سندھی ادیب علی بابا اور ہماری بے حسی (خالد پرویز)۔


(خالد پرویز)

\"\"پاکستان بننے کے سات سال قبل یوسف بلوچ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام علی محمد رکھا گیا۔ یوسف بلوچ سہون شریف سے منتقل ہوکر تحصیل کوٹڑی ضلع جامشورو میں آباد ہوئے تھے۔ یوسف بلوچ خود ریلوے مین چھوٹے درجے کے ملازم تھے۔

علی محمد نے اپنی ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول نانگو لائین کوٹڑی سے حاصل کی اور شیر دل ہائی اسکول نانگو لائین کوٹڑی میں ہی مزید تعلیم کے لئے داخلہ لیا لیکن میٹرک کے امتحان کے دوران دو بچے امتحان ہال میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے، ممتحن نے علی محمد کو کمرہ امتحان سے نکال دیا۔ بس وہ علی محمد کے اسکول جانے کا آخری دن تھا پھر اس نے کبھی اسکول کا رخ نہیں کیا۔

والد صاحب نے علی محمد کو ریلوے کے محکمے میں کلرک کے طور پر بھرتی کرایا مگر کلرکی شاید علی محمد کے مزاج ہی میں تھی ہی نہیں۔ وہ کلرکی چھوڑ کر ٹیکسٹائیل مل میں اسسٹنٹ مینیجر لگ گیا۔ مگر آزادانہ مزاج کی وجہ سے وہ اپنی زندگی آزاد طریقے سے گزارنا چاہتا تھا۔ اس نے ٹیکسٹائیل مل کو بھی خیرآباد کہا اور خود کو پابندیوں سے آزاد کرا لیا۔ اس وقت شاید اسے احساس تک نہیں تھا کہ اس کے اندر ایک بڑا کلاکار اور قلمکار چھپا بیٹھا ہے، جو آگے چل کر \”علی بابا\” کے نام سے سندھی ادب میں بڑا مقام حاصل کرے گا۔

علی بابا جو ایک فقیر منش، ایماندار اور خوددار انسان تھا۔ وہ بچوں کی طرح معصوم تھا، اس کے اندر ایک خانہ بدوش انسان بستا تھا اور اس نے اپنے سارے روحانی رشتے بھی خانہ بدوشوں سے جوڑ لیے تھے۔ اس کا وقت دریائے سندھ پر آباد مچھیروں کے ساتھ گزرتا تھا۔

انہی دنوں انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے لئے ڈراما لکھا \”دنگی منجھ دریا\” جو ایک ایسا شاندار ڈرامہ ثابت ہوا جس نے اپنی پہچان دنیا کے تیسرے بہترین ڈرامے کے طور پر کرائی۔ 1982 میں جرمن کے شہر میونخ مین لگے سالانہ میلے میں 92 ممالک نے شرکت کی، جس میں علی بابا کا یہ ڈرامہ مقابلے میں تیسرے نمبر پر آیا اور اسے \”جرمن ایوارڈ\” سے نوازا گیا۔ علی بابا کے قلم سے سندھی شاہکار ناول \”موئن جو داڑو\” لکھا گیا۔ جس ناول کی سندھ کے ادبی علمی اور فکری حلقوں مین بہت پزیرائی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ناول علی بابا نے 14 برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا تھا۔ ان کی کئی تصانیف کہانیوں کی صورت میں آئیں۔ جن میں ان کی کہانیاں \”دہرتی دھکاٹا\”، \”منہنجیون کہانیوں\”، \”سندھ باد\” اور \”مسافر\” شاہکار کہانیاں قرار دی گئیں۔

علی بابا سندھی ادب کا کھرا، سچا، باغی اور شاہ لطیف کا یگانہ اور بیباک کردار تھا اور بہت بڑا انسان تھا۔ ایک ایسا بھی وقت آیا کہ علی بابا کے محلے میں گرلز اسکول کا قیام ضروری ہو گیا۔ محکمہ تعلیم کو اسکول کے لیے کوئی موزوں جگہ نہیں مل پا رہی تھی۔ اس وقت علی بابا نے اپنی واحد ملکیت جو ایک پلاٹ پر مشتمل تھی بلامعاوضہ سرکار کے حوالے کردی۔ جہاں آج بھی بچیاں اس اسکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

\"\"وہ سندھ کے کاچھو سے لے کر جنگشاہی، جھمپیر اور پورا تھر اور ننگرپارکر گھومتے رہے۔ انہوں نے اپنی سب کہانیوں مین مشاہداتی رنگ بھر دیے۔ ادب کی دنیا میں اتنا کچھ دینے کے بعد بھی وہ اپنی مفلسی میں مست رہے۔ ان کی خودداری کی وجہ سے انہوں نے کبھی بھی کسی کے آگے اپنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔اور نہ ہی انہوں نے سرکاری سطح پر کوئی مدد لی۔

وہ سندھی ادب کے بہت بڑے نام ہیں، جن کی بین الاقوامی شناخت سندھی ادیب کے طور پر ہے۔ مگر ہماری بے حسی وہیں کی وہیں ہے۔ ہم جیتے جی تو ان کو کچھ نہ دے سکے مگر ہم لوگ ایسے مردہ پرست ہیں کہ علی بابا کے اس دنیا سے جانے کہ بعد بہت قلیل وقت میں ان کو بھول جانا، سب علمی ادبی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے ندامت کا سبب ہونا چاہیے۔ علی بابا اب ہمارے بیچ نہیں ہیں، مگر جامشورو کی تین بڑی یونیورسٹیوں میں سے کسی لائیبریری کا، کسی سڑک کا نام علی بابا سے منسوب نہیں ہے۔ کوٹڑی شہر میں کوئی پارک، کوئی شاہراہ، کوئی ہسپتال ان کے نام نہیں ہے۔ جس پلاٹ کو انہوں نے بچیوں کی تعلیم کے لیے سرکار کو دیا تھا، اس پر بھی سرکاری نام لکھا ہوا ہے۔

حیدرآباد جو پوری سندھ کی علمی ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہے، وہاں کہیں پر بھی حتیٰ کہ سندھ میوزیم میں علی بابا کے نام کا کوئی کارنر نہیں ہے۔ حیدرآباد کی کوئی شاہراہ علی بابا کے نام پر نہیں ہے۔ علم اور ادب کے لیے خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے والے علی بابا کو کیفے خانہ بدوش نے بھی اپنا نام نہیں دیا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے علمی ادبی حلقے علی بابا کو بھول گئے ہیں۔ ابھی حیدرآباد میں شیخ ایاز کے نام سے میلہ لگایا گیا ہے، بہت زبردست کاوش ہے۔ ایاز ہماری نسلوں کا بہت بڑا شاعر ہے اور ایاز میلہ لگانے والے مبارک باد کے مستحق ہیں، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ کوئی ایک شام علی بابا کے نام ہی منائی \"\"جاتی۔ میں عقیدہ پرست نہ سہی عقیدت پرست ضرور ہوں۔ سندھ میوزیم میں سندھیالوجی میں کوئی ایسی تختی لگی ہوئی ہو \”علی بابا\” کارنر۔ کوئی بورڈ لگا ہو\” شاہراہ علی بابا\”۔ حکومت وقت کے صوبائی وزیر ثقافت علم ادب دوست ہیں شاعر ہیں، اس سے بڑھ کر صوبائی سیکریٹری ثقافت علم دوست، ادب دوست اور بہت سے کتابوں کے خالق ہیں۔ بہت وسیع مطالعے کے مالک اور شفیق و حلیم طبیعت رکھنے والے انسان ہیں۔ ان سے گذارش ہے کہ ہمارے فقیر منش قلمکار علی بابا کے ورثا کی خیر خیریت دریافت کرلیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ آپ آج اس جگہ پر ہیں کہ ان کے اہل عیال کے لیے درد کا مداوا بن سکتے ہیں۔ آپ آج علی بابا کے نام پر کسی ادارے میں \”علی بابا چیئر\” قائم کر کے علی بابا کی ادبی خدمات کے عیوض ان کو خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں۔

تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے۔ تاریخ کرداروں کا تعین ہمیشہ ان کی اچھایوں اور برایوں سے کرتی ہے۔ آپ کے لیے موقع ہے کہ آپ جو علی بابا کے لیے جیتے جی کچھ نہ کر سکے، ان کے دنیا سے رخصت ہونے کہ بعد علی بابا کی ادبی خدمات کے عیوض ان کے نام کا دیا جلا کر اس کا تھوڑا سا قرض ہی اتار لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments