرانس میری اینٹونیٹ، فرانسیسی سلطانہ جوزفین بوناپارٹ اور مصنفہ جین آسٹین اس ململ کی گرویدہ تھیں۔ مگر یہ کپڑا اس وقت کے روشن خیال یورپ میں جس تیزی سے مقبول ہوا اتنی ہی جلد غائب بھی ہوگیا۔

بیسویں صدی کے اوائل ہی میں ڈھاکے کی ململ دنیا بھر سے غائب ہوگئی اور صرف لوگوں کے ذاتی کلیکشن، یا عجائب گھروں میں اس کے کچھ بچے کھچے نمونے محفوظ رہ گئے۔ اسے بنانے کا پیچدہ ہنر بھلا دیا گیا اور مقامی طور پر پھُٹی کرپاس کے نام سے جانی جانے والے کپاس ایک دم معدوم ہوگئی۔ یہ کیسے ہوا؟ اور کیا اسے پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے؟

باریک پیراہن
انیسویں صدی میں ململ کے پیراہن کو طنز و مزاح کا سامنا رہا، مثلاً کہا گیا کہ یہ لباس تیز روشنی، ہوا یا بارش میں بدن کو چھپانے سے قاصر ہے

کچا تار

ڈھاکہ مُزلِن یعنی ڈھاکے کی ململ کے لیے خام مال دریائے مہگنا کے اطراف اگنے والے پودے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ دریا گینجیز ڈیلٹا یعنی گنگا طاس، جو دنیا کا سب سے بڑا طاس ہے، بنانے والے تین دریاؤں میں سے ایک ہے۔ یہ پودا یہاں موسمِ بہار کے آتے ہی اپنی کونپلیں نکالنا شروع کر دیتا تھا۔ بلوغت کو پہچنے پر ہر پودے میں صرف ایک زرد رنگ کا پھول سال میں دو مرتبہ کھلتا تھا جس کے اندر برف کی مانند سفید کپاس کے ریشے نکلتے تھے۔

یہ ریشے عام کپاس کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے تھے۔ اور کم قیمت کپاس استعمال کرنے والی صنعتی مشینوں کے لیے بیکار تھے۔ یہ ریشے بالکل کچے ہوتے تھے اور اگر دھاگہ بنانے کے لیے انھیں ذرا سا بھی تاؤ دیا جاتا تو ٹوٹ جاتے تھے۔ اسی لیے مقامی لوگ اس سے دھاگہ بنانے کے لیے ہزاروں سال پرانے طریقے استعمال کرتے تھے۔

یہ عمل 16 مرحلوں میں مکمل ہوتا تھا اور ہر مرحلہ خاص مہارت کا متقاصی ہوتا تھا۔ اسی لیے یہ مراحل ڈھاکے میں واقع الگ الگ دیہات میں طے پاتے تھے۔ یہ ایک حقیقی اجتماعی کاوش ہوتی تھی جس میں چھوٹے بڑے اور مرد و زن سب شریک تھے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ بنگال کا حصہ ہوا کرتا تھا جو آج کل بنگلہ دیش اور انڈین ریاست مغربی بنگال میں منقسم ہے۔

پہلے کپاس کے گولوں کو ایک خاص مچھلی کے چھوٹے سے جبڑے کی ہڈی سے صاف کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اس سے دھاگہ کاتا جاتا تھا۔ ان چھوٹے ریشوں کو تاننے کے لیے فضا میں زیادہ رطوبت کی ضرورت ہوتی تھی اس لیے یہ ماہر خواتین صبح اور شام کے وقت کشتیوں میں بیٹھ کر یہ مرحلہ مکمل کرتی تھیں۔ بوڑھے لوگ بالعموم دھاگہ نہیں بنا پاتے کیوں کہ مدھم روشنی میں انھیں تار نظر نہیں آتے تھے۔

نپولین کی پہلی بیوی
ڈھاکے کی ململ نپولین کی پہلی بیوی جوزفین بوناپارٹ کو بہت پسند تھی اور انھوں نے اس ململ کے کئی ملبوسات سلوا رکھے تھے۔

سنہ 2012 میں ململ کے بارے کتاب لکھنے والی سونیا ایشمور کا کہنا ہے ‘کپاس کے ان ریشوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے جوڑ بن جاتے تھے جن سے دھاگہ قدرے کھُردرا ہو جاتا تھا اور یہ کھردراپن چھونے پر اچھا محسوس ہوتا تھا۔’

اس کے بعد بنائی کا مرحلہ آتا تھا۔ اس میں مہینوں لگ جاتے تھے کیونکہ پھول ململ کے اندر ہی کاڑھے جاتے تھے۔ اس طریقے سے فن کا ایک روپہلی شاہکار وجود میں آ جاتا تھا۔

ایشیائی عجوبہ

علاقے کے مغربی صارفین ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ڈھاکے کی ململ انسانی ہاتھوں سے بنائی جاتی ہے۔ ایسی افواہیں تھیں کہ اسے جل پریاں، بھوت یا کوئی اور دیومالائی مخلوق بناتی ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ یہ سارا عمل زیر آب کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش نیشنل کرافٹس کونسل کے وائس پریزیڈنٹ روبی غزنوی کہتے ہیں ‘یہ اتنی ملائم اور ہلکی ہوتی تھی کہ اب اس جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔’

بنائی کا یہ عمل خطے میں آج بھی جاری ہے، مگر اس میں پھُٹی کرپاس کی جگہ عام کپاس کا عام دھاگہ استعمال ہوتا ہے۔ 2013 میں بُنائی کے اس روایتی عمل کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر یونیسکو نے غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شامل کر لیا تھا۔

مگر اصل کامیابی دھاگوں کی زیادہ تعداد ہے۔ جتنے زیادہ دھاگے ہوں گے کپڑا اتنا ہی نرم اور مضبوط ہوگا۔

ململ کو پھر سے مقبول بنانے کے لیے کوشاں سیف الاسلام کا کہنا ہے کہ آج کی ململ میں 40 سے لے کر 80 تک دھاگے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یعنی کپڑے کے ایک مربع انچ کے اندر اتنی تعداد میں تانے بانے پائے جاتے ہیں۔ ڈھاکے کی مشہورِ زمانہ ململ میں تانوں بانوں (عمودی اور افقی تار) کی تعداد 800 سے لے کر 1200 تک ہوتی تھی جو آج کسی بھی کپڑے میں موجود دھاگوں سے کہیں زیادہ ہے۔

اگرچہ ڈھاکے کی ململ گُم ہوئے ایک صدی سے زیادہ ہوگیا ہے، مگر اس سے بنی ساڑھیاں، چوغے، دو پٹے اور ملبوسات اب بھی عجائب گھروں میں نظر آ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی اس سے بنی کوئی چیز کسی بڑے نیلام گھر میں بھی نمودار ہو کر ہزاروں ڈالر میں بکتی ہے۔

نو آبادی کی بھینٹ

ایشمور کہتی ہیں کہ ‘اس کی تجارت کو بِرٹش انڈیا کمپنی نے فروغ اور زوال دیا۔’

یورپی اشرافیہ کی خواتین کے زیب تن کیے جانے سے بہت پہلے ڈھاکے کی ململ دنیا بھر میں فروخت ہوتی تھی۔ قدیم یونانی اور روم کے باشندے اسے پسند کرتے تھے، اور اس کا ذکر تقریباً 2000 سال قبل ایک نامعلوم مصری تاجر نے بھی اپنی کتاب ‘ایریتھرین سی’ میں کیا ہے۔

رومن مصنف پیٹرونیئس شاید پہلا شخص ہے جس نے یہ کہہ کر اس کی شفافیت پر ناک بھوں چڑھائی کہ ‘بہتر ہے کہ تمھاری دلہن لوگوں کے سامنے ہوا کا لباس پہن کر آئے کیونکہ ململ کی گھٹاؤں میں تو وہ ویسے ہی برہنہ نظر آتی ہے۔’ تاہم آنے والے وقت میں 14 ویں صدی کے بربر-مراکشی سیاح ابنِ بطوطہ، 15 ویں صدی چینی سیاح ما ہان اور کئی دوسروں نے اس کپڑے کی تعریف کی۔

ڈھاکے کی ململ
ڈھاکے کی ململ میں 1,200 تار ہوتے تھے، مگر حالیہ برسوں میں بنائی گئی ململ میں یہ تعداد 300 سے اوپر نہیں لے جائی جا سکی ہے۔

مگر اس کا عروج مغلیہ عہد میں ہوا۔ اس دور میں ململ کی تجارت ایران، ترکی، عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے علاقوں تک پھیل گئی۔

اسے مغل بادشاہوں نے بہت پسند کیا اور ان کی بیگمات کو بھی بہت بھایا جن کی تصاویر ململ کے علاوہ کسی اور لباس میں کم ہی بنائی گئی ہیں۔ انھوں نے ماہر جولاہوں کو ذاتی ملازم رکھا اور بہترین ململ کی کسی دوسرے کو فروخت پر پابندی عائد کر دی۔ اس ململ کی شفافیت کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ شہنشاہ اورنگ زیب نے اپنی بیٹی کو سرِ عام ننگا ہو کر آنے پر ڈانٹا حالانکہ وہ ململ کی نو تہوں پر مشتمل لباس میں تھی۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ انگریز آ گئے۔ سنہ 1793 تک برِٹش انڈیا کمپنی مغلیہ سلطنت پر قابض ہو چکی تھی، اور ایک صدی سے بھی کم میں پورا خطہ برطانوی راج کے تسلط میں تھا۔

ڈھاکے کی ململ سنہ 1851 میں پہلی بار برطانیہ کی ایک نمائش ‘دا گریٹ ایگزیبیشن آف دا ورکس آف انڈسٹری آف آل نینشز’ میں رکھی گئی۔ یہ نمائش ملِکہ وِکٹوریہ کے شوہر پرنس البرٹ کے ذہن کی اختراع تھی جس کا مقصد برطانوی رعایا کو برطانوی سلطنت کے اندر بننے والی عجوبۂ روزگار مصنوعات سے متعارف کروانا تھا۔ کرسٹل پیلیس میں، جہاں یہ نمائش منعقد کی گئی تھی، دنیا کے دور دراز کونوں سے تقریباً 100,000 اشیا لا کر رکھی گئیں۔

سیف الاسلام کا کہنا ہے کہ اُس وقت ڈھاکے کی ململ 70 سے 700 ڈالر فی گز فروخت ہوئی جو آج کے حساب سے 9800 سے 78000 فی گز بنتا ہے۔ حتیٰ کہ بہترین ململ بھی 26 گنا کم مہنگی تھی۔

نازک تار
پھُٹی کرپاس کپاس سے دھاگا تیار کرنا نہایت مہارت کا کام ہے، ذرا سے غلطی ہو تو تار ٹوٹ جاتا ہے

مگر جہاں وکٹورین لندن کے لوگ اس کپڑے پر فدا ہوئے جا رہے تھے ادھر اس کو بنانے والے قرضوں اور مالی بدحالی میں ڈوبے جا رہے تھے۔ کتاب ‘گُڈز فرام دی ایسٹ 1600-1800‘ میں کہا گیا ہے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ململ بنانے کے اس نازک طریقہ کار میں مداخلت 18ویں صدی میں شروع کی تھی۔

پہلے تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس ململ کے مقامی گاہکوں کی جگہ برطانوی سلطنت کو اس کا خریدار بنا دیا۔ ایشمور کہتی ہیں کہ ‘پہلے تو انھوں نے اس کپڑے کو بنانے کے عمل پر قابو پا لیا اور اس کی مکمل تجارت کنٹرول کرنے لگے۔‘ اس کے بعد انھوں نے اس صنعت پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ بنانے والے زیادہ تعداد میں یہ کپڑا تیار کریں اور اس کی قیمت میں کمی لائیں۔

سیف الاسلام کہتے ہیں کہ ‘آپ کو کپاس سے اس شفاف ململ تیار کرنے کے لیے بہت خصوصی ہنر چاہیے تھا۔ یہ ایک مہنگا اور محنت طلب عمل تھا۔ اور ایک کلو کپاس سے صرف تقریباً آٹھ گرام ململ نکلتی تھی۔‘

اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے جہاں کپڑا ساز مشکل میں پڑے رہے وہیں وہ قرض اور بھی ڈوبتے گئے۔ آئندہ ایک سال میں انھوں نے جتنا کپڑا بنانا ہوتا تھا انھیں اس کے پیسے پہلے ادا کر دیے جاتے تھے۔ مگر اگر ان کی پیداوار درکار معیار کی نہیں ہوتی تھی تو انھیں یہ پیسے واپس کرنا پڑتے تھے۔ ایشمور بتاتی ہیں کہ کپڑا ساز ان ادائیگیوں کو پورا نہیں کر پاتے تھے۔

اور آخر میں مسئلہ کنپیٹیشن کا بھی بن گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیاں یہاں موجود ہر صنعت کے ہر عمل کو لکھ کر تفصیلی طور پر ریکارڈ کر رہی تھیں۔ اور ململ کی صنعت میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ اس کپڑے کو بنانے کے ہر عمل کی تفصیلات ریکارڈ کر لی گئی تھیں۔

جیسے جیسے پرتعیش کپڑے کی یورپی مانگ میں اضافہ ہو رہا تھا، اس کپڑے کو مقامی طور پر وہیں تیار کرنے کے مفادات بھی بڑھنے لگے تھی۔ انگلینڈ میں لینکاشائر میں ایک ٹیکسٹائل صنعت کار سیمیول اولڈنو نے برطانوی راج کی جدید ترین ٹیکنالوجی، سپنگ ویل کا استعمال کرتے ہوئے لندن کے رہائشیوں کو بڑی تعداد میں یہ کپڑا فراہم کرنا شروع کر دیا اور 1784 تک اس کے پاس ایک ہزار کپڑا بننے والے ہو چکے تھے۔

گم گشتہ پودا
بینگال مزلِن نے گم شدہ پودے کی تلاش کے دوران مقامی دیہاتیوں کو اپنی مدد کے لیے بھرتی کیا

اگرچہ برطانوی ململ ڈھاکہ کی اصلی ململ کے معیار کی نہیں تھی، کیونکہ یہ عام کپاس سے بنائی جاتی تھی اور اس میں ڈھاگے کی مقدار بھی کم ہوتی تھی، مگر کئی سالوں کی بدحالی اور پھر بیرونی مانگ میں یک دم کمی کے باعث ڈھاکہ کی صنعت تباہ ہوگئی۔

اور خطے میں جنگ اور غربت کے ساتھ ساتھ چند زلزلوں کے بعد کپڑا ساز کم معیار کے کپرے بنانے لگے اور کچھ تو مکمل طور پر کاشت کار بن گئے۔ آخر کار یہ ساری صنعت ختم ہوگئی۔

انسانی حقوق کی کارکن حمیدا حسین نے بنگال میں ململ کی صنعت پر کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ایک فیملی کاروبار والی صنعت تھی۔ ہم اکثر کپڑا بننے والوں کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر ان کے پیچھے وہ خواتین تھیں جو سپنگ کر رہی تھیں۔ اس صنعت میں بہت سے لوگ موجود تھے۔‘

وقت کے ساتھ ساتھ جب ڈھاکہ کی ململ کا ہنر لوگوں میں مٹ گیا۔ اور جب ریشمی دھاگے بننے والے نہیں رہے تو پھُٹی کرپاس کپاس پودا جسے لوگ صرف مہگنا دریا کے پاس ہی کاشت کر پائے تھے جنگلی پودا بن کر رہ گیا۔ اب وہ چرخے گھومنا بھول گئے تھے۔

ایک دوسرا موقع

سیف الاسلام بنگلہ دیش میں پیدا ہویے اور تقریباً 20 سال قبل لندن منتقل ہوئے تھے۔ انھیں ڈھاکہ کی ململ کے بارے میں 2013 میں اس وقت پتا چلا جب ان کی کمپنی، ڈریک‘ سے کہا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی لوگوں کے لیے برطانیہ میں اس کپڑے کی ایک نمائش منعقد کرنے میں مدد کریں۔ ڈریک کا خیال تھا کہ اس حوالے سے نمائش میں تفصیلات کم تھیں اس لیے انھوں نے اپنی تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد ایک سال تک سیف اسلام اور ان کے ساتھیوں نے بنگلہ دیش میں اس صنعت سے منسلک لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اس خطے کو جانچا جہاں یہ بنائی جاتی تھی، اور ڈھاکہ ململ کی یورپی عجائب گھروں میں حقیقی مثالیں ڈھونڈیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘برطانیہ میں وکٹوریہ اینڈ ایلبرٹ میوزیئم میں اس کی شاندار مثالیں موجود ہیں اور کافی مقدار میں یہ کپڑا پڑا ہوا ہے۔ اگر آپ انگلش ہیریٹیج ٹرسٹ کے اعداد و شمار دیکھیں تو ان کے پاس اس کپڑے کے 2000 ٹکڑے موجود ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے پاس ایک بھی نہیں ہے۔‘

بازیافت پھُٹی کرپاس کپاس کا پودا
پھُٹی کرپاس کپاس کا پھر سے اگایا جانے والا یہ پودا اس پودے سے ملتا جُلتا نظر آتا ہے جو ڈھاکے کی ململ بنانے کے لیے سینکڑوں برس پہلے کاشت کیا جاتا تھا

ان کی ٹیم نے پھر اس موضوع پر متعدد نمائشیں کیں اور ایک فلم کے ساتھ ساتھ ایک کتاب بھی شائع کی۔ پھر ایک وقت آیا جب انھوں نے سوچا کہ شاید اس کپڑے کو دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بنگال ململ نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اس صنعت کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔

اس میں پہلا کام تھا موزوں پودا ڈھونڈنا۔ اگرچہ پھُٹی کرپاس کپاس کے بیج کسی پاس اب موجود نہیں تھے، مگر کیو کے رائل بوٹینیکل گارڈنز میں 19ویں صدی کے اس کے سوکھے ہویے پتے موجود تھے۔ ان سے اس کا ڈی این اے سیکیوئنس بنانا ممکن تھا۔

اس پودے کے جینیاتی راز لے کر ٹیم بنگلہ دیش گئی۔ انھوں نے مہگنا دریا کے تاریخی نقشے دیکھے اور انھیں جدید سیٹلائٹ تصاویر سے موازنہ کیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ گذشتہ دو سو سال میں اس کا راستہ کتنا تبدیل ہوا ہے تاکہ اس کے لیے بہترین مقام کا انتخاب کیا جا سکے۔ پھر انھوں نے ایک کشتی لی اور اس دریا میں گھومنے لگے تاکہ پرانی تصاویر سے مشابہت رکھنے والے جنگلی پودوں کی تلاش کی جا سکے۔

اور پھر انھوں نے ملتے جلتے پودوں کو چنا اور ان کا جینیاتی موازنہ کیا۔ انھیں ایک جنگلی پودا ملا جس کا جینیاتی طور پر پرانے پودے سے 70 فیصد ڈی این اے ملتا تھا۔ ہو سکتا تھا کہ اس پودے کے آبا ؤ اجداد پھُٹی کرپاس کپاس سے تھے۔

اس کی کاشت کے لیے مہگنا دریا کے اندر ایک جزیرے پر ایک چھوٹے سے پلاٹ کا انتخاب کیا گیا۔ سیف اسلام کہتے ہیں کہ ‘یہ ایک بہترین مقام تھا۔ زمین ذرخیز تھی کیونکہ یہ دریا کی نچلی سطح کی مدد سے بنی تھی۔‘ 2015 میں اس مقام پر کچھ بیج لگائے گئے۔ جلد ہی پھُٹی کرپاس کپاس کی قطاریں لگ گئی تھیں اور یہ ایک صدی میں پہلی بار کاشت کی جا رہی تھی۔

ٹیم نے اس کپاس کی پہلی کاشت اس سال کی۔ ان کے پاس اتنی کپاس تو نہیں تھی کہ وہ ڈھاکہ ململ بنا سکتے، انھوں نے انڈین کپڑا سازوں کی مدد سے عام کپاس ملا کر ایک ہائی بریڈ دھاگا تیار کیا۔ اس کے بعد مرحلہ کپڑا بننے کا تھا۔ اور یہ توقعات سے زیادہ مشکل نکلا۔

کیونکہ بنگلہ دیش میں کپڑا ساز جامدانی ململ تیار کر رہے تھے، جو کہ قدرے زیادہ کھردرا اور کم دھاگھوں والا کپڑا تھا، تو سیف الاسلام نے سوچا کہ ان کے ہنر میں بہتری لا کر قدیم کپڑے کی طرز کا کپڑا تیار کیا جا سکے گا۔

بنائی کا گم گشتہ ہُنر
ڈھاکے کی ململ بنانے کے لیے درکار مہارت کھو چکی ہے جس کے سبب قدیم معیار کا کپڑا بنانا ایک چیلنج ہے

سیف الاسلام بتاتے ہیں کہ ‘مگر ان میں سے کوئی اس پر کام کرنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ جب میں انھیں کہتا تھا کہ میں 300 دھاگوں کی کاؤنٹ والی ساڑھی تیار کرنا چاہتا ہوں تو وہ کہتے تھے کہ یہ پاگل پن ہے۔‘

‘وہ کہتے تھے کہ ہمیں تاریخ بتانے کے لیے شکریہ مگر ہم یہ کپڑا نہیں بنائیں گے۔‘ سیف الاسلام نے جن 25 لوگوں سے رابطہ کیا آخرکار ان میں سے صرف ایک نے یہ کوشش کرنے کی حامی بھری۔

اس خطے میں کپڑا ساز زیادہ تر غریب ہیں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ اس لیے الامین نے جب اس کپڑے کو تیار کرنے کی حامی بھری تو انھیں اپنی ورک شاپ میں درجہ حرارت کنٹرول کرنے اور نمی کنٹرول کرنے کے آلات لگانے کی اجازت بھی دینا پڑی تاکہ اس نازک کپڑے کی تیاری کے لیے درکار موسمی حالات بنائے جا سکیں۔ اس کے علاوہ جو 50 آلات درکار تھے وہ تو اب موجود نہیں تھے اس لیے ٹیم کو خود یہ آلات بنانے پڑے۔ اس کی مثال ایک شانا ہے، جو کہ بیمبو کی لکڑی کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس کے ایک ہزار مصنوعی دانت بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ کپڑا بننے کے دوران اسے جگہ پر پکڑ سکے۔

چھ انتہائی مشکل ماہ کے بعد الامین نے 300 دھاگوں کی کاؤنٹ والی ساڑھی تیار کر لی تھی۔ یہ ڈھاکہ ململ کے معیار کی تو نہیں تھی مگر کئی نسلوں میں کسی کے ہاتھ کی بنی ساڑھی سے بہتر معیار کی تھی۔ سیف الاسلام کہتے ہیں کہ ‘الامین نے ہمارے ساتھ کام کرنے کے لیے بہت صبر کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے 40 فیصد کوشش کی اور باقی سب اس کی طرف سے آیا تھا۔‘

اب 2021 میں آ جائیں۔ ٹیم نے اس ہائی بریڈ دھاگے کی کئی ساڑھیاں تیار کی ہیں جن کی دنیا بھر میں نمائش ہو رہی ہے۔ کچھ تو کئی ہزار پاؤنڈ کی فروخت ہوئی ہیں اور سیف الاسلام کے خیال میں اس کپڑے کا مستقبل روشن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘بڑے پیمانے کی پیداوار کے اس دور میں کچھ خاص ہونا دلحسپ چیز ہے۔ یہ برانڈ ابھی بہت طاقتور ہے۔‘

اب ٹیم کے پاس پھُٹی کرپاس کپاس کے پودے مسلسل کاشت ہو رہے ہیں اگرچہ انھیں ابتدائی پلاٹ کو سیلاب کی وجہ سے چھوڑنا پڑا تھا۔ اب وہ دریا کے کنارے ایک پلاٹ پر کاشت کر رہے ہیں اور سیف الاسلام کو امید ہے کہ وہ ایک دن خالص ڈھاکہ ململ تیار کر سکیں گے۔

اور بنگلہ دیشی حکومت نے بھی اس پروجیکٹ کی حمایت کر دی ہے۔ سیف الاسلام کہتے ہیں کہ ‘یہ قومی فخر کی بات ہے۔ یہ اہم ہے کہ ہمارے شناخت ایک غریب ملک سے ہٹ کر جہاں بہت سارے کپڑے کے کارخانے ہیں، ایک ایسے ملک کی ہو جو تاریخ کا بہترین کپڑا تیار کر سکتے ہیں۔‘

کون جانتا ہے، مگر شاید اگلی نسل اس قدیم کپڑے کو زیب تن کر کے اس کی شفاف اور ٹرانسپیرنٹ نوعیت کے مسئلے پر کام کر رہی ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp