فجر کی اذان سے متعلق شکایت کے بعد لاؤڈ سپیکرز کا رخ موڑ دیا گیا


الہ باد یونیورسٹی کی وائیس چانسلر ڈاکٹر سنگیتا شریواستو

الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر سنگیتا شریواستو

الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر سنگیتا شریواستو کی تحریری شکایت کے بعد ان کے گھر کے قریب واقع مسجد کے مینار پر لگے لاؤڈ سپیکرز کا رخ موڑ دیا گیا ہے اور آواز کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔

وائس چانسلر نے پریاگ راج کے ضلع میجسٹریٹ کو اس بارے میں خط تین مارچ کو لکھا تھا، لیکن کارروائی تب ہوئی جب یہ خط اخباروں کی سرخیوں میں آیا اور سوشل میڈیا میں اس پر بحث ہونے لگی۔ تاہم مسجد کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے خبریں سامنے آنے کے بعد خود ہی اس شکایت کو دور کرنے کے لیے اقدامات کر لیے تھے۔

پریاگ راج کے سِول لائینز علاقے کی طویل عرصے سے رہائشی الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا شریواستو کے مطابق ان کے گھر سے تقریباً تین سے چار سو میٹر کے فاصلے پر موجود مسجد سے صبح ہونے والی اذان سے ان کی نیند میں خلل پڑتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

افطار کے لیے ٹورانٹو کی مساجد میں مغرب کی اذان کی اجازت

’ معاملہ اذان یا آرتی کا نہیں بلکہ لاؤڈ سپیکر کا ہے‘

100سال پرانی مسجد سے آنے والی اذان کی آواز پر شکایت

انہوں نے پریاگ راج کے ضلعی میجسٹریٹ سے تحریری شکایت کی اور خط کی کاپیاں پریاگ راج کے ڈِوِژنل کمشنر، پریاگ راج زون پولیس کے انسپیکٹر جنرل اور پریاگ راج کے سینئیر سپرانٹینڈنٹ آف پولیس کو بھی بھیجی تھیں۔

معاملہ ہے کیا؟

پریاگ راج کے پوش علاقے سِوِل لائینز کے کلائیو روڈ پر کھڑی اس مسجد

الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے سرکاری لیٹر ہیڈ پر لکھے گئے اس خط میں پروفیسر سنگیتا شریواستو نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پریاگ راج کے ضلع میجسٹریٹ سے ’امن و امان قائم رکھنے کے لیے‘ ضروری اقدامات اٹھانے کی اپیل کی تھی۔

انگریزی میں لکھے گئے اس خط کا موضوع تھا ‘سِول لائینز میں شور کی آلودگی۔’

خط میں لکھا گیا تھا کہ ہر روز صبح 5.30 بجے کے قریب ان کے گھر کے نزدیک واقع مسجد سے آنے والی اذان کی اونچی آواز سے ان کی نیند خراب ہو جاتی ہے۔ وائس چانسلر نے خط میں یہ بھی واضح کیا کہ ان کی اس پریشانی کو کسی مذہب، ذات یا برادری کے خلاف تعصب کے طور پر نہ دیکھا جائے۔

بدھ سترہ مارچ کو اس بارے میں جب اخباروں میں خبر شائع ہوئی تو ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مناسب کارروائی کے بارے میں بیان آیا اور پھر اسی دن مسجد سے ہونے والی اذان کی آواز کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

پریاگ راج کے آئی جی پولیس کوپی سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ نہ صرف مسجد کو بلکہ زون میں آنے والے سبھی ضلعوں میں موجود تمام عبادت گاہوں کو اس حوالے سے اقدامات کے لیے کہا گیا ہے۔

آئی جی کوپی سنگھ کے مطابق ‘ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ رات دس بجے اور صبح چھ بجے کے درمیان کہیں بھی اونچی آواز والے مائیک یا لاؤڈ سپیکرز کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مائیک ہٹانے کے لیے کہا نہیں گیا تھا لیکن آواز کو ایک طے شدہ ڈیسیبل سطح سے نیچے رکھنے کو کہا گیا تھا۔ اس حوالے سے زون کے چاروں ضلعوں پریاگ راج، پرتاپ گڑھ، کوشامبی اور فتح پور میں اس معاملے میں سختی برتنے کو کہا گیا ہے۔ رات دس بجے سے بارہ بجے کے بیچ اگر ضروری ہو تو اس کے لیے خصوصی اجازت لی جا سکتی ہے۔’

وائس چانسلر میڈم نے ہم سے خود ہی کہہ دیا ہوتا تب بھی ہم ایسا کر دیتے

مسجد کے متولی کلیم الرحمان

مسجد کے متولی کلیم الرحمان کا کہنا ہے کہ میڈیا پر خبریں سامنے آنے کے بعد انھوں نے خود ہی شکایت دور کرنے کے لیے اقدامات کر دیے تھے

پریاگ راج کے پوش علاقے سِوِل لائینز کے کلائیو روڈ پر قائم اس مسجد کی انتظامیہ نے وائس چانسلر کی شکایت میڈیا میں آنے کے بعد خود ہی لاؤڈ سپیکر کی آواز کو کم کر دیا تھا۔

مسجد کے متولی کلیم الرحمان نے بی بی سی کو بتایا ’بعض پولیس اہلکار اس حوالے سے ہم سے بات چیت کرنے آئے تھے لیکن ہم نے پہلے ہی لاؤڈ سپیکر کا رخ دوسری طرف کر دیا تھا اور آواز کو بھی پہلے کے مقابلے میں آدھا کر دیا تھا۔ پولیس والے اس بات سے مطمئن ہو کر چلے گئے تھے۔ مسجد کے مینار پر پہلے چار لاؤڈ سپیکر لگے تھے لیکن کورونا کے دوران دو ہٹا دیے گئے تھے۔ آواز پہلے بھی بہت تیز نہیں تھی، لیکن ہو سکتا ہے کہ صبح صبح تیز لگتی ہو۔ وائس چانسلر میڈم نے ہم سے خود ہی کہہ دیا ہوتا تب بھی ہم ایسا کر دیتے۔‘

کلیم الرحمان نے کہا کہ پولیس والے آئے تو تھے لیکن ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا بلکہ جو ضروری کارروائی تھی وہ پہلے ہی مسجد انتظامیہ خود ہی کر چکی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ مینار پر لگے لاؤڈ سپیکرز میں سے ایک کا رخ سڑک کی طرف تھا لیکن اب اسے بھی انھوں نے اپنے گھروں کی طرف کر دیا ہے تاکہ کسی کو کوئی دقت نہ ہو۔

وی سی کا گھر

وی سی کا گھر

30 سال سے اس مکان کی رہائشی

پروفیسر سنگیتا شریواستو نے تقریباً چار ماہ پہلے الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا اور اس سے پہلے وہ پریاگ راج میں ہی رجو بھیا سٹیٹ یونیورسٹی کی وائس چانسلر تھیں۔ ان کا تعلق پریاگ راج سے ہی ہے اور ان کے شوہر جسٹس وکرم ناتھ اس وقت گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں اور سِوِل لائینز میں ان کا یہ مکان ان کا آبائی مکان ہے۔

پروفیسر شریواستو کو وائس چانسلر ہونے کے ناطے ایک سرکاری گھر بھی ملا ہوا ہے۔ وائس چانسلر کے دفتر نے اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں دیں، تاہم اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا گیا کہ سرکاری گھر کے علاوہ پروفیسر شریواستو سِوِل لائینز میں مقیم اپنے ذاتی گھر میں بھی رہتی ہیں اور وہاں ان کا کیمپ آفس بھی ہے۔

کئی طلبہ نے اس پر احتجاج کیا

یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کی عمارت کے باہر سابق وائس پریزیڈنت عادل حمزہ کی سربراہی میں بڑی تعداد میں ہندو اور مسلمان طالب علموں نے ماتھے پر تلک اور سر پر ٹوپی پہن کر وائس چانسلر سنگیتا شریواستو کے خلاف مظاہرہ کیا

اس معاملے میں یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر پچھلی تین دہائیوں سے جس مکان میں اذان سے کوئی دقت نہیں ہوئی، وہاں اب اچانک ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں ہم نے وائس چانسلر سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

پروفیسر سنگیتا شریواستو کسی ذاتی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے اس وقت ملک سے باہر ہیں اور یہ خط انہوں نے باہر جانے سے پہلے لکھا تھا۔

اس دوران سوشل میڈیا پر پروفیسر شریواستو کے خط پر بحث کے علاوہ الہ آباد یونیورسٹی کی کئی سٹوڈنٹ تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔

یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کی عمارت کے باہر سابق وائس پریزیڈنت عادل حمزہ کی سربراہی میں بڑی تعداد میں ہندو اور مسلمان طالب علموں نے ماتھے پر تلک اور سر پر ٹوپی پہن کر وائس چانسلر سنگیتا شریواستو کے خلاف مظاہرہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp