انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات خطے میں ترقی کی چابی: جنرل باجوہ


جنرل باجوہ

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات وہ چابی ہے جس سے مشرقی اور مغربی ایشیاء کے مابین رابطے کو یقینی بناتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیاء کی صلاحیتوں کو ان لاک کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تاہم یہ موقعہ دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے۔ تنازعہ کشمیر واضح طور پر اس مسئلے کا مرکز ہے۔

ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے اسلام آباد سیکیورٹی مذاکرات کی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں امن کا خواب ادھورا ہے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔ ’اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔ انھوں نے واضح کیا کہ بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک کو ماحول کو سازگار بنانا ہوگا خاص طور پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں۔

مزیر پڑھیے:

بادشاہ ہاتھی دے کر واپس نہیں لیتے

باجوہ ڈاکٹرائن یا عمرانی نظریہ، فیصلہ ہو چکا

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع

پاکستان کی جانب سے حال ہی میں سرحد پر فائربندی کا معاہدہ کیا گیا جس کے بعد آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ کی انڈیا کو مذاکرات کی یہ پیشکش سامنے آئی ہے۔

پاکستان کے سابق وفاقی وزیر معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف سے قبل وزیر اعظم عمران بھی کہہ چکے ہیں کہ جاری کشیدگی کو کم کیا جائے، یہ کشیدگی کم ہو تاکہ کچھ سکون کے لمحے میسر ہوں۔

انھں نے کہا کہ بھارت بڑا ملک اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پیشکش کا مثبت جواب دے، کشمیر اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سےگڑ بڑ ہوتی ہے اس سے قبل بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے اس پر بات ہوئی، کانگریس کی من موہن سنگھ حکومت نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا، یہ ایک سچی پیشکش ہے کہ پاکستان جنگ کے حق میں نہیں وہ مذاکرات چاہتا ہے۔

’بعض سیاستدانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ فوج مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ دو طرفہ تجارت ہو، بارڈر کھلیں، لوگوں کا لوگوں سے رابطہ ہو، لیکن اصل مسئلہ کشمیر کو نہ بھولیں۔‘

’جو سمجھوتہ ایکسپریس ہے، دوستی بس سروس ہے، وہ تو بحال ہو، دوطرف تجارت شروع ہو۔ کہیں سے تو ابتدا کی جائے پھر چاہے سیکرٹری سطح پر مذاکرات ہوں، وزارتی یا سربراہی سطح پر۔‘

سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے مثبت رویے کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ معاشی ترقی اہم، اس خطے میں امن ہونا چاہیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سمت متعین کی جارہی ہے، بجائے کشیدگی بڑھانے کہ اس کو کم کیا جائے اور خطے میں معاشی ترقی ہو یہ ایک مثبت رویہ ہے۔

’اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ فائر بندی کی گئی اس سے امید ہوئی کہ خطے میں کشیدگی کم ہو رہی ہے، اس سے قبل صورتحال مختلف تھی، سوچ میں تبدیلی آئی ہے آرمی چیف نے اس کا ہی اظہار کیا ہے۔‘

سیاسی اور سماجی تحقیقات کے ادارے پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تقریر کا ’ٹارگٹ آڈینس‘ انڈیا تھا، اس سے پہلے بھی وہ اس نوعیت کا بیان دے چکے ہیں کہ امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد دونوں ممالک میں سیز فائر معاہدہ ہوئے اس میں یقیناً کچھ دوست ممالک شامل ہوں گے۔

’یہ سیز فائر کا جو ماحول بنا ہوا وہ اس کا فائدہ لیتے ہوئے مذاکرات چاہتے ہیں، حکومت اور ملٹری چاہتی ہے جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا وہاں سے شروع کیا جائے، اسی لیے شاید وہ کارگل کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ماضی کو بھول کر آگے بڑھیں۔‘

صحافی اور تجزیہ نگار محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی دباؤ میں امن کی بات نہیں کر رہے ہیں، دراصل پاکستان کئی سالوں سے امن کے قیام کی کوشش کر رہا ہے، لیکن مودی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جو ایک رائیٹ ونگ مسلم مخالف حکومت ہے۔

’خطے کی ترقی میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ انڈیا اور پاکستان میں امن نہ ہونا ہے، اسی وجہ سے علاقائی ممالک کی تنظیم سارک بھی یورپین یونین کی طرح کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔‘

محمل سرفراز کے مطابق گزشتہ حکومتیں بھی امن کی ہی بات کرتی رہی ہیں۔ اس کے بعد پلوامہ حملہ ہوگیا اس صورتحال میں بھی جذبہ خیر سگالی کے طور پر انڈین پائلیٹ ابھے نندن کو غیر مشروط طور پر رہا کیا گیا، اس عرصے میں پاکستان ’کرتاپور کاریڈور‘ کو کھولا گیا۔ پاکستان تو امن اور مذاکرات چاہتا ہے اب جب آرمی چیف اور حکومت ساتھ کھڑے ہیں دونوں ممالک کے لیے یہ ایک اچھا موقعہ ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی پیشکش کے پس منظر میں معاشی فیکٹر ہے، اگر امن کی بحالی کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا اور استحکام نہیں آتا تو ہم سڑک پر آجائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان نے انڈو پیسیفک اسٹریٹجی کو سنجیدگی سے نہیں لیا، امریکہ کا پیپر شائع بھی ہوگیا لیکن اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا، اس منصوبہ بندی میں نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور انڈیا ہیں، ہمارا کوئی تذکرہ نہیں ہے، جبکہ پاکستان چین کے کیمپ میں ہے جس سے ہمیں پہلے بھی فائدہ نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp