اندھیرا، طلسمی چادر اور گرگٹ



آپ دنیا کی تمام عورتوں کو برقع پہنا دیں، پھر بھی حساب اپنی آنکھوں کا دینا ہوگا۔
۔ سعادت حسن مٹو
اندھیرے اور روشنی کے درمیان گرگٹ آ گیا تھا۔ میں صرف اتنا جانتا تھا کہ گرگٹ رنگ بدلتا ہے۔
لیکن کیسے؟

اس وقت میرے چہار اطراف گرگٹ تھے اور میں انہیں رنگ تبدیل کرتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ میں نے سنا تھا، گرگٹ اپنا رنگ جلد کے اندر مخصوص خلیوں میں رنگوں کے کرسٹلز کی ترتیب کو اوپر نیچے کر کے بدلتا ہے۔ سائنسدانوں نے گرگٹ کی جلد میں موجود ان خلیوں کو ’آئینے‘ سے تشبیہ دی ہے۔ تو گرگٹ بھی آئینہ رکھتا ہے اور ہمارے پاس سے آئینہ ہی گم ہو گیا۔ آئینہ گم ہوا تو ہم اپنی شکلوں کو بھول گئے۔ میں نے یہ بھی پڑھا تھا، کہ گرگٹ دو طریقوں سے رنگ پیدا کرتا ہے۔

ایک تو اس کے جسم میں ایسے خلیے ہوتے ہیں جن میں گہرے یا گرم رنگ بھرے ہوئے ہوتے ہیں جب کہ چمک دار نیلے اور سفید رنگ اس کی جلد کے اس پرت سے نکلتے ہیں جہاں سے رنگ منعکس ہوتے ہیں۔ ان دونوں اقسام کے رنگ آپس میں مل بھی جاتے ہیں۔ اور رنگوں کے کھیل سے نئے، کبھی کبھی زعفرانی رنگ بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ اور جب ایسا ہوتا ہے، گرگٹ نیند میں نہیں ہوتا، مگر ہم نیند میں ہوتے ہیں۔ گہری نیند میں۔

شاید میں نیند میں ہوں اور ایک خواب کی پر پھیلاتی دنیا میرے اردگرد لہرا رہی ہے۔ سکوت میں ڈوبا ایک سمندر ہے۔ جس کے اطراف اندھیرا ہے اور اس اندھیر نگری کے نہاں خانوں میں گہرے کہرے کی چادر ہے۔ کشتیاں ساحلی سطح پہ لنگر انداز ہے۔ ناہی کوئی ماہی گیر ہے اور نہ کوئی ملاح۔ سنگریزوں پر چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ رہے ہیں۔ میری نگاہیں دھندلے آسمان کامشاہدہ کر رہی ہیں۔ آنکھوں میں ہزاروں خواب ہیں۔ تھکن سے بوجھل ہو کر کچی مٹی کے ذرات کو اپنی ہتھیلی کی گولائی میں رکھ کر کچھ سوچ رہاہوں۔ مجھے یاد نہیں میں کیا سوچ رہاہوں۔ مگر میں کچھ تو سوچ رہاہوں۔ اسی دوران کسی نے مجھے ایک زور کا دھکا دیا۔

’آہ۔‘ ایک چیخ نکلی۔ میں چٹان سے ٹکرایا اور بھاری بھرکم جسم سرد اور ننگی زمین پر پسر گیا۔ کہروں کی فوج اب بھی فضاء میں حکومت کر رہی تھی۔ مجھے یہ احساس ہے کہ ابھی ٹھنڈ کی شدت کم نہیں ہوئی ہے۔ میں ابھی بھی سرد زمین پر چت تھا۔ مگر مجھے اپنے بغل گیر بڑھتی حرارت کا احساس بھی ہو رہا ہے۔

یہ حرارت کیسی؟

ایک حسین چاند کا ٹکڑا ٹوٹ کر میری گود میں گر پڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر خون کی مسکراہٹ اور اس کی صراحی جیسی لمبی گردن پہ ایک گہرے زخم کا نشان مجھے ہراساں کرنے کے لیے کافی تھا۔ مجھے یاد ہے اس وقت میں گھبرا یا تھا۔ موہوب و محزون چہرے کے بیچ اس کے نرم و نازک ہونٹ نے جنبش کی تھی۔

’کیا ہمارے سماج میں عورت نامی کسی پرندے کا وجود ہے؟ کیا سچ میں عورت پیداہوئی تھی؟ یاسائنس کے عظیم دیوتاؤں نے گوشت اور خون کے لوتھڑوں سے بنی اس عورت کو بھی محض بچہ جننے والی بطور ایک مشین کے دریافت کر لیاتھا؟‘

’پتا نہیں۔ مگر عورت کے بغیر اس کائنات کا کوئی وجود ہی نہیں۔‘

وہ خموشی میں بھیگے جنگل کو دیکھ رہی تھی۔ موسم سرما میں جنگل اداسیوں کے حمام میں شبنمی قطرے سے غسل کر رہا تھا۔ نہ وحشی درندوں کا شکار کرنے والے شکاری اور ناہی درندوں کی کوئی آہٹ۔ بہت دور سبز ڈال پر چڑا اور چڑیا سردیوں میں ٹھٹھر رہے تھے۔ وہ حسرت زدہ آنکھوں سے اس دلکش منظر کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ میں اس کی نظروں کو پڑھ سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ میری کشف تھی‌۔ جب بچپنے میں میری عمر گڑیا سے کھیلنے کی تھی اس وقت میری گڑیا کشف ہی تھی۔

آہ۔ میری بچپن کی گڑیا۔
اس وقت میں سنہرے ماضی کے گلشن کو خوابوں کے جھروکوں سے دیکھ سکتا تھا۔

’کاش میرے پاس وقت کو کنٹرول کرنے کا آلہ ہوتا۔ بیتے سارے جہاں کی خوشیاں، میں تمہاری قدموں میں رکھ دیتا۔‘

’اب بہت دیر ہو چکی ہے۔‘

اس کے چہرے پر افسردگی کی گہری چھایاں تھی۔ ماضی میں بھی عورت طوائفوں اور باندیوں کی زندگی جینے پر مجبور تھی۔ اور آج بھی مذہبی جنون اور معاشرے کی مہمل بندشوں سے تیار کردہ عورت کی زندگی ایک کڑوا زہر ہے جسے پینا اس کے لیے ہروقت آسان نہیں۔

’جانتے ہو ہمارا سماج اور معاشرہ کس سے تشکیل پاتاہے؟‘
’ہاں۔‘
میں اس وقت بہت حیران ہوا تھا۔
’ہمارے سماج میں چڑا اور چڑیا نہیں ہیں۔ یہاں گرگٹ ہے۔ رنگ بدلنے والا گرگٹ، جس کے الگ الگ روپ ہیں۔‘
’تم مرزا کی بات کر رہی ہو؟‘
’نہیں۔ میں کسی گرکٹ کانام بھی سننا نہیں چاہتی‘
میں ایک پل کے لیے پوری دنیا بھول چکا تھا۔ آخر ایک عورت اپنے خاوند سے اتنی نفرت کیوں کرے گی؟

دال میں کچھ کالا صاف صاف ظاہر تھا۔ میری آپا بھی گزشتہ کل گرگٹ سے تنگ آ کر موت سے سمجھوتہ کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اب میری نیند ٹوٹ چکی تھی۔ مؤذن اذان دے رہا تھا۔ مرغابیاں اپنی اپنی بانگوں سے صبح پر نور کے روشن ہونے کی نوید سنا رہی تھیں ‌۔ اس وقت کئی ایسے گرگٹ بھی تھے جو مرغابیوں کی رنگ میں خود کو رنگ چکے تھے۔ عین اسی وقت صبح کاذب کے پردے کو پھاڑ کر افق میں اگتے سورج کی کرنیں میرے خیال کے دریچوں پر دستک دینے لگی۔

کشف کیسی ہوگی؟

خیالات کے دھندلکیوں میں کشف کا بے رونق چہرہ مجھے کاٹ رہا تھا کہ دفعتا مجھے اپنے کمرے میں کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔ کشف ایک بار پھر میرے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے سینے میں ایک شرارہ دہک رہا تھا۔ میں اس کے دھڑکتے دل کی چیخ کو سن سکتا تھا۔

سکوت کا لبادہ اوڑھے وہ کرسی پر بیٹھ گئی‌۔ وہ پرسکون ہو کر دیر تک کچھ سوچتی رہی۔ کافی دیر بیت گئے اس کے لب خاموش تھے۔

’تمہارے پاس اب بھی وقت ہے کشف۔‘
’توکیا میں طلاق لے کر تم سے شادی کرلوں؟‘
’نہیں۔ میں نے ایسا کب کہا۔‘

’ہماری زندگی ڈسکو میں بھنگڑا گانے اور بار میں رقص کرنے والی عورتوں سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ گرگٹ رات میں کھٹمل اور پسو بن کر صنف نازک کے جسموں کا خون چوستے ہیں اور دن میں ان پر اپنا حقوق جتاتے ہیں۔‘

کمرے کے اندر رکھے ایرانی صوفے پر بہت سارے گرگٹ کہیں سے آ کر جمع ہو گئے تھے۔ کشف صحیح کہہ رہی تھی وہ عورتوں پر اپنا حقوق جتا رہے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو عورت کو ابلیس کاجال قرار دے کر اسے قید کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھی تھے جنہوں نے آج بھی عورت کے وجود کو ایک باندی کے وجود سے زیادہ اہمیت کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ بھیڑ میں ہر گرگٹ مجھے ایک جیسے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید اس بھیڑ میں کہیں مرزا بھی چھپ کر کچھ بڑبڑا رہا تھا۔

کشف کایہ سوال کیا وجود زن کو سائنس کے فرشتوں نے دریافت کیاتھا؟

میں اس سوال کے مایاوی جال سے ابھی بھی باہر نہیں نکل سکا تھا۔ مجھ جیسے یکہ و تنہا انسان کا اس بھیڑ سے پنگا لینا دنیا کے غیر ممکنات کارناموں میں سے ایک تھا۔ میں ایک بار پھر سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ اور اس بار ایسا ہر گز نہیں تھا کہ مجھے اپنی سوچ یاد نہ ہو۔ میں سوچ رہا تھا کہ پتھروں سے پھول پیداکرنے، دریا میں سے آگ کے نکالنے اور آسمان کے ستاروں کو زمین سے اگانے والی عورت آج بچہ جننے والی کوئی مشین کیسے بن سکتی ہے؟

ایک عورت کب تک اپنے برہنہ گوشت پر رنگ بدلتے گرگٹ کو رینگتے ہوئے دیکھتی رہے گی؟
کیا اسے اسی لیے بنایا گیا تھا؟

سوالوں کا ایک سمندر میرے سامنے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اور میں آگ کی زمین پر رینگ رہا تھا۔ رنگ برنگ آئینے تھے۔ اور ان آئینوں کے درمیاں میں گرگٹ کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments